امریکا اور افغانستان کی دلدل۔ قسط نمبر4

ہفتہ 17 جولائی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

امریکیوں کے جانے کے بعد بگرام کا فوجی اڈاہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے افغان حکام کو شکوہ ہے کہ 45مربع میل پر پھیلے اس ”شہر“کو بجلی فراہم کرنے والا جنریٹرتو موجود ہے مگر اس کی چابی امریکی اپنے ساتھ لے گئے ہیں اسی طرح سینکڑوں رہائشی ‘دفتری عمارتوں اور فوجی بیرکوں کے برقی درزاوں کو کھولنے کے لیے استعمال ہونے والے سیکورٹی کارڈ بھی افغان حکومت کے حوالے نہیں کیئے گئے اور تو اور بگرام میں امریکیوں کا قائم کردہ ہسپتال بھی استعمال کے قابل نہیں کیونکہ بجلی دستیاب نہ ہونے سے ہسپتال سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا سب سے المناک پہلو بگرام کی جیل میں قید تقریبا 5ہزار قیدی ہیں جن کے کھانے پینے کا معقول انتظام کیئے بغیر ہی اڈاے کو خالی کردیا گیا۔

اب صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے جس کے پورے خطے پر گہرے اثرات مرتب ہونا یقینی ہے افغان طالبان کی جانب سے تاجکستان اور ازبکستان کے سرحدی شہروں پر قبضے کے بعد پاکستان سے ملحقہ سرحدی شہروں اور چوکیوں پر بھی قبضہ کرچکے ہیں تقریبا تمام علاقوں میں افغان سرکاری فوج نے کسی مزاحمت کے بغیر ہتھیار ڈال کر علاقے ان کے حوالے کیئے ہیں جس سے ظاہرہوتا ہے کہ افغانستان میں کثیرتعدادمیں ان کے حامی موجود ہیں چمن کے نزدیک پاک افغان سرحد سے متصل ویش منڈی کا علاقہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم تجارتی گزرگاہ ہے جو افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار اور جنوب مغربی صوبوں کو پاکستان سے جوڑتی ہے یہاں افغانستان کے جھنڈوں کی جگہ سفید جھنڈے لہراتے نظر آرہے ہیں جن پر کلمہ طیبہ لکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اب فیصلہ سیاسی و عسکری قیادت پر منخصرہے کہ وہ اپنی خودساختہ لاتعلقی پر قائم رہتے ہوئے ایک بار پھرپاکستان دشمن قوتوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیں گے یا ایک ذمہ دار اسٹیک ہولڈر کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے ؟ اگر ہم اسٹیک ہولڈر نہیں بنیں گے تو ہمارے پاس مستقبل میں یہ جوازنہیں بچے گا کہ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کروارہا ہے ہمارے اس جوازکو عالمی برادری تو دور عام پاکستانی بھی تسلیم نہیں کریں گے لہذا فیصلہ اب ہم نے کرنا ہے اور جلدی کرنا ہے۔

پاکستان کے اسٹیک ہولڈر بننے سے مراد افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ ایک ہمسایہ اسلامی ملک کے طور پر ہم قیام امن کے لیے کابل کی مدد کریں عمران خا ن سمیت پاکستان کی سیاسی وعسکری کہتی آئی ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام سے پاکستان میں امن قائم ہوگا یہ بھی درست ہے حکومتوں کی کئی پالیسیوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے مگر وزیراعظم کے حالیہ انٹرویوز سے عوامی حلقوں میں جو تاثرپھیلا ہے اس کا تدارک بھی ضروری ہے ‘وزیراعظم کے بیانات سے یہ تاثرعام ہوا ہے کہ شاید ہم کسی عالمی طاقت کے دباؤ پر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں ۔

افغانستان کے معاملے میں امریکا کا رویہ” افغان جہاد “کے بعد کی خانہ جنگی کے دور والا ہے کابل میں امریکی فوجیں اپنا بوریا بسترسمیٹ رہی تھیں تو واشنگٹن میں صدر بائیڈن افغان جنگ کو ناقابل فتح قرار دے کر انتہائی کاروباری اندازمیں فرما رہے تھے کہ ہم افغانستان میں تعمیر نو کے لیے نہیں گئے تھے یہ کام افغانیوں کا ہے وہ اپنے ملک کی تعمیر کریں اپنے خطاب میں امریکی صدر نے20سالہ بے مقصدجنگ اور افغانی باشندوں کی ہلاکتوں پر کوئی لفظ کہا اور نہ ہی اپنے اڈاے امریکا کے حوالے کرکے واشنگٹن کے لیے اس جنگ میں اپنا سب کچھ لٹانے والے ”نان نیٹواتحادی“پاکستان کے بارے میں ۔

ادھرافغان طالبان نے اپنے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں میں کسی قسم کی جنگ نہیں کریں گے بلکہ حکومتی ذمہ داران سے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کریں گے افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے حوالے سے طالبان نے پالیسی بیان ایک ویڈیو کے ذریعے دیاافغان طالبان کے ”دعوت اور راہنمائی کمیشن“ کے سربراہ ڈاکٹر متقی کی جانب سے ویڈیو پیغام میں افغانستان کے علما، بااثر شخصیات، حکومتی ذمہ داران اور سرکاری ملازمین پر واضح کیا گیا ہے کہ اطراف میں جنگ مکمل ہو جائے تو مرکزی شہروں میں افغان طالبان کی جنگ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

ڈاکٹر تقی کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ مرکزی شہروں میں کاروباری زندگی اور تجارت متاثر ہو، صحت کے مراکز بند ہو جائیں اور عام لوگ متاثر ہوں ہم بااثر شخصیات کو باور کرانا چاہتے کہ وہ سامنے آئیں اور حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بات کر کے اپنی مرضی سے حکومتی ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جائیں تاکہ حکومتی مشینری اسی طرح چلتی رہے اور کسی قسم کا نقصان نہ ہو ڈاکٹر متقی نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ جس طرح اضلاع میں طالبان کی جانب سے کسی قسم کی تخریب کاری اور نہ کسی کو نقصان پہنچایا گیا اور (انتظامی امور کا کنٹرول سنبھال لیا) تو اسی طرح طالبان چاہتے ہیں کہ مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے مرکزی شہروں کا کنٹرول بھی سنبھال لیں افغان طالبان نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ وہ لوگ جو افغان پارلیمان کے ممبران ہیں یا سینیٹرز ہیں ان کو کچھ نہ کہا جائے اور ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اداروں کے کام میں کوئی دخل ہو اور سب کچھ ٹھیک طریقے سے چلتا رہے۔

یہ بیان طالبان کی پالیسی میں ایک واضح تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے یہ طالبان کی حکمت عملی بھی ہوسکتی تاکہ عالمی طاقتوں کی جانب سے کوئی دباؤ نہ آئے ہر دوصورتوں میں یہ صاف ہے کہ طالبان نے بیس سالوں میں بہت کچھ سیکھا ہے ڈاکٹرمتقی کی سربراہی میں ”دعوت اور راہنمائی کمیشن“ سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان چین اور ایران کے حکومتی ماڈل سامنے رکھ کر اپنی سیاسی حکمت عملی مرتب کریں گے چین میں حکومت کا طاقتور ترین ادارہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی نامزدہ کردہ کونسل ہے جبکہ ایران میں علماء کی سپریم کونسل آیت اللہ کی سربراہی میں سب سے طاقتور ادارہ ہے ۔

”دعوت اور راہنمائی کمیشن“ کے قیام کا مطلب ہے کہ طالبان چین اور ایران کی طرزپر ایک اعلی اختیاراتی کونسل کے تحت حکومت چلائیں گے یعنی اصل طاقت اس اعلی اختیاراتی کونسل کے پاس ہوگی اور سامنے نظرآنے والی حکومتی عہدیدار اس کونسل کی منظوری یا اجازت کے بغیر کوئی اقدا م نہیں کرسکیں گے‘اگر افغان اپنا جمہوری ماڈل بنا سکتے ہیں تو انہیں اجڈ اور وحشی قراردینے والے ہمارے اہل دانش اور حکمران طبقہ پاکستان کے عوام کو مغربی جمہوری نظام سے نجات دلانے کے لیے اپنے معروضی حالات زمینی حقائق اور محلے وقوع کے حساب سے اپنا جمہوری نظام بنانے میں 73سالوں سے کیوں ناکام ہیں؟محض اس لیے کہ یہ نظام اشرافیہ کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور انہیں کھلے عام لوٹ مار کا حق دیتا ہے چاہے عوام اناج کے دانے دانے کو ترس جائیں‘کیا یہ قدرت کی طرف سے فراہم کیا گیا سنہری موقع نہیں کہ ہم عہد غلامی کے نظام کو دفن کرکے اپنا ایک جمہوری ماڈل ترتیب دیں اس سلسلہ میں چین سے معاونت حاصل کی جاسکتی ہے مگر ہم تسلسل کے ساتھ معاشرے سے اسلامی اقدار‘روایات اور اخلاقیات کو کھرچنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

ٹیلی ویژن ڈراموں کے موضوعات ہوں یا ٹک ٹاک ویڈیوزکے نام پر سبجی ”منڈی“وزیراعظم عمران خان کبھی ترک ڈرامے پی ٹی وی پر چلوا رہے ہیں تو کبھی ظہیرالدین بابرپر فلم بنانے کا اعلان کرتے ہیں مگر ان کی ناک کے نیچے نصاب میں مشرف اور اس کے بعد آنے والے حکمرانوں کی دسترس سے بچ جانے والی اسلامی تعلیمات کا خاتمہ کیا جارہا ہے اور وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔۔۔جاری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :