رانا اخترکی یاد میں

ہفتہ 8 مئی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

کچھ دکھ ہوتے ہیں جو گورتک ساتھ جاتے ہیں ‘زندگی میں یادیں رہ جاتی ہیں لوگ چلے جاتے ہیں کئی دن گزرے ‘کئی بار لکھنے کی کوشش کی مگر ہاتھ رک جاتے اور آنکھیں بے وفا ہوجاتی ہیں کسی دوست کا نوحہ لکھنا شاید سب کے لیے ہی مشکل رہا ہوگا”تیرا ہونا ہی کافی تھا“کے مصداق جب بھی میں وہاں سے گزرتا تو عادتا نگاہ اس جانب اٹھ جاتی جہاں تم گاڑی پارک کرتے تھے اب شاید ہمت نہ کرپاؤں وہاں سے گزرنے کی کہ اب تم اپنا سفر مکمل کرکے راہ عدم کے راہی بن چکے-دو دہائیوں سے زیادہ مدت پر محیط ہمارے تعلق میں نشیب وفرازبھی آئے کہ دنیا ہے مگر دلوں سے محبت ختم نہیں گئی ‘محبت کو فنا نہیں جو محبتیں بانٹتے ہیں ان کی محبت جانے کے بعد بھی قائم رہتی ہے رانا اختربھی محبتیں بانٹنے والوں میں سے تھا اس کی محبت بھی جب تک ہماری سانسیں ہیں قائم رہے گی -میری تحریرشاید کچھ بے ربط لگے تو پیشگی معافی کا خواستگار ہوں کہ ابھی تک بے یقینی کے عالم میں ہوں میرا دکھ دوہرا اس لیے ہے کہ آخری وقت میں اس سے مل نہیں پایا ‘اس نے گلے‘شکوے کرنے کا موقع بھی نہیں دیا یہ خلش دل کی نہیں روح کی ہے جوسانسیں ٹوٹنے کے ساتھ ہی جائے گی
ملنا تھا ایک بار اسے پھر پھر کہیں "منیر"
ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا
 کچھ روزقبل فجر کے بعد من کی بے چینی بڑھی تو گورستان چلا گیا لرزتے قدموں سے اس کی لحد تک پہنچا تو ضبط کے بندھ ٹوٹ گئے ”لے او یار حوالے رب دے“شاید کوئی گورکن میاں محمد بخش کا کلام گا رہا تھا گزرے بیس سالوں کی یادیں گھیرے ہوئے تھیں اور آنکھوں سے اشک رواں تھے ”اے میرے رفیق دنیا چلتی رہے گی مگر تیرے یوں جانے سے کچھ یاروں کی کچھ دوستوں کی دنیا اجڑ گئی ہے اپنے ہی شانوں پر سر رکھ کے رو رہے ہیں“کسی نے کہا تھا کہ” ہم اپنی انا کی وجہ سے روٹھے رہتے ہیں جبکہ ہمارے اندر کا انسان صلح چاہتا ہے“ یہ قول انسانی جبلت کے اعتبار سے بالکل درست ہے ہم اناؤں کا شکار رہتے ہیں اور آخرکار پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہتا -استاد محترم منیر نیازی کی طرح ” ہمیشہ دیرکردیتا ہوں میں“ مگر آپ دیر نہ کریں ورنہ زندگی میں صرف پچھتاوے رہ جائیں گے بے شک ہم ایک مشت خاک کا ہی پھیلاؤ ہیں اور خاک کو خاک ہی میں جانا ہے کیونکہ ہر چیزاپنی اصل کی طرف لوٹ کر جاتی ہے حیات کے دو عناصر ہیں ایک فرش سے ہے اور دوسرا”عرش“سے تو عرش والا ”پنچھی“خاک کو خاک کے سپرد کرکے خاکی پنجرے کو توڑ کو عرش کی جانب لوٹ جاتا ہے کہ یہی فطرت کا قانون ہے حق نے کہا راضی بالراضا ہوجا ‘ ہم خالق کی رضا پر راضی ہیں اے ابن آدم یاد رکھ اس نے لوح محفوظ پر سب کچھ لکھ رکھا ہے ازل ہے اور کوئی بدل نہیں سکتا اسے ابد تک‘ہوگا تو وہی جو ”اس “کی چاہت ‘اے خاکی تیرے چاہنے یا نہ چاہنے سے فرق نہیں پڑتا-ہمیں آہ بکا کرکے مالک کی رضاکے سامنے سرجھکانا ہی پڑتا ہے کہ اس نے ازل سے عہد لے رکھا ہے کہ جب واپس بلایا جائے گا تو تجھے سرتسلیم خم کرنا ہی پڑے گا کہ مالک بڑا زورآور ہیں کس کی مجال ہے اس کے سامنے دم مارے مگر اسی نے محبت کو پیدا کیا ہم گھروالوں سے ‘بیوی‘بچوں اور دوست احباب سے محبت کرتے ہیں اور پھر ان کے بچھڑجانے کا دکھ بھی ہمارے مقدر میں لکھ رکھا ہے -خلیل جبران کو میں اپنا روحانی استاد مانتا ہوں کہ مختصر المیہ جملہ لکھنا میں نے جبران کو پڑھ کر سیکھا ا س نے اپنی قبر کے کتبے کے لیے تحریرلکھی تھی”ہم اپنی مسرتوں اور دکھوں کا انتخاب ان کے رونما ہونے سے بہت پہلے کرلیتے ہیں میں آپ کی طرح زندہ ہوں۔

(جاری ہے)

اور آپ کے قریب کھڑا ہوں۔ اپنی آنکھیں بند کیجئے اور اپنے آس پاس دیکھئے، آپ مجھے اپنے سامنے پائیں گے“جبران کی یہ تحریر برادرم رانااخترپر صادق آتی ہے کہ ان کی محبت نے اس طرح دلوں میں گھر کیا کہ لگتا ہے وہ قریب کھڑا ہے آپ آنکھیں بند کریں وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑا ہوگا- محبت موت سے مضبوط تر ہے ، اور موت زندگی سے طاقتور ہے۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ انسان آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے تفکر و تخیل نے قطرہء شبنم میں سمندر کے اسرار کو دریافت کرتے ہیں - یادداشت ، امید کے راستے میں ایک تھرکتا ہوا پتھر ہے۔ عجب ہے انسان چاہ کر بھی یادوں سے دامن نہیں چھڑاسکتا کہ یہ تقاضا ہے زندگی کا-یادیں اسی وقت تک ہماری آخری سانس تک ساتھ رہتی ہیں اپنوں کی یادیں جنہیں ہم نے کھویا ہو-ان کی یادیں جو راہی عدم ہوگئے ہوں -جانتے ہوئے بھی کہ اب ہماری باری ہے ہم نے جاکر بچھڑنے والوں سے ملنا ہے کہ جنہیں اجل ہم سے جدا کردیتی ہے وہ جدائی اجل سے ہی ختم ہوتی ہے-کبھی ہم بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر الفاظ ساتھ نہیں دیتے آوارہ خیالات کے ساتھ کیا لکھوں -چند منشتر سی سطریں ‘کچھ ٹوٹے پھوٹے لفظ-باقی پھر سہی نوحہ گری سے میری روح چھلنی ہورہی ہے اب اور سہنا ممکن نہیں -
”تمہاری یاد کی بوندیں
دل آزردہ آنگن میں
یونہی برسا کریں گی بس
بدل جائیں گے سب موسم
فلک صحرا کی صورت میں
زمیں تکتا رہے گا
پرندوں کی طرح پتے
درختوں سے جْدا ہوکے
کسی سرسبز رْت
کی ان کہی چاہت میں
غیبی آستانوں کی طرف
ہواوں میں سمٹ کے بکھر جائیں گے
رْت بھی ڈھل جائے گی اور
زمان و مکاں بھی بدل جائیں گے
صبح ہوگی
مگر اْس گْلابی سحر کو ترستی رہے گی
راتیں اپنے تواتر سے آیا کریں گی
شب وصل ڈھونڈیں گی
محو ہو جائیں گی یاد سے صورتیں
بس دئیے جلتی آنکھوں کے
ویراں منڈیروں پہ رکھے ہوئے
شب کی تنہائی میں
آسماں سے اْترتی ہوئی اوس میں
جگنووں کی طرح
بھیگی آنکھوں کی مانند
جل جائیں گے
ایک خاموش تنہائی میں
یاد کی بوندیاں
یونہی برسا کریں گی“
الوداع اے میرے محسن‘میرے رفیق جلد ملیں گے حق تعالی کی جنتوں میں اور پھر وہی دوستوں کی محفلیں ہونگی-اس نہ ختم ہونے والی زندگی میں جہاں موت کبھی جدا نہیں کرسکے گی-الوداع میرے دوست۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :