موسم بدل رہا ہے

جمعہ 16 اکتوبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 ایک عرصہ ہوا‘ لوگ ریل گاڑیوں کے اوقات دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کیا کرتے تھے‘ ریلوے ہر سال اپریل اور اکتوبر میں ریل گاڑیوں کے اوقات تبدیل کرتی ہے‘ اور انہی دو مہینوں میں تعلیمی اداروں اور دفتروں کے اوقات بھی تبدیل کیے جاتے ہیں‘ جس سے اس بات کی اطلاع ملتی ہے کہ اب موسم بدل رہا ہے‘ ان دنوں اکتوبر کا مہینہ ہے اور موسم کے ساتھ ساتھ سیاست بھی تبدیل ہورہی ہے‘ دھرنے‘ جلوس‘ مظاہرے‘ پکڑ دھکڑ‘ ضمانتیں منظور اور منسوخ ہو رہی ہیں‘ مقدمات درج ہورہے ہیں اور درج مقدمات سے نام خارج کیے جارہے ہیں‘ غداری کا مقدمہ رات کی تاریکی میں درج ہوا اور دن کے اجالے میں نام خارج کیے گئے‘ موقع محل دیکھ کر متحدہ نے بھی انگڑائی لی اور پانچ سال پرانے غداری کے مقدمے سے وفاقی وزیر امین الحق کا نام خارج کرنے کی درخواست لیے وزیر اعظم کے پاس پہنچ گئی‘ وزیر اعظم نے نام خارج کرنے کی ہدائت بھی فرمادی‘ ثابت ہوگیا کہ قانون قانون ہوتا ہے اور وزیر اعظم وزیر اعظم‘ دونوں میں بڑا کون ہے فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں‘ ریاست سے غداری کا جو بھی مرتکب ہو‘ اس کے لیے اس ریاست کے دل میں کوئی رحم نہیں ہوتا‘ اور ایسے شخص کے لیے رحم ہونا بھی نہیں چاہیے‘ مگر سیاسی الزامات اور سیاسی مقدمات کا بے رحم پتھراؤ میں ختم ہونا چاہیے‘ اس طرز عمل کا نقصان یہ ہوا اور ہوتا ہے کہ اب ہر کوئی چاہے گا کہ جو منہ میں آئے کہہ دیا جائے کون پوچھے گا؟ یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ کیا حکومت کی سیاسی مخالفت بھی غداری ہے؟ نہیں جناب‘ مگر یہ غداری ضرور ہے کہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنا‘ اسے فائدہ پہنچانا‘ اور شعوری طور پر‘ جان بوجھ کر ریاست کو نقصان پہنچانے کا عمل کرنا‘ یہ سب غداری ہے اور اس شخص کے لیے ریاست کے دل میں کوئی رحم نہیں ہونا چاہیے‘ کم از کم چار عشرے تو گزر چکے ہیں کہ ملک میں سیاسی افراتفری دیکھی ہے‘ ہر حکومت یہ سمجھتی رہی کہ اپوزیشن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ تاریخ شاہد ہے کہ ایوب خان اپنے وقت کے طاقت ور حکمران تھے‘ اپوزیشن متحد ہوئی تو انہیں دس سالہ جشن ترقی ماننے کی مہلت نہیں مل سکی‘ کس معروف نعرے کی وجہ سے انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا یہ نعرہ اگر گوہر ایوب اور عمر ایوب ہی ہمت کرکے ہمیں بتا دیں تو ان کی مہربانی ہوگی‘ ایوب خان کے بعد بھٹو حکومت آئی اور اس کے خلاف اپوزیشن متحدہ ہوئی‘ حکومت کے خلاف تحریک میں پہلے روز ہائی کورٹ سے صرف چھ وکلاء‘ جی ہاں صرف چھ وکلاء پر مشتمل جلوس نکلا تھا‘ احتجاجی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے آگ بن گئی اورچوتھے مہینے بھٹو حکومت بر طرف ہوگئی‘ بھٹو نے کہا تھا کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے‘ ان کی کرسی بھی گئی اور زندگی بھی‘ ان کے بعد غیر جماعتی انتخاب میں جونیجو آئے‘ بلکہ لائے گئے‘ جو انہیں لائے انہوں نے ہی جنیوا معاہدے کے بعد حکومت برطرف کردی‘ جنیوا معاہدہ کیا تھا؟ یہ معاہدہ کشمیر کے بارے میں بھارت کے پانچ اگست کے اقدام پر خاموشی جیسا ہی جرم تھا اور ہے‘ جونیجو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو آئیں‘ ان کے بعد نواز شریف‘ مگر دونوں آئے یا لائے گئے‘ یہ فیصلہ اب تاریخ کا حصہ ہے‘ مہنگائی بھٹو کے دور میں بھی تھی‘ اس کے بعد بھی رہی‘ آج بھی ہے‘ یہ ایک مستقل ایشو ہے مگر آج کے حالات یہ ہیں کہ ملک کا ہر شہری مہنگائی سے پریشان ہے‘ ماضی میں ایسا تھا کہ اشرافیہ‘ یہ ایک طبقہ ایسا تھا جو مہنگائی کے بد اثرات سے بچا رہتا تھا‘ مگر آج ملک میں یہ طبقہ بھی پریشان ہے‘ ماضی میں روپے کی قدر تھی‘ ڈالر ایک روپے کا تھا‘ بڑھتے بڑھتے یہ دس ‘بیس‘ تیس‘ چالیس‘ پچاس تک پہنچا‘ مگر معیشت‘ زراعت‘ صنعت کا پہیہ چل رہا تھا‘ آج ڈالر سو سے اوپر چلا گیا ہے‘ معیشت رک گئی ہے‘ صنعت کا دم گھٹ رہا ہے‘ زراعت آخری ہچکی لے رہی ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ گھبرانا نہیں‘ پانچ اگست کو بھارت کشمیر میں گھس گیا‘ اسے اپنا اٹوٹ انگ سمجھ رہا ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ گھبرانا نہیں‘ وزیر اعظم عمران خان چونکہ کرکٹ کے کھلاڑی رہے ہیں لہذا انہیں کرکٹ اصلاحات کی ذیادہ سمجھ ہے‘ یہ خود ہی بتائیں کہ جو کھلاڑی رن نہ کرے‘ کیچ چھوڑتا چلاجائے‘ فیلڈنگ بھی نہ کرسکے‘ حتی کہ بلا بھی نہ پکڑنا آتا ہو اسے میدان میں اتارا جانا چاہیے؟ سفارش سے کھلاڑی سلیکٹ تو ہوجاتا مگر سفارش کی بنیاد پر کھیل نہیں سکتا‘ ان دنوں نواز شریف متحرک نظر آتے ہیں‘ لندن اپنے علاج کے لیے گئے‘ اور وہاں ہسپتال داخل نہیں ہوئے بلکہ الٹا حکومت کا ہی علاج شروع کردیا‘ ایک ایسی حکومت جو انہی کی غلطیوں سے وجود میں آئی‘ اگر یہ حکومت غلط اور عذاب ہے تو پھر یہ نواز شریف حکومت کے گناہوں کا ہی نتیجہ ہے‘ یہ عذاب قوم پر مسلط ہوا ہے‘ یہ ایسی حکومت جسے اسپیکر اسمبلی جیسے منصب کی حمائت میسر ہے‘ اور صدر پاکستان‘ جو ریاست کے سربراہ ہیں‘ جن کا منصب وفاق کی علامت ہے‘ وہ بھی خم ٹھوک کر حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں‘ چیئرمین سینیٹ متعدد بار ایسی کوشش کرچکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین ”صلح“ کرادی جائے‘ کسی بھی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ‘ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی حقیقتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘ ہمارا دین بھی کہتا ہے کہ سلام کرنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں مگر مجال ہے‘ دو سال ہونے کو ہیں‘ پارلیمنٹ میں ہم نے یہ منظر دیکھا ہو کہ قائد ایوان نے قائد حزب اختلاف سے ہاتھ ملایا ہو‘ عمران خان تو مغرب کی مثال دیا کرتے تھے‘ مگر وزیر اعظم بن جانے کے بعد یہ سب کچھ کیوں بھول گئے؟ مگر اب ہوسکتا ہے کہ پی ڈی ایم انہیں بھلا ہوا سبق یاد کرادے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :