زند گی کا ہر شعبہ کرپشن کے عوارض کا شکار ہے بد قسمتی سے پاکستان ایسے ممالک کی صف میں نمایاں ہے جہاں کرپشن کی عفریت پوری طرح اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔یقیناً یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ پاکستان اس امر کے باوجود ابھی تک قائم ہے ۔اس ملک کے وسائل کو جتنی بیدردی کے ساتھ لوٹا گیا اور قومی خزانے کو شیدید نقصان پہنچایا گیا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کو اب تک معاشی بد حالی کی دلدل میں پوری طرح غرق ہوجانا چاہیے تھا لیکن خدا نے اپنے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو ابھی تک بچائے رکھا ہے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے ما لامال ہے اس کی سرسبزو شاداب زمینیں سونا اگلتی ہیں اور اس کے پانیوں میں چاندی بہتی ہے ، لیکن المیہ یہ کہ پاکستان اپنے سارے وسائل ہونا کے باوجود ابھی تک افلاس کے اندھیروں سے نجات حاصل نہیں کر سکا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بد عنوانیوں کی خون آشام چمگادڑوں کی تباہ کاریوں پر کسی دور میں بھی موٴثر طور پر قابو نہیں پایا جاسکا اس ملک میں کثیر تعداد ایسے افراد موجود ہے جو محض چند روپوں کی خاطر اپنا ضمیر اور ایمان بیچنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
(جاری ہے)
موجودہ حکومت اگرچہ ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کے لیے غربت اور بد عنوانی کا خاتمہ کرنے کے لیے بہترین کوششیں بروٴے کار لارہی ہے لیکن ملک میں بد عنوانیوں کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ اسے توڑنے کے لیے کئی سال درکار ہوں گئے تاہم یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر خلوص عمل کے ساتھ کوششیں کی جا تی رہی تو کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل ممکن ہو جائے گی جس کی زندہ مثال اوکاڑہ میں دیکھنے کو ملی جب محلہ علی پور اوکاڑہ کے رہائشی محمد سرور نامی شخص ٹیکی چوک میں دوکان تعمیر کر رہا تھا کہ بلدیہ کے دو اہلکار موٹر سائیکل پر سوار ہو کر گئے جن میں سے ایک ایاز عرف اعجاز نے دوکان کا نقشہ طلب کیا اور کہا کہ ہم بلدیہ کے ملازم ہیں ہمیں بلڈنگ انسپکٹر غلام مصطفٰی نے بھیجا ہے اگر آپ 45000ہزار دے تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا جس پر اس نے کہا کہ اتنے روپے میرے پاس نہیں ہیں میں آپ کو 20000ہزاردوں گا مجھے تین چار دن کا ٹائم دے یہ سن کر بلدیہ کے اہلکار چلے گئے سرور نامی شخص نے ان کے جانے کے فوراًبعد محکمہ اینٹی کرپشن میں درخواست گزاری کہ بلدیہ اوکاڑہ کے اہلکار بلڈنگ انسپکٹر غلام مصطفٰی کے ایماء پر رشوت وصول کرنا چاہتے ہیں جس پر سرور نامی شخص نے بلدیہ اہلکار کو 20000ہزار روپے بطور رشوت دیے اور محکمہ اینٹی کرپشن نے چھاپہ مارتے ہوئے اوکاڑہ محکمہ بلدیہ کے اہلکار محمد ایاز عرف اعجاز کو رنگ ہاتھوں گرفتار کر لیا اوراسکے کے قبضے سے رشوت میں لیے گئے 20000ہزار روپے بھی برآمد کر لیے اور ان کے خلاف مقدمہ نمبر 19/16اندراج کر کے ملزم کو حولات میں بند کر کے مزید تفتیش شروع کردی ہر کوئی اس بات کا رونا روتا ہے کہ معاشرہ بگاڑکا شکار ہو رہا ہے اور دن بدن تنزلی کی طرف جارہا ہے کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ پے د رپے بڑھتی ہی جا رہی ہے لیکن زبانی جمع خرچ ہے اور اس سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی ۔ ہر کسی پر بات عیاں ہے کہ بڑے بڑے کرپٹ افراد بھی قانون کی موشگافیوں کا سہارا لے کر باآسانی چھوٹ جاتے ہیں رقم الحرف نے اس وقت بھی کہا تھا اور آج بھی کہہ رہا ہے یہ باآسانی چھوٹ جا ئیگا کیونکہ اوکاڑہ بلدیہ میں بہت بڑا کرپٹ ٹولہ موجود ہے اس کرپٹ ٹولے میں ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود ہیں جن کی کرپشن کے قصے کبھی نا ختم ہونے والے ہیں یہ کرپشن کے سلطان بظاہر تو معمولی سے ملازم ہیں لیکن ان کی طرز زندگی کا مو ازنہ کیا جائے تو شہنشہانہ زندگی ہے عظیم و اعلیٰ شان محل اور بڑی بڑی گاڑیاں رکھنا ان کے لیے تو عام سی بات ہے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی گھر میں تین تین ملازم ہیں پچاس پچاس ہزاربجلی کابل آتا ہے باوثوق ذرائع کا تو یہاں تک بھی کہنا ہے کہ ان میں سے بعض تو ٹاوٴنز کے بھی مالک ہیں اگر ایسی طرز زندگی ہو گی تو کرپشن کیوں نہ ہو گی ان کو دیکھ کر دوسرے کیسے نہ کرپشن کرے گئے اور معاشرے میں کیسے نہ بگاڑپیدا ہو گا اور یہ لوگ کس طرح نا اس مقدمہ پر اثرانداز ہو گئے یہ ایک ایک کرکے آسانی سب مراحل سے گزر جائے گئے اور پھر یہ پہلے کے مقدموں اور درخواستوں کی طرح اس میں بھی صاف و شاف ہوکر دندناتے پھریں گئے کوئی ان کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکے گا کیونکہ پہلے بھی بہت سے کرپٹ عناصر بے نقاب ہو ئے ہیں پورے ثبوتوں کے ساتھ ہر طرح کے شواہد پیش کیے گئے مگر کیا ہوا ان کرپٹ مافیا کے سامنے احتسابی ادارے بھی بے بس ہوجاتے ہیں میری بات کو یاد رکھیے گا آج سے چند دن بعد آپ کو پتہ چلے گا کہ انھیں چھوڑدیا گیا ہے عدم شواہد ،عدم گواہان ، عدم پیروی کی بناء پر یا مدعی نے لکھ کے دے دیا ہے اور باقی کو بے گنا قرار دے دیا جائے گا، اور پھر سے نعرے لگیں گئے کہ کسی بدعنوان کو نہیں چھوڑا جائے گا اور کسی کرپٹ کو معاف نہیں کیا جائے گا سب کو قانون کے سکنجے میں لائیں گئے کچھ ایسے بلد و بانگ دعوئے پھر سے کیے جائے گئے ۔ایسے حالات میں ضرورت انقلاب کیوں نہ ہو اچھا ہوتا کہ ان اداروں کے پاس احتساب کی بڑی بڑی مثالیں ہوتی وہ سیمنار وں اور اشتہاروں میں احتساب کا شکار ہونے والوں کو تصویروں کی شکل میں نوجوانوں کے سامنے لائی جاتی کہ دیکھو کرپشن کرنے والوں کاانجام کیا ہوتا ہے؟بلکہ نوجوانوں کویہ ہی سننے کو ملتا ہے کہ فلاں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے چھوٹ گئے ہیں جہاں پورا معاشرہ کرپشن کی لپیٹ میں ہے وہاں کوئی بڑی مثالیں قائم کیے بغیر صرف لفظوں اور نعروں کی بنیادوں پر نئی نسل کو کرپشن کے خلاف کیسے کیا جا سکتا ہے ویسے بھی ایک استحصالی معاشرے میں جہاں انصاف لینا تو دور کی بات ہے تاریخ لینے کے لیے ریڈر کو رشوت دینا پڑتی ہو ہسپتالوں میں علاج کروانے کے لیے بھی پیسے دینے پڑھتے ہو پولیس پیسے لیے بغیر ایف آئی آر نہ کاٹے اور نیچے سے لے کر اوپر تک سرکاری ملازمین کرپشن کے دلدل میں ڈوبے ہو جہاں کرپٹ اور بد عنوان آدمی کو بارگین کی سہولت دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو وہاں سزائیں دینے اور نشان عبرت بنائے بغیرکرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں اور جب ہم ان کو سزائیں دلوانے میں کامیاب ہو جائے گئے تو میں یقین سے کہتا ہو ں کہ پاکستان سے یہ لعنت ایسے جائے گی جیسے کنجے کے سر سے بال اسلامی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب تک احتساب اور سزاوٴں کی عملی مثالیں قائم کی جاتی رہی معاشرے امن و سلامتی اور ترقی ،خوشحالی کی مثال بنے رہے اورجب حکمران میں مصلحتوں نے جڑپکڑی اور انہوں نے احتساب اور جزاو سزا سے ہاتھ کھینچ لیا تو معاشرے زوال پذیر ہونے لگے اور اپنا تشخص گنوا بٹھیں ذلت کی پستیوں میں گر نے لگے اگر ایسے ہی ہوتا رہا تو پھر ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔