فتح عموریہ اور جنگِ روم

پیر 26 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

بابک خرمی جب اسلامی لشکر کے محاصرہ میں آ کر بہت تنگ اور مجبور ہوا تو اس نے ایک خط نوفل بن میکائیل قیصرِ روم کے نام روانہ کیا ۔ اس میں لکھا کہ معتصم نے اپنی تمام و کمال فوجیں میرے مقابلہ پر روانہ کر دی ہیں ۔ بغداد و سامرہ اور تمام صوبے اس وقت فوجوں سے خالی ہیں ۔ اور تمام سردارانِ لشکر میرے مقابلے میں مصروفِ  پیکار ہیں ۔


آپ کو اس سے بہتر کوئی دوسرا موقعہ نہیں مل سکتا ۔ آپ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ اور اسلامی علاقہ کو فتح کرتے ہوۓ بغداد  تک چلے جائیں۔ بابک کا مدعا یہ تھا کہ اگر قیصرِ روم نے حملہ کر دیا تو اسلامی فوج کے دو طرف تقسیم ہونے سے میرے اوپر کا دباؤ کم ہو جاۓ گا ۔ قیصر اس خط کو پڑھ کر ایک لاکھ فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا ۔ مگر اس وقت بابک کی جنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔

(جاری ہے)

اور اسلامی لشکر پوری طاقت سے اس کے سدِ راہ ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ نوفل نے سب سے پہلے زبطرہ پر شب خون مارا اور وہاں کے مردوں کو جو مقابلے پر آۓ ۔ قتل کر ڈالا اور عورتوں ، بچوں کو گرفتار کر کے لے گیا ۔  اس کے بعد ملطیہ کی طرف متوجہ ہوا اور وہاں بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا ۔
معتصم کے پاس ۲۹ ربیع الثانی سنہ ۲۲۳ ھ کو زبطرہ اور ملطیہ کے مفتوح و برباد ہونے کی خبر پہنچی ۔

اس خبر کو بیان کرنے والے نے یہ بھی کہا کہ ایک ہاشمیہ عورت کو رومی کشاں کشاں لیۓ جاتے تھے ۔ اور وہ معتصم معتصم پکارتی جاتی تھی ۔ یہ سنتے ہی معتصم لبیک لبیک کہتا ہوا تختِ خلافت سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر کوچ کا نقارہ بجوا دیا ۔ لشکر اور سردارانِ لشکر آ  آ  کر شامل  ہوتے گئے ۔ تمام شاہی لشکر اور مجاہدین کا ایک گروہ کثیر معتصم کے ہمراہ رکاب تھا ۔

معتصم نے عجیف بن عنبسہ اور عمر فرغانی کو تیز سواروں کے دستے  دے کر آگے روانہ کر دیا کہ  جس قدر جلد ممکن ہو زبطرہ پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو اطمینان دلائیں اور رومیوں کو مار بھگائیں ۔ یہ دونوں سردار زبطرہ میں پہنچے تو رومی ان کے پہنچنے سے پہلے فرار ہو چکے تھے۔
ان کے بعد خلیفہ معتصم بھی مع لشکر پہنچ گیا ۔ وہاں خلیفہ نے معلوم کیا کہ رومیوں کا سب سے زیادہ مشہور و مضبوط اور اہم شہر کونسا ہے ۔

لوگوں نے کہا کہ آج کل شہر عموریہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم قلعہ و شہر دوسرا نہیں ہے۔ اور وہ اس لیۓ بھی زیادہ اہم شہر ہے کہ قیصرِ روم نوفل کی جاۓ پیدائش ہے ۔ معتصم نے کہا کہ زبطرہ میری جاۓ پیدائش ہے ۔ اس کو قیصر نے غارت کیا ہے ۔ تو میں اس کے جواب میں اس کی جاۓ  پیدائش یعنی عموریہ کو برباد کروں گا ۔ چنانچہ اس  نے اس قدر آلاتِ جنگ اور سامانِ حرب فراہم کیا کہ اس سے پہلے کبھی فراہم نہ ہوا تھا ۔

پھر اس نے مقدمتہ الجیش کی افسری اشناس کو دی ۔ محمد بن ابراہیم بن مصعب کو اس کا کمکی مقرر کیا ۔ میمنہ پر ایتاخ کو اور میسرہ پر جعفر بن دینار خیاط کو مقرر کیا ۔ قلب کی افسری عجیف بن عنبسہ کو دی ۔ اس انتظام کے بعد بلادِ روم میں داخل ہوا۔ ان تمام افواج کی اعلٰی سپہ سالاری عجیف بن عنبسہ کو سپرد کی ۔ مقامِ سلوقیہ پہنچ کر نہرس کے کنارے ڈیرے ڈال دیئے ۔

یہ مقامِ طرطوس  سے ایک دن کی مسافت کے فاصلہ پر تھا ۔
یہاں یہ بات بھی  ذکر کے قابل ہے کہ خلیفہ معتصم بالّٰلہ نے افشین کو آرمینیا و آذر بائیجان کا گورنر بنا کر آرمینیا کی جانب بھیج دیا تھا ۔ افشین آرمینیا سے اپنا لشکر لے کر بلادِ روم میں داخل ہوا ۔ لشکر اسلام کے ایک دستے نے آگے بڑھ کر مقامِ انگورہ کو فتح کیا ۔ اور وہاں سے غلہ کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے ہاتھ آیا ۔

جس کی مسلمانوں کو سخت ضرورت تھی ۔ قیصرِ روم لشکرِ اسلام کے آنے کی خبر سُن کر مقام انگورہ پر مقابلہ کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن یہاں کی متعینہ فوج میں اور اس کے افسر میں اتفاقاً ناچاقی ہوئی اور فوج ناراض ہو کر پیچھے واپس چلی گئی ۔ اس عرصہ میں قیصر خود سرحدِ آرمینیا کی طرف افشین کو روکنے کے لیۓ گیا ہوا تھا ۔ وہاں سے شکست کھا کر انگورہ کی طرف لوٹا ۔

تو یہاں مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا ۔ اس حالت میں وہ مجبوراً عموریہ کی طرف متوجہ ہوا اور وہیں ہر قسم کی تیاری اور معرکہ آرائی کا سامان فراہم کیا ۔ چاروں طرف سے فوجوں کو فراہم کر کے ہر قسم  کے آلاتِ حرب و سامانِ جنگ کی فراہمی میں مصروف ہو گیا ۔ ادھر خلیفہ معتصم نے انگورہ میں قیام کر کے افشین کا انتظار کیا ۔ یہیں افشین نے حاضر ہو کر خلیفہ کی ہمرکابی کا فخر حاصل کیا ۔


ماہِ شعبان سنہ ۲۲۳ ھ کی آخری تاریخوں میں خلیفہ معتصم نے معہ فوج مقام انگورہ سے کوچ کیا ۔ یہاں سے بقصدِ جنگ روانہ ہوا تو افشین کو میمنہ پر اور اشناس کو میسرہ پر مامور کیا ۔ اور خود قلب میں رہا ۔ غرض لشکرِ اسلام نے آگے بڑھ کر شہر عموریہ کا محاصرہ کر لیا ۔ اور مورچے قائم کر کے ساباط اور دبابوں کے ذریعہ فصیل کی طرف بڑھنا شروع کیا ۔ غرض ۶ ماہ رمضان سنہ۲۲۳ تک یعنی ۵۵ روز عموریہ کا محاصرہ رہا ۔

بالآخر مسلمانوں نے عموریہ کو فتح کر کے وہاں کے لوگوں کو گرفتار کیا ۔ مالِ غنیمت کو معتصم نے پانچ روز تک فروخت کرایا ۔ پھر جو باقی بچا سب کو جلا دیا ۔ پھر فوج کو حکم دیا کہ عموریہ کو مسمار کر کے زمین کے برابر کر دو ۔ چنانچہ فوج نے اس کام کو انجام دے کر عموریہ کو برباد کر دیا ۔ قیصر نوفل بھاگ کر قسطنطنیہ چلا گیا ۔ اور خلیفہ معتصم نے قیدیوں کو اپنے سپہ سالاروں میں تقسیم کر کے طرطوس  کی جانب کوچ کیا ۔


عجیف و افشین دونوں سپہ سالاروں میں رقابت تھی ۔ خلیفہ معتصم عجیف کے کاموں پر اکثر نکتہ چینی کیا کرتا تھا اور افشین کے مقابلہ میں اس کی بے قدری و بے عزتی ہوتی  تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عجیف کی وفاداری میں فرق آ گیا اور وہ خلیفہ معتصم کے خلاف منصوبے گانٹھنے لگا ۔ چنانچہ بلادِ روم پر چڑھائی کے وقت اس نے عباس بن مامون سے جو اس سفر میں ساتھ تھا ۔

کہا کہ آپ نے بڑی غلطی کی کہ معتصم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اگر آپ خود خلیفہ بننے کی خواہش کرتے تو تمام  سردارانِ فوج آپ کی حمایت پر آمادہ تھے ۔ عباس کو اس تحریک و ترغیب سے کچھ خیال پیدا ہوا اور عجیف نے اسی قسم کے تذکرے بار بار کر کے عباس کو خروج پر آمادہ کر لیا ۔ تجویز یہ ہوئی کہ پوشیدہ طور پر اول سردارانِ لشکر کو ہم خیال بنایا جاۓ اور پھر بیک وقت معتصم ، افشین اور اشناس  کو قتل کر کے عباس کی  خلافت کا اعلان کر دیا جاۓ ۔

اور اس تجویز پر کاربند ہو کر بہت سے لشکر کو عباس کی خلافت پر آمادہ کر لیا گیا ۔ مگر فتح عموریہ کے بعد وہاں سے واپس ہوتے ہوۓ راستے میں معتصم کو اس سازش کا حال معلوم ہو گیا ۔
معتصم نے اول عباس کو بلا کر قید کر لیا اور افشین کے سپرد کر دیا ۔ پھر مشار بن سہل ، عمر فرغانی اور عجیف کو بھی یکے بعد دیگرے گرفتار کر کے قید کر لیا ۔ اول مشار بن سہل کو قتل کیا ۔

پھر مقام بنج میں پہنچ کر عباس بن مامون کو ایک بورے میں بھر کر سی دیا ۔اسی حالت میں دم گُھٹ کر وہ مر گیا۔ پھر مقامِ نصیبین میں پہنچ کر ایک گڑھا کُھدوایا ۔ اور عمر فرغانی کو اس میں زندہ دفن کر دیا ۔ پھر موصل میں پہنچ کر عجیف کو بھی ایک بورے میں بھر کر سی دیا ۔ جس سے دم گُھٹ کر وہ مر گیا ۔ سامرہ میں داخل ہو کر خلیفہ مامون الرشید کی بقیہ اولاد کو گرفتار کرا کر سب کو ایک مکان میں قید کر لیا ۔ یہاں تک کہ وہ سب وہیں مر گئے ۔ غرض اس سفر میں خلیفہ معتصم نے چُن چُن کر ہر ایک اُس شخص  کو جس پر ذرا بھی بغاوت کا شُبہ ہوا ، قتل کر کے  ِقصہ پاک کیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :