ایک وقت تھا جب پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی اور ریاست کو حقیقی خطرہ لاحق تھا اور کہا جا رہا تھا کہ دہشت گرد اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے ہیں پھر ریاست نے پوری طاقت کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور اللہ تعالی نے اس میں کامیابی عطا کی جس کی وجہ سے اقوام عالم میں پاکستان کا امیج بلند ہوا کہ یہ ہرقسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں دہشت گردی کے محاذ پر کامیابی کو ہم مافیاز کے ہاتھوں غارت نہیں ہوتے دیکھ سکتے جس طرح اس وقت یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ دہشت گرد شاید ریاست سے زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں اور وہ ریاست کو بے بس کرنے ہی والے ہیں لیکن ریاست نے وہ جنگ جیت کر دکھائی اسی طرح اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مافیاز حکومت سے زیادہ مضبوط ہیں اور وہ شاید حکومت کو بے بس کر دیں پاکستان کو لوٹنے والے سیاسی بااثر مافیا سے لے کر کاروباری مافیاز اداروں میں موجود مافیاز گویا ہر شعبہ میں موجود مافیاز نے ایکا کر لیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی بھی شعبہ کے مافیا کو ریاست نے زیر کر لیا تو پھر سب کی باری آجائے گی اس لیے وہ اسے اپنی بقا کی جنگ سمجھتے ہیں اور اپنے متوازی نظام کے ذریعے ریاست کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی لوٹ مار جاری رہ سکے اب یہ فیصلہ ریاست نے کرنا ہے کہ اس نے مافیاز کے آگے سرنڈر کرنا ہے یا بھر پور جنگ لڑنی ہے یقینی طور پر یہ جنگ کسی بھی صورت میں دہشت گردی کی جنگ سے کم نہیں لیکن اس کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جا رہا کیونکہ اس میں پاکستان کے بااثر لوگ ملوث ہیں اس لیے یہ دہشتگردی سے کہیں زیادہ پچیدہ جنگ ہے اس جنگ کو لیڈ کرنے والے ادارے نیب کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معتوب ٹھہرایا جا رہا ہے اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ شاید نیب جانبدار طریقے سے کچھ لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہا ہے چونکہ نیب کا کام ہی بڑے گرگوں پر ہاتھ ڈالنا ہے جو کہ نہ صرف بااثر ہیں بلکہ ہر چیز کو خریدنے کی سکت بھی رکھتے ہیں اوپر سے سرکاری ملازم کو یہ بھی خوف ہے کہ کل کو یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو ان کا برا حشر کریں گے کیونکہ پاکستان میں نظام کی بجائے شخصیات زیادہ موثر ہیں اس لیے سرکاری ملازم عدم تحفظ کا شکار ہے ان مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والے ملازمین کو جب تک افواج پاکستان کے ملازمین جیسا تحفظ نہیں ملتا یہ کھل کر کام نہیں کر سکتے ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب کرنے والے ملازمین کو قوم کا مکمل تعاون اور اداروں کی مکمل رہنمائی ملنی چاہیے دوسرا یہ کہ پاکستان کا سارا نظام انصاف ملزم کو سپورٹ کرتا ہے اس میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں جن کے اکابرین پر نیب کیسز ہیں انھوں نے نیب کو ہٹ لسٹ پر رکھ لیا ہے ایک طرف وہ عوامی سطح پر میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ سے یہ تاثر دینے میں کامیاب نظر آتے ہیں کہ نیب ان پر کچھ ثابت نہیں کرسکی لہذا ان کے خلاف بنائے جانے والے کیسز انتقامی کارروائی کا حصہ ہیں حالانکہ نیب کے چیرمین کا نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے نہ ان کے خاندان کا کوئی سیاسی پس منظر ہے وہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں ملزمان کو ایڈوانٹیج یہ ہے کہ وہ جو مرضی الزام لگا دیں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور نیب کے لوگوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات اور اپنے اوپر گالیوں کی بوچھاڑ کا جواب بھی نہیں دے سکتے یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب کے ملزمان بااختیار رہے ہیں ایک تو انھوں نے ثبوت کوئی نہیں چھوڑے ان کے جرائم کو ثابت کرنا اتنا آسان کام نہیں دوسرا تفتیشی اور پراسیکیوٹر اپنے آپکو کسی دشمنی میں ملوث نہیں کرنا چاہتے ہماری یہ نفسیات ہے کہ ہمارا سرکاری ملازم سرکاری کاموں میں ذاتی دلچسپی نہیں دیکھاتا اس کے برعکس ملزمان کروڑوں روپے فیس والے وکیل کرتے ہیں جو پوری فوج کے ساتھ عدالتوں پر چڑھائی کر دیتے ہیں ایسے ماحول میں جہاں لوگ اپنا نام بتانا بھی پسند نہیں کرتے وہاں یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ لوگ رضا کارانہ طور پر اپنی گواہی دیں گے تو یہ ممکن نہیں ان حالات میں مافیاز کو کنٹرول کرنا کوئی آسان کام نہیں اگر ریاست نے مافیاز کو چھیڑ ہی لیا ہے تو براہ کرم اس میں سنجیدگی دکھائی جائے پاکستان کے تمام اداروں بشمول عدلیہ کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے اور ان کو کنٹرول کرنے کی کوئی ریاستی پالیسی وضع کی جائے ورنہ ریاست ہار جائے گی اور مافیاز جیت جائیں گے حکومت کو ملزمان کی جانب سے نیب کو آنکھیں دکھانے کا نوٹس لینا چاہیے -
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔