جوانیاں جو صحافت کی نذرہوگئیں

منگل 28 ستمبر 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

وائس آف امریکا کی رپورٹ سامنے رکھے میں زندگی کے ان بائیس/تیئس سالوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو میں نے ایک کرب میں گزارے میرے جیسے کتنے نوجوانوں نے صحافت کے خارزاروں کے نام اپنی زندگیاں کردیں اور آج وہ گہری سوچوں میں ڈوبے گزرے وقتوں کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں کھوکھلے قہقہوں سے خود کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے اندرکی توڑپھوڑنے ان کے قہقہوں کی طرح انہیں اندر سے کھوکھلا کردیا ہے صحافت کی شعبہ نہیں لائف اسٹائل ہے جس میں آنے کے بعد نکلنے کے راستے انتہائی محدود ہیں -آج ہم جیسے مڈکیریئرصحافی غلام حسین ندیم کے ندیم کے شعر کی تعبیر بنے ہوئے
اساں پیڑاں دا ونجھ پالیا سانوں دکھاں چاہڑی پان
سانوں غم دا پینجہ پنج دا ساڈے تمبھے اڈدے جان
 ہم زندگی کے ”پینجے“کی جکڑمیں ہیں نہ اس سے جان چھوٹتی ہے نہ موت آتی ہے اس رپورٹ کے مصنفین اور تحقیق کاروں نے بہت اچھا کام کیا ہے مگر افسوس کہ انہوں نے مڈکیریئرصحافیوں سے مسائل پر وہ توجہ نہیں دی جس کے وہ مستحق ہیں نوجوان صحافی کے پاس مواقع ہوتے ہیں وہ کسی اور شعبہ میں جاکر بھی نیا کیریئرشروع کرسکتا ہے مگر ہم مڈکیرئیرزکے پاس آپشن ہی کوئی نہیں کیونکہ جوانیاں سیٹھ نچوڑ چکے ہیں اب تنخواہ سے تنخواہ تک محدود ہیں پھر شادی کے بعد بیوی بچے‘گھر کی ذمہ داریاں لہذا مڈکیرئیرکے لیے بیروزگاری معاشی موت ہے رپورٹ کے اس حصے سے مجھے مکمل اتفاق ہے کہ صحافی پروفیشنل زندگی میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کے اثرات اس کی ذہنی صحت پر پڑتے ہیں اور بعض اوقات یہ اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ہماری عمر میں آکر وہ اتنے گہر ے ڈپیریشن میں چلاجاتا ہے کہ بغیر پروفیشنل میڈیکل ایڈ کے اس کا صدمے سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا-بم دھماکوں کی کوریج‘انسانی جسموں کے بکھرے ہوئے چیتھڑے‘پھر سیٹھ‘اپنی بیٹ اور اداروں کی جانب سے نفسیاتی دباؤ یہ عوامل کافی ہوتے ہیں اسے وقت سے پہلے موت کے قریب کرنے کے لیے ‘اس سے ایسے معاشرے میں ناانصافی کے خلاف لڑنے کی امید کی جاتی ہے جو 73سالوں سے ناانصافی اور ظلم سے بھرا پڑا ہے کئی جانیں دے کر آزاد ہوجاتے ہیں اور کئی زندہ لاشیں بن جاتے ہیں میں پوری ایمانداری سے کہہ رہا ہوں کہ اس رپورٹ نے مجھے بری طرح متاثرکیا ہے معاشروں کے مظلوم طبقات ہمارے پاس امیدیں لے کر آتے ہیں مگر ہم کس کے پاس اپنی فریاد لے کرجائیں؟ -ملک کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس نے کورونا کی آڑمیں پہلے چن چن کر ان لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کیا یا مستعفی ہونے پر مجبور کیا جو ویج ایوارڈ کے لیے عدالت میں جاسکتے تھے جنہوں نے دادرسی کرنی تھی وہ اپنے مفادات کے لیے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکربیٹھے ہیں یونین موجود تھی تو کچھ ہمت بندھی رہتی تھی مگر جب میڈیا ہاؤسزکے مالکان نے تمام صحافتی تنظیموں میں گروہ بندیاں کرواکراپنی اپنی ”پاکٹ یونین“بنالی تو اب وہ کھل کر کھیل رہے ہیں مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ اس میں سب سے زیادہ قصور ہمارا اپنا ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آوازکسے سنائی دیتی ہے مالکان نے دوطرح سے توڑا ہے صحافیوں کے اتحاد کو ایک یونین کو تقسیم کرکے دوسرا زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح مکمل طور پر نااہل اور ناکارہ لوگوں پر مشتمل لوگوں کی ایک اشرافیہ قائم کرکے ‘اس کے لیے اہل اور کام کے لوگ اس لیے نہیں لیے جاتے کہ بغاوت کا خطرہ رہتا ہے جبکہ نالائق سیٹھ کے احسان تلے اتنا دب جاتا ہے کہ ہرجائزوناجائزحکم بلاچوں وچراں ماننا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے آج سکہ بند پروفیشنل صحافی پریس کلبوں میں بے کار پڑے ہیں جبکہ نااہل اور نالائق بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں ڈپیرشن کس کرب کا نام ہے میں اس سے بخوبی واقف ہوں اور اس سے گزرا ہوں صحافتی اشرافیہ کے ”دلال“کے اس کرب کو محسوس نہیں کرسکتے -رہی سہی کسر تعلیم فروش مافیا نے کردی ہے کہ یونیورسیٹیاں ان کی میڈیا ہاؤسزان کے ہرسال ہزاروں کے تعداد میں آنے والے فریش گریجویٹ کہاں جائیں گے؟رہی کوالٹی تو اس کا اندازہ آپ کسی بھی اخبار یا چینل کی دو‘چار خبریں پڑھ یا سن کر لگا سکتے ہیں کیونکہ مالکان کو خود صحافت اور زبان کا علم نہیں تو وہ کوالٹی کی طرف توجہ کیا دیں گے لہذا ہر دوسری خبرباؤنس ہوتی ہے مگر مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگ جائے حکومت کے نزدیک ہردردکے مدوا پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ بل میں ہے مگر مالکان کی پاکٹ یونینزاس کی راہ میں رکاوٹ بنی کھڑی ہیں اصل مسلہ کی طرف حکومت بھی توجہ نہیں دی رہی کہ جاب سیکورٹی‘تھرڈ پارٹی تقررنامے‘ویج یوارڈ پر عمل درآمد اور پروفیشنل صحافیوں کی رجسٹریشن کے لیے موثرنظام کا نہ ہونا عامل صحافی کے بنیادی مسائل ہیں اس کے علاوہ ایک چھوٹی سی مارکیٹ میں جب تک اخباروں کے ڈکلیریشن اور چینلنزکے لائسنسوں کو محدود نہیں کیا جائے گا حالات مزید خراب ہونگے-نیشنل پریس ٹرسٹ آف پاکستان کا ادارہ ابھی تک فعال ہے صحافت کی آزادیاں اور جمہوریت پرنٹ میڈیا کے مرہون منت ہیںآ زادیوں اور جمہوریت کے لیے جیلیں کاٹنے اور کوڑے کھانے والوں میں کون سا اینکریا الیکٹرانک میڈیا کا کوئی افلاطون تھا؟وہ پرنٹ میڈیا کے ہی لوگ تھے جنہوں نے قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں ‘کوڑے کھائے ‘جانیں دیں مگرہر جمہوری حکومت نے ان کو ہی دبانے کی کوشش کی آج تک ان کی قربانیوں کا کوئی صلہ نہیں ملاآج کی حکومت اگر جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو مالکان کے اس ”مافیا“کے خلاف پہلے اقدام کے طور پر ڈیکلریشن اور لائسنسوں کو محدود کیا جائے اور تمام لائسنس جو جاری ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے کہ انہوں نے لائسنس یا ڈیکلریشن حاصل کرتے وقت مروجہ قانونی تقاضے پورے کیئے ہیں؟بہت ساری جعلی ڈگریاں مل جائیں گی جن پر لائسنس اور ڈیکلریشن حاصل کیئے گئے یہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں دوسرا نیشنل پریس ٹرسٹ کے تحت دو چینلز‘دو ‘تین اردو اور دو‘تین انگریزی اخباروں کا اجراء کیا جائے اور مڈکیرئیرصحافی جنہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانیاں دیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر ان اداروں میں ملازمتیں دی جائیں اور ان کے سکیلزکا تعین ان کی سنیارٹی اور تجربے کی بنیاد پر کیا جائے اگر موجودہ حکومت نے فوری طور پر یہ اقدامات نہ کیئے تو آنے والے دنوں میں یہ ”مداری “اور ”بچے جمہورے“جو دھمکا چوکڑی مچائیں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا- صحافتی اشرافیہ اور سیٹھ کے طریقہ وردات پر پھر سہی کہ کس طرح قوم کے خون پسینے کی کمائی یہ ایک جھٹکے میں لے اڑتے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :