بات تو بہت ہی معمولی سی ہے‘ یوم آزادی کی مناسبت سے شہر کی تمام معروف شاہراہوں پر میئر اسلام آباد انصر عزیزکی جانب سے بینرز آویزاں کیے گئے ہیں جن پر لکھا ہے۷۳واں یوم آزادی مبارک‘ حالانکہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو ہمارا پہلا یوم آزادی تھا اور اس لحاظ سے ۱۴ اگست ۲۰۲۰ کو ۷۴واں یوم آذادی ہے‘ ہم در اصل سالگرہ اور یوم آزادی کو مکس اپ کر رہے ہیں‘ یوم آزادی کی پہلی سالگرہ۱۴ اگست۱۹۴۸ کو منائی گئی‘ یہ ہمارا دوسرا یوم آزادی تھا‘ بہر حال یہ چھوٹا سا نکتہ ہے جسے سمجھ آجائے وہ دوسروں کو بھی سمجھا دے‘ ہمارے ہاں بہت سے عقلِ کُل ہیں جو یہ نکتہ نہیں سمجھ رہے‘ ۱۴ اگست کو ہم اپنا۷۴واں یوم آزادی منا رہے ہیں‘ اس روز ہمیں جائزہ لینا ہے کہ ہم تعلیم‘ طب‘ صحافت‘ ادب اور دیگر شعبوں میں کہاں کامیاب ہیں اور کہاں اب تک ناکام ہیں‘ تعلیم کا حال تو یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ پریشان حال ہیں‘زمانہ بہت آگے چلا گیا ہے اور ہم اسی دقیانوسی تعلیمی نظام میں سانس لے رہے ہیں جہاں استاد کو تصور کیا جاتا ہے اور جہاں طلبا کا کام تقلید ہے۔
(جاری ہے)
محض تقلید۔ ہمارے سرکاری سکولوں کے کلاس روم خوف اور بوریت کے ملے جُلے احساسات کا مجموعہ ہیں اکثر کلاس روم بنیادی سہولتو ں سے محروم ہیں جہاں گرمیوں میں سخت گرمی اور جاڑوں میں سخت سردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کلاس رُوم کے ماحول کا دوسرا پہلو تعلیمی اور تدریسی ہے جس میں طلبا کو آگے بڑھ کر کچھ کرنے کا موقع مہیا نہیں ہوتا خوف کا علم یہ ہے کہ طلبا ہمیشہ کے لیے سوال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں سوال کا براہِ راست تعلق سوچنے کے عمل سے ہے اس طرح طلبا پر سوچ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں‘ اس ملک میں اب سوال کرنے کا موقع کہاں ہے؟ کسی بھی جگہ نہیں ہے‘ بس یہی سننے کو ملتا ہے کہ ” جو کہا گیا ہے اس پر عمل کرو“ لیکن کوئی نہیں سوچتا اور سمجھتا کہ ہمارا معاشرہ‘ ہمارا سیاسی نظام‘ سیاسی جماعتوں کی تنظیم سمیت ہمارا نظام تعلیم‘ ادب‘ طب‘ صحافت سب شعبے ” جو کہا گیا ہے اس پر عمل کرو“ کی چکی میں پس رہے ہیں کوئی نہیں سوچتا کہ ایسے ماحول میں کوئی کارکن تخلیقی کام کیسے کرے گا؟ پالیسی ساز شاید بے خبر ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے میں معاشرے میں کئی بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں تعلیم کے میدان میں سکول کا سماجی ادارہ‘ جس میں طلبہ اساتذہ‘ والدین اور ادب اور مذہب سب کی تعلیم دی جاتی تھی یہ سب اب ذرائع ابلاغ کے بوجھ تلے دب گیا ہے‘ جی ہاں کہا یہی جاتا ہے کہ میڈیا ایک قوت بن چکا ہے ہوسکتا ہے کہ میڈیا اب دوسرے سماجی اداروں سے ممتاز ہی ہو‘ وجہ یہ ہے کہ میڈیا تھوڑے وقت میں بہت سارے لوگوں تک رسائی رکھتاہے‘ فیس بک‘ ویٹس ایپ بھی میڈیا کی شکل ہے جس نے وقت اور جغرافیہ کی قید سے بھی آزاد کردیا ہے یہ سیکھنے کا ذریعہ ہے مگر اس کے برے استعمال نے ماحول ناخوشگوار بنا رکھا ہے‘ ہمارا تعلیم نصاب بھی اب ہمیں کچھ نہیں دے رہا‘ جو گھٹن کلاس روم میں ہے وہی گھٹن تعلیمی نصاب میں پائی جاتی ہے‘ ہمارے اساتذہ ہمیں خلاصوں سے منع کرتے تھے‘ اب ہر طالب علم کے ہاتھ میں درسی کتاب کی بجائے گائیڈ بک ہے‘ جس میں درج معلومات ناقص ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ یہی اصل معلومات سمجھی جارہی ہیں‘ بہت سے اداروں میں نصابی کتب کی بجائے گائیڈ بکس نما کارکن ہیں‘ جس نے پہلے جاکر باس کے کان بھر دیے بس اسی کی معلومات اصل سمجھی جاتی ہیں‘ حقائق اور تحقیق کا بنیادی تصور بھی بدل گیا ہے یہ” جوہری تبدیلیاں“ ادارے تباہ کر رہی ہیں آئی ہیں پرانے زمانے میں تھا کہ والدین بچوں کواساتذہ کے پاس چھوڑ آتے تھے اور کہتے تھے کہ بچہ آپ کے حوالے‘اساتذہ اسی بچے پر کام کرتے اور اسے علامہ اقبال بنا دیتے‘ تب قبلہ محترم میر حسن جیسے اساتذہ تھے‘ آج وہ ماحول نہیں‘ والدین کہتے ہیں کہ کوئی استاد ہمارے بچے کو مارنا تو درکنار جھڑک کر تودکھائے‘ جس طرح استاد بے بس ہے اسی طرح صحافت میں آج ایڈیٹر بے بس بنا دیے گئے ہیں‘ ادب والوں کی جگہ‘ ٹی ڈراموں میں داکاروں نے لے لی ہے‘ اور ہم سجھتے ہیں کہ زمانہ ترقی کر رہا ہے‘ صحافت کا حال یہ ہے کہ خبر‘ کالم‘ مضمون میں فرق نہیں رہا‘ جس نے بھی اس میں فرق سمجھانے کی کوشش کی اسے کہہ دیا جاتا ہے کل سے آپ کی ضرورت نہیں ہے…… جب پاکستان قائم ہوا تو ملک کی معیشت بہت کمزور تھی‘ مگر ملک میں گداگری نہیں تھی‘ اب دعوی ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں‘ مضبوط معیشت کے حامل ہیں‘عالمی سطح پر ہماری پہچان ہے‘ ایشاء میں ہم سے پوچھے بغیر کوئی دم نہیں مار سکتا مگر شہروں میں دیکھیں کہ گداگری کس قدر بڑھ گئی ہے‘ یہ مجبور لوگ ہیں یا پروفیشنل‘ اب فرق کرنا مشکل ہے‘…… حکومت خود اعتراف کر چکی ہے کہ اس کے پاس مستحق افراد کا ڈیٹا نہیں ہے‘ بے انکم سپورٹ پروگرا میں ایسے نام بھی نکل آئے جنہیں سرکار نے بائئیس گریڈ کی نوکری دے رکھی ہے‘ یہ سب نام کس نے شامل کیے کوئی علم نہیں‘ یہ لوگ کتنے پیسے لے گئے اس کا بھی کسی کو کوئی علم نہیں‘ ہم ۷۳ سالوں میں اپنے ملک میں مستحق افراد کا ڈیٹا بھی اکٹھا نہیں کر سکے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔