یادیں ہی رہ گئی ہیں

جمعرات 5 نومبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 قبلہ سید سعود ساحر‘ نوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے‘ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آئے‘ تحریک پاکستان کا ہنگامہ خیز دور بہت قریب سے دیکھا‘ بطور شہری وہ مسلم لیگ کے ہامی تھے‘ کچھ عرصہ تک بائیں بازو کے کیمپ میں رہے مگر تبدیلی آئی تو مولانا مودودی ان کے مرشد ٹھہرے‘ دایاں بازو اور بایاں بازو اپنی جگہ‘ ان کے مزاج کا اپنا ہی کیمپ اور بازو تھا‘ہمیشہ اس بات پر انہیں فخر رہا کہ ان کے پاس مولانا کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تعریفی خط موجود ہے‘ مولانا سے وہ دل وجان سے عزت کرتے تھے‘ اور ان کے افکار سے متاثر تھے‘ عملی زندگی کا آغاز ایک عام آدمی کی طرح کیا‘ خاک چھانتے چھانتے22 فروری1958میں صحافت کے دشت میں قدم رکھا‘ پھر صحافت کی پہچان بن گئے‘ اور ریاست کی جانب سے صدر پاکستان نے انہیں سول ایوارڈ‘ صدارتی تمغہ حسن کاکردگی عطاء کیا‘ یہ ایک عیجب اتفاق ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل سے کوئی چار روز قبل یہ راولپنڈی پہنچے‘ صحافت جب اختیار کی تو آٹھ ماہ بعد مارشل لاء نافذ ہوا‘ یوں انہیں ملکی تاریخ کے اہم ترین واقعات قریب سے دیکھنے کا موقع ملا‘یہ وہ دور تھا جب جنرل ایوب خان کا مارشل لا نافذ تھا، ملک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی، اخبارات پر سخت پابندیاں عائد تھیں، پرانے سیاست دان ایبڈو کے قانون کے تحت سیاست کے کوچے سے باہر کر دیئے گئے تھے، عام جلسوں اور جلوسوں کی ممانعت تھی، سیاسی امور پر کھلم کھلا تو کجا، لگی لپٹی رکھ کر بھی بات نہیں کی جا سکتی تھی،اہل ِ قلم بھی خوف و دہشت کی اس فضا سے بُری طرح سہمے ہوئے تھے، ایسے میں ایک نووارد اخبار نویس کے لیے کام کرنا کس قدر دشوار ہوگا‘مگر اللہ نے ہنر دے رکھا تھا لہذا انہوں نے کام کرکے دکھایا وہ واقعی ایک کہکشاں تھی جو صحافت کے آسمان پر نظر آتی تھی انہوں نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو اس وقت ملک میں ایوب خان‘ مولانا مودودی‘ نواب ذادہ نصراللہ خان‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا بھاشانی‘ مجیب الرحمن‘ بھٹو‘ ولی خان‘ چوہدری ظہور الہی اصغر خان‘ پیر پگارہ‘ ملک قاسم‘ خواجہ خیر الدین‘ میاں زاہد سرفراز“ نسیم ولی خان‘ سردار شیر باز خان مزاری‘ میا ں طفیل محمد جیسے نام سیاست میں تھے‘آزاد کشمیر سردار عبد القیوم‘ سردار ابراہیم‘ فتح محمد کریلوی‘ راجا حیدر علی‘ نور حسین‘ پیر علی جان کشمیر میں اور بعد میں نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو‘ حتی کہ عمران خان آئے‘ ان سب سے سعود ساحر کی ذاتی شناسائی تھی‘ یہ سب بڑے قد کاٹھ والے نام ہیں‘ اسی طرح صحافت میں‘ مجید نظامی‘ عنائت اللہ‘ ہدائت اختر‘ صلاح الدین‘ ابراہیم جلیس‘ نیاز مدنی‘ محمود مدنی‘ عبد الکریم عابد‘ مجیب الرحمن شامی‘ الطاف حسن قریشی‘ عبد القادر حسن‘ ارشاد حقانی سمیت دیگر بے شمار بڑے نام‘ سعود ساحر کی تعلیم واجبی سی تھی مگر انہوں نے ان بڑے ناموں کے درمیان رہ کر اپنا نام کمایا‘ یہی ان کا امتیاز تھا جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا‘ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جسے تین کام نہیں آتے اسے دوکام نہیں کرنے چاہیے‘ یعنی جسے تاریخ‘ لٹریچر اور اردو پر عبور نہیں اسے دو کام ‘سیاست اور صحافت نہیں کرنی چاہیے‘ صحافتی زندگی میں دلائی کیمپ کا کھوج لگایا‘ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی کوریج کی‘ بنگلہ دیش نا منظور تحریک دیکھی اور رپورٹ کی‘ پاکستان قومی اتحاد کی سیاسی تحریک دیکھی‘ اس پر بہت کچھ لکھا‘ ضیاء الحق کو نجات دھندہ کہتے تھے‘ بائیں بازو کی محفل میں جب بھی سیاسی بحث چھڑ جاتی تو ہمیشہ زور دے کر کہتے کہ ضیاء الحق شہید‘ بھٹو کی پھانسی کا واقعہ دیکھا تو نہیں البتہ بھٹو اور جیل حکام کی گفتگو براہ راست سنی‘ ان کے بغیر ملکی صحافت نہ مکمل رہے گی‘ جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ آصف زردری کو سمجھنے کے لیے سیاست میں پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے‘ صحافت کو سمجھنے کے لیے سعود ساحر میں پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے‘ خبر ان کے دربار ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی تھی‘ گفتگو کے وہ بادشاہ تھے‘ زبان کی صحت‘ مروج الفاظ کے تلفظ اور ہجوں پر بھرپور توجہ دیتے تھے آج کے دور میں اخبارات و رسائل کا تو ذکر ہی کیا‘ معتبر نام کی شہرت کے حامل اخبارات میں بھی پروف کی اغلاط عام ہیں‘ شاید نئی نسل کو مشکل ہی سے اس دعوے پر یقین آئے گا کہ ماضی کے اخبارات اور صحافی کے لیے معیار کیا تھا‘ صحافت کا شعبہ کوئی کھیل نہیں،بلکہ یہ ایک حساس میدان ہے اب یہ تنقید اور بے جا القابات کی مشینری سمجھ لیا گیا ہے کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی اس وقت صحافت نے بس تنقید کا لٹھ اٹھایا ہوا ہے‘میڈیا دو دھاری تلوار ہے، اسے آنکھیں بند کر کے چلانا اپنا دامن زخمی کرنے کے مترادف ہے‘ شاہ صاحب بہت دلیر اور نڈر تھے‘ ہاں مگر وہ کہیں کہیں بہت کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش رہے اور اس خاموشی کا سبب ان کے صاحب زادے احمد سعود بھی ہیں‘ اب کوئی سعود ساحر نہیں رہا‘ ان کے ساتھ نیاز مندی پر فخر رہے گا‘ اکٹھے جمعہ کی نماز ادا کرنا‘ ان کی محفل میں بیٹھنا یاد رہے گا‘ پارلیمنٹ ہاؤس ہو یا ایوان صدر‘ ایوان وزیر اعظم ہو یا چیئرمین سینیٹ کا آفس‘ انہوں نے ہر جگہ اپنی مرضی دکھائی‘ ایک بار چیئرمین سینیٹ کے آفس میں ان کی کرسی پر بیٹھ کر گرین ٹیلی فون سے انہیں ہی فون ملادیا‘ اور کہا کہ آپ کے آفس سے بات کر رہا ہوں‘ وہ چیئرمین سینیٹ حیران پریشان‘ عدالتی نوٹس ملا تو ہرکارے سے کہا جس نے نوٹس بھیجا ہے اسے ہی جاکر دے دو‘ ایسے ہزاروں واقعات ہیں‘ ان کے ساتھ کی گئی راز کی بے شمار باتیں ہیں‘ ایک بار ایسا ہوا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بہاول پور گئے‘ رات گئے واپسی ہوئی‘ لمبے سفر سے تھکے ہوئے مگر جب گھر کی دہلیز پر پہنچے تو تھکاوٹ کا اثر چھپا کر چہرے پر مسکراہٹ لائے تو گھر والوں نے کہا آپ تو باالکل فریش لگ رہے ہیں‘ یہ واقعہ اگلے دن آکر سنایا اور کہا کہ اگر میں تھکا وٹ کا تاثر لیے گھر جاتا تو گھر والے پریشان ہوجاتے انہیں پریشان ہونے بچانے کے لیے خود پر فریش ہونے کی کیفیت طاری کی‘ اپنے پوتوں‘ نواسوں سے بہت محبت کرتے تھے‘ گھر جاتے تو زین‘ بلال‘ زینب اور آمنہ کے لیے ضرور چاکلیٹ‘ کھلونے یا کچھ اور ضرور لے جاتے‘ شاہ صاحب ایک بار کامونکی گئے‘ ایک دینی جماعت کے اجتماع کی تقریب کی کوریج کے لیے‘ وہاں انہیں سگریٹ پینے سے منع کیا گیا کہنے لگے” میں آپ کی تقریب کی کوریج کے لیے آیا‘ آپ کے فتوی کی اطاعت کے لیے نہیں آیا‘ اسی تقریب میں ایک اشاعتی ادارے کے مالک بھی ایک سیشن کے لیے مہمان خصوصی تھے‘ جب وہ خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو شاہ صاحب نے انہیں خطاب نہیں کرنے دیا اور کہا کہ پہلے کارکنوں کی تنخواہیں دو پھر یہاں خطاب کرنا‘سینکڑوں ایسی باتیں ہیں‘ شاہ صاحب سے بڑا ہی راز و نیاز رہا‘ مگر ایک راز انہوں نے نہیں بتایا کہ عمر کے آخری حصے میں صحافتی خدمات کے معاوضے کے معاملے میں خاموش کیوں رہے؟ اب وہ اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں‘ اللہ غفور اور رحیم ہے‘ اللہ سے ان کی مغفرت کی دعاء ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :