میرے بچپن کے دن

جمعہ 12 جون 2020

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

ہم میں سے وہ جو زندگی کی ساٹھ ، پینسٹھ بہاریں دیکھ چکے ہیں اگر اپنے بچپن پر نظر ڈالیں تو کیا خوشگوار زمانہ دکھاٸی دیتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے ملک میں پرانا زمانہ نٸے دور میں ڈھلتا جارہا تھا۔ پرانی روایات۔ رسم و رواج اور قدیم گھریلو ماحول میں ہلکی ہلکی سی جدیدیت کا ابھی تڑکا لگنا شروع ہوا تھا۔فارغ اوقات کو گزارنے کیلیے کچھ دیسی قسم کے مشاغل اپناے جاتے۔

سواری کے لیے ساٸکل ایک محترم سواری سمجھی جاتی۔موٹر ساٸکل اور موٹر کار تو کسی کسی کے پاس ہوتی۔ آج کل کے بچے تو شاٸد واقف بھی نہ ہوں کہ تانگہ کسے کہتے ہیں لیکن اس دور میں بچوں کو سکول لانے لے جانے کیلیے ایک یہی سواری میسر تھی۔جس میں صبح صبح بچے اپنے بستوں سمیت لد جاتے اور راستے میں مستیاں کرتے اور کوچوان کی صلواتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوے شغل میلہ کرتے سکول جاتے۔

(جاری ہے)


 ہم میں بہت سے تو ایسے بھی ہوں گے جن  کے بچپن میں تو ابھی ٹی وی بھی گھروں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ہمارے بڑے بوڑھے کام کاج سے فارغ ہو کر گرمیوں میں مکانوں کے صحنوں میں اور سردیوں میں ایک کمرے میں انگیٹھیوں کے قریب لحافوں میں دبک کر گھر والوں کے ساتھ گپیں لگایا کرتے یا پھر اس وقت کی چند ان ڈور گیموں کے دور چلا کرتے۔ بچہ پارٹی بھی اسی کمرے میں دھماچوکڑی مچایا کرتی۔

ایسے میں گھر والوں کا آپس کا یہ ملاپ رشتوں میں وہ دوریاں نہ آنے دیتا جو آجکل کے دور میں ایک ہی گھر میں رہنے والوں میں موباٸل فون۔ لیپ ٹاپ یا ویڈیو گیمز نے پیدا کردی ہیں۔
گرمیوں کی دوپہروں میں نیکریں بنیانیں پہن کر جسم پر پانی بہا کر پنکھوں تلے آ بیٹھتے اور چند لمحوں کےلیے اے سی جیسی ٹھنڈک کا مزہ لیتے۔اور جب جسم خشک ہو جاتے تو پھر سے غسلخانوں کی طرف بھاگتے۔

  یا پھر صحنوں میں ایکدوسرے پر پانی پھینک کر ہلہ گلہ کرتے۔دوپہر کے اوقات میں بالٹی میں برف ڈال کر آموں کو ٹھنڈا کرتے اور سارے گھروالے آلتی پالتی مار کر خوب آم کھاتے۔اس زمانے میں نہ تو کسی کو کوٸی پریشانی ہوتی اور نہ ہی فکر۔
 سکولوں میں بھی بس جو پڑھاٸی ہو جاتی ہو جاتی اور گھر کے کام کے طور پر بس پہاڑے یاد کرنے کو دے دیے جاتے۔یہ ماحول ان گھرانوں کا تھا جوآجکل سفیدپوش کہلاتے ہیں۔

ذرا سے متمول گھرانوں میں بھی یہی رواج تھا کہ شام کےوقت گھر کے سب لوگ موٹر کار میں گھومنے نکل جاتے اور یا تو کسی دوست احباب کے پاس جاکر محفل جماتے یا ویسے ہی گھوم گھام کر واپس آجاتے۔
عمررسیدہ لوگوں نے ٹاٸم پاس کیلیے ایک ٹرانزسٹر رکھا ہوتا جس پر سنجیدہ طبیعت کے بزرگ بی بی سی واٸس آف امریکہ سے لیکر پاکستانی خبریں اور تبصرے سنتے جبکہ شوقین مزاج بزرگ ریڈیو سیلون سے انڈین گانے سنا کرتے۔

جب ٹی وی آیا تو بچہ پارٹی تو سرشام ہی کارٹون سے لطف اندوز ہوکر ساٸڈ پہ ہوجاتی۔ نوجوان بچیاں اور ادھیڑ عمر کی عورتیں آٹھ بجے کا ڈرامہ دیکھتیں اور بزرگ نو بجے کا خبرنامہ بھگتا کر اپنے اپنے بستروں میں گھس جاتے۔ جبکہ لڑکے بالے بھی گھر سے باہر گلی محلےمیں سہ پہر سے شام تک مختلف قسم کی کھیلوں سے دل بہلا کر آذان مغرب کے ساتھ ہی گھروں کو سدھارتے۔


تہزیب و اخلاق کا یہ عالم تھا کہ محلے کے ہر بزرگ کا احترام اسی طرح کیا جاتا جیسے اپنے والد یادادا کا۔ اور یہ بزرگ بھی محلے کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہوے انکی کسی شرارت پر ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے گریز نہیں کرتے۔ لہزہ ایسےماحول میں یہ احساس ہوتا گویا  پورا محلہ ایک ہی گھر ہے۔
آج کے بچوں کو دیکھو تو لگتا ہے کہ ان پر تو جیسے بچپن آیا ہی نہیں۔

جہاں جدید ساٸنسی آلات ازقسم موباٸل فون۔کمپیوٹر وغیرہ نے ان کا ذہن منہ سے آواز نکالنے سے پہلے ہی پختہ کیے دیتے ہیں۔ وہیں فاسٹ فوڈ کی بھرمار نے انکوبالکل ہی کاہل اور سست بنادیا ہے۔اب وہ دھماچوکڑی اور میدانی کھیلوں کے نام سے بھی دور بھاگتے ہیں۔ ھاں موباٸل پر ان سے سارا دن۔کرکٹ میچ کھلا لو یہ نہیں تھکیں گے۔بھٸی سچی بات ہے کہ آج کے بچوں کی زندگی میں ہمیں تو وہ رونق۔

اندرونی خوشی۔ چستی اور شرارتیں نظر نہیں آتیں جو بچپن کا خاصہ ہوتی ہیں۔
کہاں تو اس وقت بچے اپنے اندرونی مظبوط دفاعی نظام کی وجہ سے چھوٹے موٹے زکام بخار کھانسی کو لفٹ ہی نہیں کراتے تھے اور کہاں اب ذرا سی چھینک آجاے تو اینٹی الرجی اور اینٹی باٸیوٹک دواٶں کا کورس کرنا پڑجاتا ہے۔ ہر دوسرا بچہ موٹے شیشوں کا چشمہ ناک پہ ٹکاے نظر آتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سنگین یہ کہ اب بچوں کو بھی ذیابیطس اور بلند فشار خون ( بلڈ پریشر) جیسے بزرگانہ عارضے لاحق ہونے لگے۔
اگر ایسا ہی چلتا رہا تو بھیا وہ زمانہ دور نہیں کہ جب بچے پیدا ہوتے  ہی بوڑھے ہوجایا کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :