کل ،آج اور کل

بدھ 18 اگست 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

26 اگست1941 کا سورج کی پہلی کرن آج تک ایک تاریخ ہے یہ کوئی معمولی کرن نہیں تھی بلکہ مکہ کی وادی میں طلوع ہونے والے سورج کے پیغام کی ایک یاد دھانی تھی، جماعت اسلامی کا قیام بر صغیر کی سیاست میں ایک نئی انگڑائی تھا، اس پیغام نے اہل بر صغیر کے علاوہ مصر، انڈونیشیا، شام اور ملائشیا سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو کارل مارکس، کمیونزم،سوشل ازم اور غیر اللہ کے نظام کی غلامی سے نکل کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی غلامی اختیار کرنے دعوت دی، یوں وہ نظریاتی ریاست پاکستان کے تصور کے بانی ٹھہرے اور 20 ویں صدی کے ان تمام نظریوں کوشکست دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مسلم آواز کو دنیا کی طاقت ور آواز نظریہ حیات بنانے کے عزم کا اظہار کیا، سید مودودی کے علمی خیالات کا اثر جدید اسلامی تحریکوں کے لیے آکسیجن سے کم نہیں تھا، افریقی عرب دنیا میں اخوان المسلمون نے پیغام بہت اچھی طرح سمجھا اور باطل کے ساتھ جا ٹکرائی، جب جماعت اسلامی وجود میں آئی تو اس وقت بر صغیر کے مسلمان ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے تھے،1930 میں علامہ اقبال رح خطبہ الہ آباد میں ایک الگ مسلم ریاست کا کاکہ بھی پیش کرچکے تھے اور1940 میں منٹو پارک میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی اور اس کے سات سال بعد پاکستان وجود میں آگیا، مسلم لیگ نے ایک الگ ریاست کے لیے جو جدوجہد کی اس کی اپنی اہمیت ہے، جماعت اسلامی اس ریاست میں اللہ اور اس کے رسول کی غلامی کا رنگ بھرنے کے لیے سیرت سازی اور کردار سازی کا محاذ سنبھالنے کے لیے اگلی صف میں آن کھڑی ہوئی تھی، یوں دونوں کا مقصد ایک تھا، علامہ اقبال رح کے سید مودودی کے ساتھ تعلقات، باہمی اعتماد اور بھروسہ اس قدر تھا کہ اس بارے میں بے شمار نظیریں ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں، تاریخ میں یہ بات ثابت ہے کہ دونوں ایک دوسرے ممدو معاون تھے، بانی پاکستان کی زندگی تک سب کچھ ٹھیک تھا، مولانا مودودی کی ریڈیو پاکستان پر تقاریر ثابت کرتی ہیں کہ ان کے پیغام کو علامہ اقبال اور بانی پاکستان محمد علی جناح نے خوب سمجھا اور ان کی علمی رہنمائی میں آگے بڑھنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی، مگر بانی پاکستان کی آنکھیں بند ہوتے ہی سب کچھ بدل گیا، اور اس کے بعد اگرچہ یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ مملکت پاکستان کا نظام یہ طے ہوا کہ اسلام ہی ریاستی مذہب ہوگا،1953 میں ملک کے ممتاز علماء کرام نے آئین پاکستان کے لیے جو رہنمائی دی اس میں سید مودودی رح کا کردار قوم کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ اسے تفہیم جماعت اسلامی میں آسانی ہو، حقائق یہی ہیں کہ آج کا نوجوان چاہتا ہے اور اس کا حق بھی کہ اسے اس بارے میں رہنمائی دی جائے کہ ہمارا ماضی کیسا تھا، ہمارے علماء نے دستور پاکستان کے لیے کیا رہنمائی دی تھی، اس محاذ پر کام اگر شدت کے ساتھ جاری رہتا تو اس ملک میں روشن خیالی، لبرل ازم اور منتشر الخیال طبقات کبھی نہ پنپ سکتے تھے، قائد کے انتقال کے بعد مسلم لیگ منتشر ہوئی، قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کے بعد حکومتی نظام اور جمہوریت ہی منتشر ہوگئی اور تنکوں کی ماند بہہ گئی، کچھ عرصے کے بعد ایوب خان اگئے اور پھر آج تک واپس نہیں گئے آج ”وہ“کسی نہ کسی شکل میں ملک میں حکمران ہیں، آج کا نوجوان ا س سے بے خبر ہے کہ 60 کی دہائی میں کیا ہوا؟ 70کی دہائی میں اہل پاکستان پر کیا گزری؟80 کی دہائی جمہوریت پر کس طرح وار کرگئی؟1980 میں جس پاکستانی کی پیدائش ہوئی آج وہ اکتالیس سال کی عمر کو پہنچا ہوا ہے، یہ ایک پختہ عمر ہے مگر اپنی پیدائش کے بعد جوانی کے دور میں اس نے کیسا پاکستان دیکھا؟ ان سوالوں کا جواب قاری پر چھوڑ دیتے ہیں سید مودودی نے 1941 میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس میں ایک علمی اور 'متقی مسلمانوں' کا ایک سرکردہ اور منتخب گروہ ایک 'اسلامی انقلاب' لانے کے لیے کام کرے گا یہ نتظیم ایک نظریہ ہے ایک ایسا نظریہ جس نے سب سے پہلے معیشت اور سیاست کے مختلف حصوں کو 'اسلامائز' کر کے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی وکالت کی تاکہ مکمل طور پر اسلام کی سیاست حتمی اسلامی انقلاب کے آغاز کے لیے بنایا جا سکتا ہے سید مودودی کے نظریات نے پاکستان کے ایک موئثر پڑھے لکھے طبقے کو اپنی طرف متوجہ کیا ،اور مصر کی اخوان المسلمون نے بھی یہی راستہ اپنایا، جس نے مصر کے اندر ایک 'جہاد' کے ذریعے اس عمل کو ختم کرنے کی کوشش کی، جہاد افغانستان جب فتح یاب ہوا اور روسی فوج واپس گئی تو ہنری کسنجر نے روس کو مخاطب ہوکر پالیسی بیان جاری کیا کہ” اب اسلام ہمارا اور تمہارا مشترکہ دشمن ہے“ یہ پالیسی بیان رریکارڈ پر موجود ہے، یہی وہ لمحہ تھا کہ دنیا بھر کی اسلامیء تحریکیں مل بیٹھتیں اور غور کرتی کہ اس بیان کا مطلب کیا ہے اور اس کے ثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ مگر مسلم دنیا بیدار نہیں ہوئی اور روس کی دریائے آمو کے پار دھکیلے جانے پر خوشیاں ماتی رہی، روس کی واپسی کے بعد سب سے پہلے مدرسے ہدف بنے، پھر مسلم تحریکیں ہدف بنائی گئیں، المیہ یہ ہوا کہ پوری دنیا میں مسلم نہ صرف بکھری بلکہ ایک دوسرے مد مقابل بھی آن کھڑی ہوئی، اگر ہم یہاں ایک لمحے کے لیے رک جائیں اور بر صغیر میں انگریز راج کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا احوال جانیں تو علم ہوگا کہ علماء کے کردار کے باعث انگریز بر صغیر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، مولانا کے علمی کردار اسلامی ریاست کے تصور نے یہاں سے انگریزوں کے پاؤں اکھاڑے، مولانا نے جس نظام پر بھی تنقید کی اسے پہلے پڑھا اور سمجھا اور پھر اس پر اپنی رائے دی انہوں نے مشہور یورپی فلسفیوں، سیاسی سائنس دانوں اور تاریخ دانوں کی تصنیف کردہ کتابیں اور مضامین پڑھنے میں تقریبا پانچ سال گزارے، اور وہ اس زوردار مشق سے ایک ایسا شخص نکلاجس نے تفہیم اسلام اور تفہیم قرآن کا مقدمہ مسلمانوں کے سامنے رکھا، جرمن مادہ پرست فلسفی ہیگل، برطانوی ماہر معاشیات، ایڈم سمتھ، فرانسیسی مصنفین، روسو اور ماہر حیاتیات، چارلس ڈارون کے بیانیے کی اپنے علمی کام سے نفی کی……… آج بھی ہمیں مولانا کا لٹریچر رہنمائی فراہم کرتا ہے مگر شاید معاشرے کے افراد کی اکثریت اس لٹریچر سے مستفید کیوں نہیں ہوئی… کیا علمی کام پر سیاست غالب آگئی یا ملک میں مطالعہ کا رحجان کم ہوگیا ہے یہ ایک باریک نقطہ ہے اسے سمجھا جائے تاکہ آنے والا کل جماعت اسلامی کے پیغام میں ڈھل جائے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :