صحافت میں ”ٹھیکیدرانہ نظام“ اور آزادی اظہار

ہفتہ 12 جون 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

مہذب معاشروں میں بخثیت مجموعی صحافی سوشل میڈیا کو تخلیقی صلاحتیوں کو نکھارنے کے استعمال کررہے ہیں ‘معاشرے میں تعمیری سوچ اور رویوں کو فروغ دینے کے لیے کام کیا جارہا ہے مگر پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں سوشل میڈیا کے معنی ہی بدل جاتے ہیں بلکہ ہمارے ملکوں میں قومی جرائد اور نشریاتی اداروں پر ان کی چھاپ نظرآتی ہے یعنی ڈس انفارمشن کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے- دوسری جانب معاشی استحصال کا شکار کارکن صحافی تھرڈ پارٹی کانٹریکٹ کی لعنت سے نجات توکیا حاصل کر تااب ”ٹھیکیدرانہ نظام“ کی چکی میں پس رہا ہے یعنی ایک ”سنیئر“ سیٹھ سے معاملات طے کرکے اخبار کی پوری پروڈکشن کا ٹھیکہ لے لیتا ہے اور پھر کارکنوں کے بدترین معاشی استحصال کا عمل شروع ہوتا ہے چڑھتی جوانی کے ساتھ صحافت کے خار زار میں قدم رکھنے والے کئی ساتھیوں کو جانتا ہوں جوبڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں مگر چند ہزار میں ان بیگار کیمپوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں-یہ ٹھیکیدرانہ نظام ہے ایک وقت تھا کالم لکھنے کے پیسے ملتے تھے آج کالم چھپوانے کے لیے ”نذر“دینا پڑتی ہے ہم جیسے سفید پوش گوشہ نشین ہوبیٹھے مگر ”پیشہ ور“مارکیٹنگ کے ماہر ہیں ایک کالم میں کتنے ”کلائنٹس“خوش کرکے ان سے وصولی کیسے کرنی ہے اس فن میں بڑے تاک واقع ہوئے ہیں یہ احباب-دوستو!آج کالم نہیں دل کی باتیں ہیں اللہ سبحان وتعالی کے فضل وکرم سے ”اردوپوائنٹ“بلاشبہ دنیا میں ایک موثر اور بااثر ادارہ بن چکا ہے جس کا کریڈٹ بلاشبہ سب سے پہلے علی چوہدری اور پھر بانی ٹیم کو اتا ہے جنہوں نے دن رات محنت کرکے اس ادارے کو یہاں تک پہنچایا ہے یہ اس لیے نہیں کہ میں ادارے کے مدیر اعلی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہوں یا علی چوہدری مجھے چھوٹے بھائیوں سے بڑھ کر عزیزہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جو گوگل سمیت دنیا کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ریٹنگ طے کرنے والے ادارے کہہ رہے ہیں بحثیت مدیر اعلی ”اردوپوائنٹ“میری ذمہ داریوں میں مضامین کی سلیکشن بھی ہے جب میں مضامین کو پرکھ رہا ہوتا ہوں تو خالصتا صحافتی معیارات اور ادارے کی پالیسی میرے پیش نظر ہوتی ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ناکام سیاسی کارکن صحافت کو وہ داغ لگارہے ہیں جو شاید کبھی دھل نہیں پائیں گے یہاں میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ ایک مضمون کو میں نے پیشہ ور صحافی اور مدیر کی حیثیت سے مستردکیا کہ یہ معاشرے میں کسی بھلائی کی بجائے انتشار کا باعث بنے گا یا جس کی تاریخی معلومات میں اتنی غلطیاں تھیں کہ جنہیں درست کرتے کرتے مضمون کی پوری شکل بدل جاتی وہی مضمون دو تین دن بعد بغیرکسی تبدیلی کے ایک اخبار کے ادارتی صفحات کی زینت بنا ہوتا ہے -میرے ایک شفیق بزرگ ایک قومی جریدے میں ادارتی صفحات کے انچارج رہے ہیں کچھ دن پہلے ان سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ دس‘پندرہ برس قبل اخباروں کے ادارتی شعبہ جات میں رشوت ستانی عروج پکڑچکی تھی اور معاملات یہاں تک بگڑچکے ہیں کہ ہمارے نوجوان ساتھی ان پڑھ تاجروں‘سیاسی ورکروں اور سرکاری افسروں سے ”نذرونیاز“لے کر خودہی کالم لکھ کر ان کے ناموں سے شائع کروادیتے ہیں یہ ٹھیکیدرانہ نظام کی محض ایک لعنت ہے اگر اس کی تفصیل میں جائیں تو دفتروں کے دفتردرکار ہونگے یہ مختصرتحریران تفصیلات کی متحمل نہیں ہوسکتی مگر اللہ کا شکر ہے کہ ”اردوپوائنٹ“کا ایڈیٹوریل آزدانہ فیصلے کرتا ہے جو تحریربھی صحافتی تقاضوں کے مطابق اشاعت کے قابل ہوگی اسے ”اردوپوائنٹ“کے صفحات پر جگہ ضرور ملے گی ہم نے اس آزدانہ پالیسی کے نتائج بھی بھگتے ہیں مگر آفرین ہے علی چوہدری پر کہ میں نے اس کے اداروں میں کوئی لرزش نہیں دیکھی نہ کبھی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادگی-اب آتے ہیں سوشل میڈیا پر پھیلی وسیع وعریض گندگی پر کہ ہرکوئی اپنا چورن بیچنے بیٹھا ہے محتاط اندازوں کے مطابق ان کی نوے فیصد اطلاعات غلط یا سرے سے بے بنیاد ہوتی ہیں ہماری جوانی کے ایام میں لاہورکے صحافی ”ٹیبل سٹوری“کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے مگر استادوں کا ایک سبق ہوتا تھا کہ ”ٹیبل سٹوری“میں بھی خبر ہونی چاہیے لہذا یہاں استادوں کے صحافتی تجربے اور مشاہدے سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا تھا اور ٹوٹی ‘پھوٹی معلومات ان کے ساتھ شیئرکرکے ایک زبردست سٹوری تیار ہوجاتی تھی کیونکہ اس کی بنیاد حقائق پر مبنی معلومات پر ہوتی تھی لہذا کئی بار ”ٹیبل سٹوری“لیڈ‘یا سپر لیڈ کی جگہ پاتی تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے جہاں تک مجھے یاد ہے نناوے فیصد ایسی خبریں بالکل سچ ثابت ہوتی تھیں خبر باؤنس ہونے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم تھی جوکہ آج کل نناوے فیصد سے بھی زیادہ ہے جس کی وجہ زندگیاں صحافت کو دینے والے اساتذہ اور سنیئرز کے تجربات اور مشاہدے استفادہ نہ کرنا ہے ویسے بھی یہ بچے ان کے تجربات اور مشاہدات سے کیسے استفادہ کریں سیٹھ مافیا نے انہیں بوجھ قراردے کر گھروں میں بیٹھا دیا ہے- سوشل میڈیا پر اطلاعات وہ پہنچا رہے ہیں جن کا فیلڈ رپورٹنگ کا کوئی تجربہ یا مشاہدہ نہیں جنہوں نے شدید گرمی یا سردی میں سڑکوں پر دھکے کھاتے عمر نہیں گزاری میرے خیال میں صحافت میں ڈگریوں کا انبار آپ کو وہ علم نہیں دیتا جو فیلڈ رپورٹنگ میں گزارے چند سال دے دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے بڑی بڑی جامعات کے شعبہ ابلاغیات کے کئی استادوں کے مضامین اور مقالے پڑھے ہیں وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے سے قاصر نظرآتے ہیں حالانکہ ان میں اکثریت ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں رکھنے والوں کی ہے اگر استادوں کا یہ حال ہے تو شاگرد کیسے ہونگے؟اب ذرا بات ہوجائے صحافتی تنظیموں کے مظاہروں اور صحافتی اشرافیہ کے کارندوں کی تو میں کئی سالوں سے مطالبہ کررہا ہوں کہ صحافیوں کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے انہیں بھی جواب دہ بنانا چاہیے کہ ان کا طرززندگی ان کی آمدن سے بڑھ کر کیسے ہے؟اشرافیہ کے ان کارندوں اور کارندیوں کے پاس اندرون ملک اور بیرون ملک جائیدادیں اور بنک بیلنس کہاں سے آئے؟ظاہر ہے اس مطالبے کی مخالفت وہی کرئے گا جس کے ذرائع آمدن مشکوک ہونگے ہم جیسا تو سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرئے گا جہاں تک صحافتی تنظیموں کا ذکر ہے تو اگر کسی طرف کوئی پریس ریلزآتی ہے تو میرا پہلا سوال ہوتا ہے کہ یہ کون سے گروپ کی ہے؟کیونکہ ہماری لیڈرشپ کی ناعاقبت اندیشی سے یونین اتنے حصوں میں بٹ چکی ہے کہ شمار ممکن نہیں -ٹریڈیونینسٹ کی حیثیت سے میں نے ٹریڈیونین کی سیاست سے کنارہ کشی اسی بنیاد پر اختیار کی تھی اور مستعفی ہوگیا تھا کہ میں اس گند کا حصہ نہیں بن سکتا انہیں گدھ سے تشبیہ دینا بھی ایک صابر پرندے کی توہین ہوگی کہ وہ بیٹھ کر اپنے شکار کی موت تک انتظار کرتا ہے یہ تو ہماری حکومتی اشرافیہ کی طرح زندوں کو نوچ کھاتے ہیں اسلام آباد‘لاہور اور کراچی میں بیٹھے کفن فروش اور لاش فروشوں کے اپنے اندر آزادی اظہار کا تصور کیا ہے پچھلے دنوں ایک وٹس گروپ میں ابصار عالم کے بارے میں ایک پوسٹ پر میں نے تبصرہ کیا کہ اگر وہ صحافی رہتے اور پیمرا کی چیئرمینی کی رشوت قبول نہ کرتے تو جوابداہ نہ ہوتے اس پر مجھے گروپ ایڈمن کی جانب سے پیغام آیا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے گروپ میں معافی مانگوں کیونکہ ابصار عالم ان کے دوست ہیں میں جونیئرسہی مگر احتجاج میرا حق ہے میں نے جواب میں لکھا کہ آپ جب مجھے گروپ سے ڈیلیٹ کریں گے تب کریں گے میں اسی وقت گروپ چھوڑرہا ہوں آپ کا جب آپ خود دوسروں کو اظہار کی آزادی کا حق ایک محدود سے وٹس اپ گروپ میں دینے کو تیار نہیں تو حکومت سے آپ اظہار کی آزادی کس منہ سے مانگتے ہیں-باقی زندگی رہی تو پھر سہی-------

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :