ملزم نیب کو آنکھیں دکھانے لگے

منگل 28 جولائی 2020

Mian Habib

میاں حبیب

ایک وقت تھا جب پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی اور ریاست کو حقیقی خطرہ لاحق تھا اور کہا جا رہا تھا کہ دہشت گرد اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے ہیں پھر ریاست نے پوری طاقت کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور اللہ تعالی نے اس میں کامیابی عطا کی جس کی وجہ سے اقوام عالم میں پاکستان کا امیج بلند ہوا کہ یہ ہرقسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں دہشت گردی کے محاذ پر کامیابی کو ہم مافیاز کے ہاتھوں غارت نہیں ہوتے دیکھ سکتے جس طرح اس وقت یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ دہشت گرد شاید ریاست سے زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں اور وہ ریاست کو بے بس کرنے ہی والے ہیں لیکن ریاست نے وہ جنگ جیت کر دکھائی اسی طرح اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مافیاز حکومت سے زیادہ مضبوط ہیں اور وہ شاید حکومت کو بے بس کر دیں پاکستان کو لوٹنے والے سیاسی بااثر مافیا سے لے کر کاروباری مافیاز اداروں میں موجود مافیاز گویا ہر شعبہ میں موجود مافیاز نے ایکا کر لیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی بھی شعبہ کے مافیا کو ریاست نے زیر کر لیا تو پھر سب کی باری آجائے گی اس لیے وہ اسے اپنی بقا کی جنگ سمجھتے ہیں اور اپنے متوازی نظام کے ذریعے ریاست کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی لوٹ مار جاری رہ سکے اب یہ فیصلہ ریاست نے کرنا ہے کہ اس نے مافیاز کے آگے سرنڈر کرنا ہے یا بھر پور جنگ لڑنی ہے یقینی طور پر یہ جنگ کسی بھی صورت میں دہشت گردی کی جنگ سے کم نہیں لیکن اس کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جا رہا کیونکہ اس میں پاکستان کے بااثر لوگ ملوث ہیں اس لیے یہ دہشتگردی سے کہیں زیادہ پچیدہ جنگ ہے اس جنگ کو لیڈ کرنے والے ادارے نیب کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معتوب ٹھہرایا جا رہا ہے اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ شاید نیب جانبدار طریقے سے کچھ لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہا ہے چونکہ نیب کا کام ہی بڑے گرگوں پر ہاتھ ڈالنا ہے جو کہ نہ صرف بااثر ہیں بلکہ ہر چیز کو خریدنے کی سکت بھی رکھتے ہیں اوپر سے سرکاری ملازم کو یہ بھی خوف ہے کہ کل کو یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو ان کا برا حشر کریں گے کیونکہ پاکستان میں نظام کی بجائے شخصیات زیادہ موثر ہیں اس لیے سرکاری ملازم عدم تحفظ کا شکار ہے ان مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والے ملازمین کو جب تک افواج پاکستان کے ملازمین جیسا تحفظ نہیں ملتا یہ کھل کر کام نہیں کر سکتے ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب کرنے والے ملازمین کو قوم کا مکمل تعاون اور اداروں کی مکمل رہنمائی ملنی چاہیے دوسرا یہ کہ پاکستان کا سارا نظام انصاف ملزم کو سپورٹ کرتا ہے اس میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں جن کے اکابرین پر نیب کیسز ہیں انھوں نے نیب کو ہٹ لسٹ پر رکھ لیا ہے ایک طرف وہ عوامی سطح پر میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ سے یہ تاثر دینے میں کامیاب نظر آتے ہیں کہ نیب ان پر کچھ ثابت نہیں کرسکی لہذا ان کے خلاف بنائے جانے والے کیسز انتقامی کارروائی کا حصہ ہیں حالانکہ نیب کے چیرمین کا نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے نہ ان کے خاندان کا کوئی سیاسی پس منظر ہے وہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں ملزمان کو ایڈوانٹیج یہ ہے کہ وہ جو مرضی الزام لگا دیں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور نیب کے لوگوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات اور اپنے اوپر گالیوں کی بوچھاڑ کا جواب بھی نہیں دے سکتے یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب کے ملزمان بااختیار رہے ہیں ایک تو انھوں نے ثبوت کوئی نہیں چھوڑے ان کے جرائم کو ثابت کرنا اتنا آسان کام نہیں دوسرا تفتیشی اور پراسیکیوٹر اپنے آپکو کسی دشمنی میں ملوث نہیں کرنا چاہتے ہماری یہ نفسیات ہے کہ ہمارا سرکاری ملازم سرکاری کاموں میں ذاتی دلچسپی نہیں دیکھاتا اس کے برعکس ملزمان کروڑوں روپے فیس والے وکیل کرتے ہیں جو پوری فوج کے ساتھ عدالتوں پر چڑھائی کر دیتے ہیں ایسے ماحول میں جہاں لوگ اپنا نام بتانا بھی پسند نہیں کرتے وہاں یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ لوگ رضا کارانہ طور پر اپنی گواہی دیں گے تو یہ ممکن نہیں ان حالات میں مافیاز کو کنٹرول کرنا کوئی آسان کام نہیں اگر ریاست نے مافیاز کو چھیڑ ہی لیا ہے تو براہ کرم اس میں سنجیدگی دکھائی جائے پاکستان کے تمام اداروں بشمول عدلیہ کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے اور ان کو کنٹرول کرنے کی کوئی ریاستی پالیسی وضع کی جائے ورنہ ریاست ہار جائے گی اور مافیاز جیت جائیں گے حکومت کو ملزمان کی جانب سے نیب کو آنکھیں دکھانے کا نوٹس لینا چاہیے -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :