ہجرت کا چوتھا سال ۔ قسط نمبر2

ہفتہ 7 اگست 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

چند روز بعد اسی ماہِ صفر سنہ ۴ ھ میں ابو براء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی ۔ وہ نہ تو مسلمان ہوا اور نہ اس نے اسلام کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا ۔ بلکہ کہنے لگا۔ کہ مجھ کو اپنی قوم کا خیال ہے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کچھ لوگوں کو میرے ساتھ کر دیں ۔

کہ وہ نجد میں چل کر میری قوم کو اسلام کی طرف بلوائیں اور نصیحت کریں ۔
 آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اہلِ نجد سے اندیشہ ہے کہ وہ اُن مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ ابوبراء نے کہا کہ اس بات کا آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم مطلق اندیشہ نہ کریں ۔

(جاری ہے)

میں اُن لوگوں کو اپنی حمایت میں لے لوں گا ۔ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے منذر بن عمرو سامدی کو ستر (۷۰) صحابیوں کے ساتھ روانہ فرمایا ۔

یہ ستر اصحاب سب کے سب قاری اور قرآنِ کریم کے حفاظ تھے ۔
جب یہ لوگ ارض بنو عامر اور حرہ بنو سلیم کے درمیان بیر معونہ پر پہنچے ۔ تو آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا خط حرم بن ملجان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ عامر بن الطفیل کے پاس پہنچا ۔ یہ عامر بن الطفیل ، ابو بن عامر بن مالک مذکور کا بھتیجا تھا ۔ اس نے اس خط کو پڑھا نہیں اور حضرت حرم بن ملجان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو شہید کر دیا ۔

پھر اپنی قوم بنو عامر کو ترغیب دی ۔ کہ ان تمام مسلمانوں کو قتل کر دو ۔ لیکن بنو عامر نے انکار کیا ۔ تب اُس نے بنو سلیم سے کہا ۔ چنانچہ بنو سلیم کے سردار عل ، ذکوان اور عصیہ آمادہ ہو گئے ۔ اور بلا جُرم ظالموں نے سب کو شہید کر ڈالا ۔
 ابو برآء عامر بن مالک کو اس حادثہ کا بڑا رنج ہوا کہ اس کی امان میں اس کے بھتیجے نے فتور ڈالا ۔ اسی رنج میں چند روز کے بعد وہ مر گیا ۔

عامر بن طفیل حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری کو گرفتار کر کے لے گیا تھا ۔ پھر ان کے چہرہ کے بال تراش کر اس نے چھوڑ دیا تھا ۔ کیونکہ اس کی ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی تھی ۔ عامر بن طفیل نے اس مَنت کو پورا کرنے کے لیۓ ان کو چھوڑ دیا ۔ جب یہ قید سے چھوٹ کر بیر معونہ سے مدینہ کو آ رہے تھے ۔ تو اُن کو دو اشخاص  جو بنو عامر سے تھے ۔ راستے میں ملے ۔

عمرو بن اُمیہ ضمری رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے ان کو دشمن سمجھ کر اور موقع پا کر انتقاماً قتل کر دیا ۔ مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام حالات کی اطلاع دی ۔ عامر بن طفیل ایک مہینہ بعد طاعون سے ہلاک ہو گیا ۔
جب آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرو بن اُمیہ سے راستہ میں اُن دو اشخاص کے قتل کرنے کا حال سُنا ۔ تو فرمایا کہ وہ دونوں تو ہماری امان میں تھے اور ہم سے عہد و پیمان کر گئے تھے ۔

اب ان کا خون بہا دینا ضروری ہے ۔ یہودیوں کا قبیلہ بنی نضیر ، قبیلہ بنو عامر کا ہم عہد تھا ۔ادھر مسلمانوں سے بھی اُن کا معاہدہ تھا ۔ جس کی رُو سے ان کو خون بہا میں مدد کرنی چاہیے تھی ۔ اس لیۓ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خون  بہا کے معاملہ میں بنو نضیر سے مشورہ کر لینا مناسب سمجھا ۔ اور اُن کے محلے یا ان کی بستی میں خود تشریف لے گئے ۔

آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، حضرت عمر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اور حضرت علی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ بھی گئے ۔
 بنو نظیر نے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے پر بظاہر خون بہا میں شرکت کرنے پر آمادگی  کا اظہار کیا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قلعہ کی دیوار کے سایہ میں بٹھایا ۔

اور لوگوں کو فراہم کرنے اور بُلانے کے بہانے سے اِدھر اُدھر چل دیئے ۔ انھوں نے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے موقع پر بٹھایا تھا کہ قلعہ کی منڈیر پر اُس جگہ ایک بہت بڑا پتھر دیوار کی طرح سے کھڑا ہوا رکھا تھا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے جُدا ہو کر انھوں نے مشورہ کیا کہ یہ بہت اچھا موقع ہے ۔ کوئی شخص قلعہ پر چڑھ کر اُوپر سے یہ پتھر دھکیل دے ۔

تاکہ محمد ( صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اُن کے تینوں ساتھی شہید ہو جائیں ۔
چنانچہ ایک شخص عمرو بن محاسن بن کعب فوراً اوپر چڑھا ۔ کہ پتھر آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم پر گراۓ ۔ ابھی وہ پتھر گرانے نہ پایا تھا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو الّٰلہ تعالٰی نے بذریعہ وحی یہودیوں کے اس منصوبہ کی اطلاع دی ۔ اور آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم فوراً وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوۓ ۔

اور صحابہ کرام کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوۓ ۔ یہودیوں نے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم  کو واپس بُلانا چاہا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ہمارے قتل کرنے کا اس طرح منصوبہ کیا ۔ اب ہم کو تمھارا اعتبار نہ رہا ۔
یہودیوں نے اپنے اس منصوبہ سے انکار نہیں کیا نہ اظہارِ ندامت کیا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں پہنچ کر ان کے پاس  پیغام بھیجا ۔

کہ دوبارہ عہد نامہ لکھو  ۔اُنہوں نے عہد نامہ لکھنے سے انکار کیا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اُن کو پیغام دیا کہ اگر عہد نامہ نہیں لکھتے تو تم یہاں سے دس روز کے اندر جلا وطن ہو جاؤ ۔ اور کسی دوسری جگہ چلے جاؤ ۔ بنو نظیر نے اس کے جواب میں انکار کیا ۔ اور لڑائی کے لیۓ مستعد ہو گئے ۔ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی صحابہ کرام رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو لے کر اُن پر چڑھائی کی ۔

بنو نظیر اپنے قلعہ میں محصور ہو کر بیٹھ گئے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے محاصرہ کر لیا ۔ یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا ۔ مدینہ کے منافقین اور عبدالّٰلہ بن ابی نے بنو نظیر کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم تمھارے شریک ہیں ۔ اگر تم قلعہ سے نکل کر باہر میدان میں لڑو گے ۔ تو ہم بھی تمھارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کریں گے ۔ اگر تم جلا وطن ہونا قبول کرو گے ۔

تو ہم بھی تمھارے ساتھ ہی مدینے کو چھوڑ کر جلا وطن ہو جائینگے ۔
منافقین کی اس پشت گرامی اور ہمت افزائی سے بنو نضیر کے دم خم بھی بڑھ گئے تھے ۔ مگر آخر پندرہ دن کے محاصرے اور مقابلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں نے عبدالّٰلہ بن ابی کے ذریعہ  پیغام بھیجا کہ ہماری جان بخشی کی جاۓ ۔تو ہم جِلا وطن ہونے پر آمادہ ہیں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ سواۓ ہتھیاروں کے اور تمام مال و اسباب جو اونٹوں پر بار ہو سکتا ہے ۔

لے جاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ ۔ چنانچہ وہ ہتھیاروں کے سوا جس قدر مال اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے تھے ۔ لے کر چلے گئے ۔ جاتے ہوۓ انھوں نے اپنے گھروں کو خود ہی ڈھا کر مسمار کر دیا ۔ اور گھر کے مٹکے وغیرہ برتن سب توڑ پھوڑ گئے ۔ یہاں سے روانہ ہو کر وہ کچھ تو خیبر میں چلے گئے ۔ اور کچھ ملک شام میں جا کر آباد ہو گئے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بقیہ مال و جائیداد اور ہتھیار مہاجرین میں تقسیم فرما دیئے ۔


 انصار میں سے صرف حضرت ابو دجانہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اور سہل بن حنیف رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ان دو شخصیات کو اس مالِ غنیمت میں سے حصہ ملا ۔ کیونکہ یہ دونوں بھی بہت غریب اور افلاس کی حالت میں تھے ۔ یہودیوں میں سے یامین بن عمیر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اور سعید بن وہب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ مسلمان ہو گئے ۔ اس لیۓ اُن کے مال و اسباب و اسلحہ جنگ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا ۔ اس غزوۂ کا نام غزوۂ  بنو نظیر مشہور ہوا ۔ یہ ماہ ربیع الاول سنہ ۴ ھ یعنی جنگِ احد سے پورے چھ مہینے بعد کا واقعہ ہے ۔ سورۂ حشر اسی غزوہ میں نازل ہوئی۔   اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :