چراغ بُجھتے چلے جارہے ہیں

منگل 30 مارچ 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 سہیل عبد الناصر بھی دُنیا سے چلے گئے، جب بھی دفاعی تجزیاتی رپورٹنگ کی تاریخ لکھی جائے گی مورخ سہیل عبدا لناصر کا نام فراموش نہیں کر سکے گا ان کے تجزیے دل کو چُھو لینے والے ہوا کرتے تھے دفاع کے امور سے متعلق ان کی تحریر راج کرتی رہی ہے بہت کم عرصے میں انہیں شہرت ملی بلکہ بلندیوں کو چُھونے لگی، مرحوم، اخبار نویس تھے، دانش ور تھے، پاکیزہ انسان تھے، دوست نواز تھے، انتہائی مہربان میزبان بھی، مطالعہ ان کی کمزوری تھا، اچھی کتاب پڑھنا انہیں پسند تھا،کتاب سے دوستی انہیں اپنے خاندانی ورثے میں ملی، وہ جانتے تھے کہجو پڑھنا چاہتے ہیں، آنکھیں کھو دیتے ہیں اور جو پڑھنا نہیں چاہتے، وہ اپنے آباؤ اجدا د کی کتابیں ردی میں بیچ دیتے ہیں،کتاب سے بڑھ کر کوئی اور دوست نہیں ہو سکتا ہے، سہیل بھائی نہائت مستند اور پختہ اخبار نویس تھے، وج کٹی پتنگ کی مانند نہیں تھے کہ انہیں کوئی بھی لوٹ لے، ان کی رائے میں بڑا وزن ہوتا تھا، ان کی فائل کی ہوئی خبر کی قیمت کیا ہوگی؟ باالکل ان مول، کوئی ان کی خبر کی قیمت نہیں دے سکتا تھا انہوں اپنے کردار سے اپنی ساکھ بنائی، ہمیشہ سچ لکھنے کی سعی کرتے، دفاعی امور پر لکھنے کے باعث افغانستان، یورپ، امریکا اور خاص طور پر جاپان کے ڈپلومیٹک اور میڈیا سرکل میں ان کا ایک نام تھا، مگر مجال ہے کہ انہوں نے اپنے نام پر اور وطن عزیز کی ساکھ پر کوئی حرف آنے دیا ہو، اُن کا اسلام، پاکستان اور اپنی عزت نفس کے ساتھ رشتہ بڑا ہی گہرا اور اٹوٹ تھا، ان کے انتقال پر ہر کوئی انہیں خراج عقیدت پیش کر رہا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ دراصل دل کے ٹکڑے ہیں جو انہیں خراج عقیدت کے لیے پیش کیے جارہے ہیں جس نے سچ کا دامن تھامتے ہوئے اپنا عہد نبھایا، جب بھی اور جہاں بھی ان سے ملاقات ہوئی ہمیشہ مسکراہٹ سے چاہت سے ملے، چاہے کسی نے ذیادہ جان پہچان ہو یا نہ ہو، نہائت بے غرض دوست تھے، شوخ طبعیت نہیں تھے مگر ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ لطیف پیرائے میں اپنا سارا مدعا بیان کرجاتے تھے، مذاق نہیں مزاح کے قائل تھے، اور انجوائے کرتے تھے، آزاد منش انسان تھے، پابندی کو روگ سمجھتے تھے، قبلہ سعود ساحر کے انتقال کے بعد ان کے دفتر کے صحن میں ملاقات ہوئی تو ہاتھ پکڑ کر دیر تک میرے ساتھ تعزیت کرتے رہے، رو پڑے کہ آج آپ اکیلے آئے ہیں،دیو جانس کلبی 400 قبل مسیح کا ایک بہت بڑا فلسفی تھا، سکندر اعظم نے اپنے استاد ارسطو سے اس فلسفی کا بہت نام سنا تھا۔

(جاری ہے)

اس کے اور سکندر کے درمیان دو بار ایسے مکالمات ہوئے جو نا صرف تاریخ کا حصہ بن گئے بلکہ سکندر کی زندگی اور سوچ کا رخ بدل گئے۔ سکندر اکثر اپنے مصاحبین کے ساتھ اس فلسفی کا ذکر کیا کرتا۔ یہ اور بات کہ وہ فتوحات میں اس قدر آگے نکل گیا تھا کہ اس کے لئے اس موڑ سے واپسی ممکن نہیں رہی تھی،مگر استاد سے اس کی ملاقاتوں نے اس کے دل اور دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے تھے،ایک دن سکندراعظم اس کی شہرت سن کر اس سے ملنے کے لئے پہنچا تو وہ سردی کے موسم میں بڑے سکون اور آرام سے ایک بیابان میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا،دیوجانس اس کی آمد پر نا حیران ہوا نا پریشان بلکہ بلکہ اسی طرح بے تاثر لیٹا رہا، سکندر نے کچھ دیر انتظار کیا مگر استاد کو بے جنبش پا کر قریب پہنچا اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے بڑے ادب سے اس کے سامنے کھڑا ہو کر بولا،'' میں سکندر ہوں، یونان کا فاتح اور ماسیڈونیا کا بادشاہ،اپنے استاد ارسطو سے آپ کی بہت تعریف سنی ہے، میں آپ کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں، بتائیے میں آپ کے لئے کیا کروں؟'اس پر دیو جانس نے وہ تاریخی جملہ کہا جو فلسفے کی کتابوں میں امر ہو گیا اور بعد ازاں ایک ضرب المثل بن گیا۔

اس نے کہا، '' میرے لئے کچھ کرنا چاہتے ہو تو ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو جاؤ میں دھوپ سینک رہا ہوں اور تم اس کے راستے میں کھڑے ہو''سکندر اس کی بے نیازی سے بے حد متاثر ہوا،اس ملاقات کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے کہا ”اگر میں سکندر نہ ہوتا تو دیوجانس ہوتا“ان الفاظ نے سکندر اعظم کی آنکھیں کھول دیں اور اس کے دل پر بہت اثر ہوا استاد کی یہ بات وہ مرتے دم تک نا بھولا اور آخری وقت کہ گیا”جب میں مر جاؤں تو میرے دونوں ہاتھوں کو میرے کفن سے باہر رکھنا تاکہ لوگ جان سکیں کہ جب میرے جیسا بادشاہ بھی دنیا سے گیا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے“ سہیل بھائی جس قبیلے کو آپ چھوڑ گئے ہیں، یہ قبیلہ آج مادہ پرست لوگوں کی گرفت میں ہے، جنہیں کمانے کی فکر ہے، حق دار کو اس کا حق دینے کی فکر نہیں ہے، ان لوگوں نے مولانا ظفر علی خان کی صحافت بیگار کیمپ بنا دی ہے، ہاں مگر جب تک، صحافت پر سہیل عبدالناصر جیسوں کا سایہ رہے گا، صحافت کو بیگار کیمپ بنانے والے یہ مکروہ کردار کامیاب نہیں ہوسکیں گے، سہیل بھائی انتہاء درجے کے حساس انسان تھے، انہوں نے کسی کی دھوپ روکی اور نہ چھاؤں، ہمیشہ اپنی خودی میں رہے، وہ بہت خوبصورت زندگی بسر کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، آج ملک کی صحافت بحران نہیں بلکہ المیوں سے گزر رہی ہے، اس شعبے میں اب چھاتہ بردار لوگوں کی بھرمار ہے، ایک بار میاں طفیل محمد رحمتہ اللہ علیہ، ایک درویش صفت انسان، نے کہا تھا جس کی جیب میں قلم ہے وہ خود کو صحافی سمجھتا ہے، آج جس کی جیب میں پیسہ وہ مالک بناہوا ہے جس کی دوستی اور تعلق ہے وہ اس شعبے میں منصب دار بنا ہوا ہے، بدقسمتی سے آج یہ شعبہ منافقانہ ماحول میں گھر چکا ہے، سہیل بھائی تو ویسے ہی اس طرح کے ماحول سے ناآشنا تھے، اسی لیے ان کا دل اس دنیا میں نہیں لگا، سچ یہ ہے کہ دنیا دل لگانے کی جگہ بھی نہیں ہے، سہیل بھائی آپ کی یاد دلوں میں زندہ رہے گی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :