ایام مشقت

اتوار 17 مئی 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

مگر کہانی تو بیس سال پہلے شروع ہوئی تھی چالیس سالوں کا قصہ کہاں سے آگیا میرا جواں سال رفیق ”ٹیکنالوجی“کے دور میں پیدا ہوا اسے اندازاہ نہیں ان مشقتوں کا ‘ان قربانیوں کا جو ہم اور ہمارے بڑوں نے دیں ‘ادب کو ”بے ادبوں“نے تباہ کردیااور صحافت کسی بیوہ کی طرح بین کرتی نظر آتی مگر اس کی آہ وبکا ہ سننے کو وقت کہاں ہے ‘اردو کا جو حشر ہم نے کیا سو کیا اس کہیں زیادہ بربادی پنجابی کی ہوئی ”بے ادبوں“نے ”ادب“کے نام پر جو نقصان پہنچایا کئی دہائیوں تک اس کی تلافی ممکن نہیں ‘راکھ میں کہاں چنگاڑیاں تلاش کرتے ہو میاں جاؤ کوئی اور کام کرو کہ ادب بھی ”برانڈڈ“ ہوگیا ہے جس کو زبان پر دسترس نہیں وہ ادیب بنا پھرتا ہے اور جسے نظم ونثرکا فرق معلوم نہ ہے وہ شاعر تو تمہارا کیا کام ‘کبھی استاد ہوا کرتے تھے باقاعدہ شاگردی اختیار کی جاتی تھی ‘کڑی آزمائیشوں سے گزرکر قلم ہاتھ میں لینے کی اجازت ملتی تھی ‘کئی کئی ماہ تو صرف استادوں کی محفل میں جاکر صرف باتیں سنا کرتے ‘کیا مجال آوازنکلے‘ایک نوجوان شاعرنے شرف ملاقات بخشا دوران گفتگو پوچھ بیٹھا میاں اصلاح کس سے لیتے ہو تو خاصے برہم ہوئے فرمانے لگے انہیں”عطاء“ہوئی ہے تحقیق پر معلوم ہوا بیچارے”عطاء محمد“کو توچند ہزار تنخواہ ہی ملتی ہے ‘سرورق پر نام ”صاحب“کا ہی شائع ہوتا ہے ”اہم حصے“یاد کروانا بھی ”عطاء محمد“کے ذمہ ہے کہ نوجوان سمجھدار ہے کوئی فرمائش کربیٹھے تو ”عطاء ہے“سے کام نہیں چلتا‘تو بہت سارے ہیں جنہیں ”عطاء ہے“اور ان کی ”عطاء“سے کئی ”عطاء محمد “کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں اب دوست کہتا ہے بڑے بدلحاظ ہو ”پردہ رہنے دو“کہ روزمحشرتمہارا بھی پردہ رکھنے کا وعدہ ہوا ہے دوسروں کا پردہ رکھنے پر مگر کیا کروں خود کو روک نہیں پاتا‘بات کہیں اور نکل گئی ‘ہاں کہانی بیس سال پہلے شروع ہوئی مگر وہ دوسرا حصہ ہے ‘پہلا بیس برسوں پر محیط حصہ قصہ پارینہ بن چکا مگر کسک نہیں جاتی ‘اک پھانس سی ہے دل میں ‘ایک دن تم نے پوچھا تھا بارش مجھے غم زدہ کیوں کردیتی ہے تو سنو چھ ‘سات افراد کا ایک کنبہ ‘سخت سردیوں کی بارش میں کچی چھت ٹپکتی تھی ‘رات کٹنے کا نام لیتی تھی نہ بارش تھمنے کا ‘رات ایک کونے میں دبک کر بیت گئی ‘صبح اس نے بستہ اٹھایا اور سکول چلاگیا‘وہ مزدورکا بیٹا تھا ‘ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا ‘ادب سے وابستگی خون میں شامل تھی کہ دادااور والد پنجابی میں ماہیے اور دہڑے کہتے تھے وہ ماہیوں اور دوہڑے سنتا پروان چڑھا ‘کالج پہنچا تو شاعری کا شوق چڑھ آیا مگر جلد ہی تائب ہوگیا غم روزگار شوق کو ”نگل“گیا ‘قلمی ناموں سے افسانے لکھتا رہا کہ استاد کا ادب مخلوظ خاطرتھا ‘منع کردیا گیا تھا کہ اس ”خارزار“میں قدم مت رکھنا مارے جاؤگے‘وقت گزرتا گیا شومئی قسمت کہ روزگار بھی لکھا تھا تو صحافت میں سوچا ایسے ہی سہی قلم سے رشتہ تو رہے گا مگر جب ”تلخ“حقیقتیں عیاں ہونے لگیں تو گھن آنے لگی ان نام نہاد ”شرفاء“سے منیرنیازی(مرحوم)سے نیازمندی تھی جو ان کی آخری سانس تک قائم رہی حق مغفرت کرئے کہا کرتے تھے ادب کو دفن کردیا”بے ادبوں“نے نیازی کتنے نوحے کہے“ہاں نیازی کتنے نوحے کہتا ؟اب تو میرے شہرکے نوحہ گربھی نہیں رہے کہ ادب کے”لاشے“پر نوحہ کناں ہوتے ‘سب کچھ کمرشل ازم کھاگیا‘ساغرجیسے لوگ بھوکوں مرگئے ادب کے مامے چاچے جعل سازبن بیٹھے ہیں‘یہی حالت صحافت کی ہے”برگرکلاس میڈیا مین“ہفتے میں ایک سٹوری کرلے تو مہینہ بھر اس کی تھکن نہیں جاتی اور قلم مزدوربارہ سے چودہ گھنٹے کام کرتا ہے مگر تنخواہ کے نام پر اس کے ساتھ جو گھاؤنا مذاق کیا جاتا ہے وہ شرمناک ہے‘اس کے حق کی بات کرنے والا کوئی نہیں ہے جس کا قلم دوسروں کے حقوق کی آوازبلند کرتا ہے ہاں ”صحافتی اشرافیہ“کے کسی کارندے کو کانٹا بھی چھب جائے تو آسمان سرپر اٹھالیا جاتا ہے اور پھر اس کی کئی جگہوں سے”وصولی“بھی کی جاتی ہے ‘تم پریشان ہوگے میرے دوست کہ اس زمانے میں موبائل فون‘لیپ ٹاپ ‘کیبل ٹی وی وغیرہ نہیں ہوتے تھے مگر ہم سکھی تھے پھر ہم نے پیجرکا دور دیکھا‘کاتب کا تمہیں معلوم نہیں ہوگا‘کاتب اخبار کا کمپوٹرہوا کرتا تھا کہ خبریں ہاتھ سے لکھنا‘سمجھوکہ کاتب کے بغیراخبار کا تصور محال تھا‘کچھ دن ہوئے اکرم چوہدری صاحب ملے بڑے اچھے کاتب تھے اپنے زمانے کے لکشمی چوک کے فٹ پاتھ پر نجانے کن خیالوں میں گم‘پوری جوانی میڈیا انڈسٹری کو دینے والا اکرم چوہدری اب بڑھاپے میں پائی پائی کا محتاج ہے کہ اس کی جگہ کمپیوٹرنے لے لی اور وہ بیروزگار ہوگیا اب تو کوئی شوقین ہی کتابت کرواتا ہے ‘بہت سارے اکرم چوہدری تو غربت اور افلاس نگل گیا جو بچے ہیں وہ زندوں میں ہیں نہ مردوں میں کہ کتابت کے علاوہ انہیں آتا ہی کچھ نہیں ‘چوہدری صاحب ”سہانے دنوں“کو یاد کررہے تھے جب میکلوڈ روڈ”آباد“ ہوتا تھاکہ بیشتراخبارات کے دفاترلکشمی چوک اور اس کے گردونواح میں ہی ہواکرتے تھے‘لیل ونہار‘زمیندار‘مشرق‘امروز‘پاکستان ٹائمز‘مغربی پاکستان‘آزاد‘سول اینڈملٹری گزٹ جو نام آج تمہارے لیے بہت بڑے ہیں یہ اس زمانے میں ”بلونگڑے“تھے چوہدری صاحب درست کہہ رہے تھے مگر جس زمانے میں ہم صحافت کے خارزارمیں اترے ”تباہی“کا آغازہوچکا ہے NPTکے نام پر سازبازکرکے ”سیٹھ“مافیا نے بڑے بڑے اداروں کی بنیادوں کو اکھاڑدیا اور ان کی بلڈنگوں اور وسائل پر قابض ہوگئے NPTکے اداروں کی ایسی بندربانٹ ہوئی کہ اللہ معاف کرئے آج ان سب کو ”فرشتہ“بناکرپیش کیا جاتا ہے صحافت کے”سالار“اور نجانے کیسے کیسے واہیات القابات سے نوازا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ NPTکے تحت چلنے والے اخبارات اور ان کے سینکڑوں ورکروں کے قاتل ہیں یہ ”فرشتے“آج ان میں سے بہت سارے اخباروں کی ڈمی چھپ رہی ہیں مگر ان اخباروں کے نام پر کاغذکا کوٹہ اور سرکاری اشتہارات میں اضافہ ہی ہوا ہے جو ”سیٹھ“مافیا باپ داداکا مال سمجھ کر لوٹ رہا ہے ‘ادب اور صحافت کا ساتھ بہت پرانا ہے کہ ”استاد“لوگ شاعراور ادیب بھی ہوا کرتے تھے ”بے ادب“اس زمانے میں بھی پائے جاتے تھے مگر ایسا طوفان بدتمیزی نہیں تھا جیسا آج ہے-----جاری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :