خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ

پیر 10 اگست 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

عثمان رضی اللہ عنہ نام،ابو عبداللہ اور ابوعمر کنیت،ذوالنورین لقب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی موت کے وقت ایک انتخابی مجلس ترتیب دی اور اسے اپنے بعد خلیفہ منتخب کرنے کا کا م سپردکیا۔یہ انتخابی کونسل اُن چھ افراد پر مشتمل تھی جو اُس وقت قوم میں زیادہ با اثر اور مقبول عام تھے۔اس مجلس نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار دے دیا ۔

انہوں نے چل پھر کر عام لوگوں سے معلوم کیا۔ حج پر تشریف لانے والوں سے پوچھا اور آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ لوگوں کا رجحان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف ہے۔اس کے بعد مجمع عام میں ان کی بیعت ہوئی اور خلیفہ بنے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال چھ ماہ خلیفہ رہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسلام کے لئے بڑی قربانیاں دیں ۔

(جاری ہے)

جنگ تبوک کے موقع پر کثیر لا تعداد اونٹ جو ما ل سے لدھے ہو ئے تھے رسول اللہ کو پیش کیے۔

جنگ تبوک کے موقعے پرایک تہائی لشکر کے اخراجات بھی برداشت کیے ۔ہر وقت اسلام کی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ رسول اللہ کی دو بیٹیوں کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ عرب کے سب سے بڑے تاجر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں غلے کاقحط پڑا ،خلیفہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے جن کے غلے سے لدھے اونٹ مدینہ کی طرف آرہے تھے حکومت کو فروخت کے لیے کہا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور کہا جو آپ نے قیمت لگائی ہے اس سے زیادہ قیمت پر فروخت کروں گا۔

خلیفہ بظاہران سے ناراض ہو ئے۔ مگر جب غلے سے لدھے ہوے اُونٹ مدینے پہنچے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام اُونٹوں کا غلہ بیت المال میں بغیر قیمت کے جمع کر وا دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام لائے تھے۔ مکہ میں کفار کے ظلم ستم کی وجہ سے حبشہ کی ہجرت میں شامل تھے ۔جب رسول اللہ نے اصحاب رضی اللہ عنہ کو ہجرت مدینہ کا کہا تو مدینہ ہجرت کی۔

غزوہ بدر میں اپنی کی بیماری کی وجہ اور رسول اللہ کے حکم کے مطابق مدینہ میں ہی رہے۔ باقی تمام مہمات میں شریک ہوئے تھے۔ غزوہ احد میں جب لوگ تتر بتر ہو گئے تو رسول اللہ کی حفاظت کے لیے دوسرے چند صحابیوں کے ساتھ شریک رہے۔صلح حدیبیہ میں رسول اللہ کے سفیر بن کر کفار مکہ کے پاس گئے۔ خبر مشہور ہو گئی کہ کفار نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ہے تو اس بات پر بیعت رضوان ہوئی۔

حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دست مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے ”آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا“حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت شورائی طرز کا تھا۔ لوگوں کو آزادی کی اجازت تھی۔ لوگ حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ مجلس شوریٰ میں عمال شامل تھے جو حکومت کو اہم معاملات میں مشورے دیتے تھے۔

ان مجلس میں عمال سے تحریری مشورے طلب کئے جاتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اختیارات کی تقسیم تھی۔ فوج کے افسر کا عہدہ ایجاد کیا گیا تھا۔ صوبے میں عامل اور فوج کا افسر علیحدہ اختیارات کا مالک ہوتا تھا ۔نگرانی کانظام قائم تھا۔ اس کے لیے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کئے جاتے تھے ،جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کر کے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے۔

جمعہ کے خطبے سے پہلے لوگوں سے اطراف ملک کی خبریں پوچھتے تھے۔ حج کے موقعے پر تمام اعمال لازمی طور پر طلب کئے جاتے تھے۔ اس لئے فوری شکایتوں کی تحقیقات کر کے تدراک کرتے تھے۔ ملک کا نظم ونسق فاروق اعظم رضی اللہ عنہ والا ہی تھا مگر ملکی محاصل میں اضافہ کیا ۔مصر کا۲۰/ لاکھ دینار سے ۴۰/ لاکھ تک پہنچ گیا تھا۔ ان کے دور میں اہل وظائف کا ایک ایک سو درہم کا اضافہ ہوا۔

لوگوں کے کھانے کا انتظام بھی کیا۔صوبہ جات میں دفاتر کے لیے عمارتیں تیار کروائیں۔ سڑکیں، پل،مہمان خانے،مسجدیں تعمیر کروائیں۔خیبر کی طرف سے کبھی کبھی سیلاب آیا کرتا تھا۔مسجد نبوی اور شہر کی آبادی کو نقصان پہنچتا تھا۔ مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر مدری کے قریب ایک بند بنوایااور نہر کھود اکر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ اس بند کا نام مہروز ہے۔

مسجد بنوی کی تعمیر و توسیع کی۔ ملکی انتظامات کوتمام مقامات پر علیحدہ کیا مستقل فوجی افسروں کا ہر مقام پر تعینات کیا۔تمام ممالک میں گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش و پرداخت کے لیے نہایت وسیع چراگائیں بنوائیں۔چراگاہ کے قریب چشمے تیار کروائے اسلام میں بحری جنگ اور بحری فوجی انتظامات کی ابتداء خاص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے ہوئی۔

نائب رسول اللہ کا اصل فرض مذہب کی خدمت ہے ۔اس فرض کو اچھے طریقے سے انجام دیا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اکثر خوف خدا سے آبدیدہ رہتے تھے۔ شرم وحیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا امتیازی وصف تھا۔فیاض تھے۔ مدینے میں سارے کنوا ئیں کھاری تھے صرف بیر رومہ جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا شریں تھا۔ رفاہ عامہ کے خیال سے اس کو بیس ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔

آپ کاتب وحی تھے۔ طرابلس،برقہ،افریقہ ،اسپین، قبرض،طبرستان ،آرمینیہ ، امرورود،طالقان،فاریاب ، افغانستان،خراسان، ترکستان، ایران، ،آزربائیجان ، جوزجان ا ور ایشیائے کوچک کا ایک وسیع خطہ اور شام وغیرہ ان کے دور میں مفتوح ہوئے ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تنگنائے قسطنطنیہ تک بڑھتے چلے گئے۔کابل سے مراکش تک کے علاقے حضرت عثمان کے دور حکومت میں شامل تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے تھے۔ اپنے رشتہ داروں کو اپنے پاس سے اور بیت المال سے مدد کرتے تھے۔ بعض وقت بیت المال سے قرض لے کر بھی رشتہ داروں کی مدد کی ۔کہا کرتے تھے میرے رشتہ دار اتنے زیادہ مال دار نہیں، اس لیے ان کی مدد کرتا ہوں۔ اور یہ صلہ رحمی ہے اور یہ قرآن کے مطابق ہے۔یہی بات بعض لوگوں کو پسند نہیں تھی اور آخر کار بلوائیوں نے انہیں شہید کر دیا۔

شہادت کے موقع پر چالیس دن تک بردباری ضبط اور تحمل کا اظہار کیا۔ ایک وسیع سلطنت کے حاکم اور جانثاروں کی فوج ہونے کے باوجود خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چند بلوائیوں کے خلاف خونریزی کی اجازت نہیں دی اورشہادت قبول کر لی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت کے زمانے میں فرماتے تھے جب میں خلیفہ نہیں بنا تھا تو میں عرب کا سب سے زیادہ اونٹوں بکریوں کامالک تھا۔

اب خلافت کے دوران میرے پاس ایک اونٹ حج کی سواری کے لیے اور ایک بکری ہے۔یہ ہیں مسلمانوں کے آئیڈئل حکمران ! کیا آج کل کے مسلمانوں حکمرانوں میں کوئی ایسا ہے؟ مسلمان حکمرانوں نے عوام کو لوٹنے کے علاوہ کوئی اور کام کیا ہے اسی لیے پاکستان اور اسلامی دنیا کے عوام مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست اور خلفاء راشدین کے دور کی حکومت کے آرزو مند ہیں۔ آئیں مسلمان ملکوں میں ایسی حکومتوں کے لیے کوشش کریں تاکہ ضروریات زندگی کی فروانی ہو، امن وامان ہو، کرپشن ختم ہو،دہشت گردی ختم ہو، انصاف ہو، عدل کا نظام ہو، انسانیت کی قدر ہو،بیرونی مداخلت ختم ہو تمام شہریوں کے لئے ترقی کے یکساں مواقعے ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :