کورونا پر کنٹرول

منگل 16 جون 2020

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

کورونا کی آمد کا غلغلہ گزشتہ سال نومبر دسمبر میں شروع ہوا۔ بھاٸی لوگوں نے اس وقت سے اس سے بچاو پر کام کرنا شروع کر دیا۔نیشنل لیول پر بحرانوں سے نمٹنے کیلیے قاٸم ادارے نے حکمت عملی تشکیل دی۔علاج اور احتیاطی تدابیر کا تعین کرکے ضروری ادویات۔وینٹیلیٹرز اور ایسے دوسرے سامان کا بندوبست کیا گیا۔ شروع میں کچھ ایسی بے احتیاطیاں سرزد ہوٸیں جو ملک میں مرض کے تیزی سے پھیلاو کا باعث بنی اور
معاملہ وہاں بگڑا جہاں اس پلان پر عمل کرنے والے اداروں کے چند نااہل عہدیداران اور کارکنان نے ذمہ داری نہیں دکھاٸی۔

مثلاً چند قرنطینہ سینٹروں سے صفاٸی اور حفظان صحت کے اصولوں کے مخالف انتظامات کی شکایتوں کی رپورٹیں۔ کچھ ہسپتالوں میں درکار سہولتوں کا فقدان۔

(جاری ہے)

اداروں اور عوامی سطح پر احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنا۔۔۔۔۔ جیسے اقدامات نے ملک میں وباکے فروغ کو تقویت دی۔
حکومت وقت کو بحران کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ چند ایسی مشکلات بھی پیش آٸیں جنکی وجہ سے مطلوبہ نتاٸج حاصل نہ کیے جاسکے۔

جیسا کہ آج بھی ہماری عوام کی ایک بڑی تعداد اس وباکو وبا ماننے پر ہی تیار نہیں۔بلکہ اس کو عام نزلہ زکام سمجھ کر ان تمام احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کررہے ہیں جو اس کے پھیلاو میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔دوسرے  نمبرپر چند سیاسی مخالفین کا رویہ ایسا ہے کہ وہ اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلیے ابھی تک عدم تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ایسے اجتماعات کرنے سے باز نہیں آتے جہاں عوام احتیاطی  تدابیر کو بالاے طاق رکھتے ہوے ایک ھجوم کی صورت میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ مارکیٹوں اور بازاروں میں بھی عوام احتیاطی تدابیر کا اتنا خیال نہیں رکھ رہے جس کی ضرورت ہے۔ تاہم مساجد میں ایک نظم و ضبط کا ماحول اور نہایت مناسب احتیاط دیکھنےکو مل رہی ہیں جہاں امام صاحبان SOPs پر سختی سے عمل کراتے نظر آتے ہیں۔
حکومت وقت کی پلاننگ اور وبا کا مقابلہ کرنے میں سنجیدگی نظر تو آرہی ہے لیکن ان پالیسیوں کے وہ نتاٸج سامنے نہیں آرہے جن کی توقع تھی اور باوجود کوشش کے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ SOPs پر عملدرامد کراتے وقت مزید سختی کی جاے۔میری ناقص راے میں مندرجہ ذیل چند اقدامات پر توجہ دی جاے۔
1. عوام میں شعور کو بیدار کرنے کی مہم میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلیے ٹاٸگر فورس کے رضاکار سڑکوں اور بازاروں میں پھیل کر فرداً فرداً ان لوگوں کو SOPs پر عمل کرنے کی تلقین کریں جو احتیاط نہیں کررہے۔

میڈیا پر اس مہم کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جاے۔شعور کی بیداری کی مہم کیلیے مساجد کے امام صاحبان کی مدد لی جاسکتی ہے کیونکہ عام مسلمان امام صاحبان کی تلقین کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
2. وہ علاقے جو زیادہ متاثر ہیں وہاں جزوی لاک ڈاون کر کے لوگوں کو اپنے گھروں تک سختی سے محدود کیا جاے۔
3.  حکومتی سطح پر وہ تمام رقم جو بین الاقوامی امداد۔

ملک کے اندر مخیر حضرات کے عطیات اور دیگر ذراٸع سے حاصل ہو رہی ہے اس سے تعلیمی اداروں۔ پبلک مقامات۔ مساجد اور ایسے دوسرے عوامی اجتماعات کے مقامات پر ڈیسینیٹاٸزنگ اور حفاظتی انتظامات کے بندوبست کیۓ جاٸیں۔
4. وہ این جی اوز جو خدمت خلق کی خاطر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے عطیات لیتی ہیں مندرجہ بالا حکومتی اقدامات میں خلوص نیت سے تعاون کریں۔

یا اپنے طور پر مطلوبہ سہولیات مہیا کریں
5.  نجی تعلیمی ادارے جن کی فیسیں زیادہ ہیں وہ رضاکارانہ طور پر اپنے بجٹ میں سے مندرجہ بالا انتظامات کرنے کے پابند ہوں۔
6. کاروباری حضرات ہوم ڈیلیوری کا نظام راٸج کریں۔ تاکہ مارکیٹوں میں رش کم ہو۔
7. مارکیٹ ٹاٸم چند گھنٹوں تک محدود کرنے کی بجاے 24 گھنٹے کھلے رہنے کا نظام بنایا جاے تاکہ چند مقررہ گھنٹوں پر مارکیٹ میں آنے والے رش کو کنٹرول کیا جاسکے۔


8. سرکاری۔ نیم سرکاری اور پراٸیویٹ اداروں میں بجاے9سے5کے شیڈول کے، شفٹ سسٹم کا انتظام کیا جاے۔ تاکہ دفاتر میں ایک وقت میں کم سے کم لوگ ہوں۔
مندرجہ بالا تجاویز پر مناسب غور و فکر کے بعد سنجیدگی سے عمل درامد کسی حد تک بحران پر قابو پانےمیں مددگار ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :