
خزاں کے بعد!
ہفتہ 10 اکتوبر 2020

میر افسر امان
(جاری ہے)
شاعر، دانشور، ادیب مقتدرہ قومی ادارہ کے سابق سربراہ جنابِ افتخار عارف کہتے ہیں حلقہ ارب ذوق اسلام آباد کے حوالے سید مظہر سے شناسائی پندرہ بیس سالوں پر محیط ہے۔
جنابِ خاور اعجاز اسلام آباد جو مانے جانے شاعر ہیں۔ فرماتے ہیں کہ سید مظہر کی شاعری میں ہرے موسم،ہری تعبیر، اور ہرے سورج کے اشارے ہمارے تہذہبی ورثے کے نہایت نمایاں استعارے ہیں، جنھیں سید مظہر نے بڑی مہارت سے برتا ہے۔جنابِ منیر فیاض اسلام آبا دنے بھی سید مظہرکے اولین شعری مجموعہ کی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ ان کی پیشر غزلیں رومانوی روایت اوروالہانہ محبت کا پتہ دیتی ہیں۔سید مظہر خود فرماتے ہیں کہ میں نے خیال کی کیاری میں حرف کے پھول کھلا دیے ہیں ۔فضا مہکا دی ہے ۔میں اپنی کاوش قاری کے فیصلہ پر چھوڑتا ہوں وہی بہترین منصف ہے۔
صاحبو!بات یہ ہے کہ بہار اور خزاں کا جوڑ انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ہر سال بہار کے بعد خزاں آتی ہے۔ انسانوں پر بھی بہار اور خزاں کے دور گزرتے ہیں۔ نظر تو یہ ہی آتا ہے کہ انسان خزاں کی ہمیشہ شکایت ہی کرتا رہا ہے۔ مگر ایک شاعر”ہری چند اختر“ کہتے ہیں:۔
مرے چمن کی خزاں مطمئن رہے کہ یہاں
خدا کے فضل سے اندیشہ بہار نہیں
سید مظہر نے اپنی شاعری میں بہار اور خزاں کو ایسا جوڑا، کہ خزاں بھی بہار لکھنے لگتی ہے۔انسان نے شروع سے ہی نثر اور نظم کو اپنادھکڑا بیان کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ نثر میں تو انسان کو اپنے خیالات کا اظہارکرنے کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ مگر نظم میں قافیہ اور دریف کو ملانے کے لیے الفاظ کو کوزے میں بند کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ سید مظہر نے ان فن کو اپنی شعری میں بخوبی استعمال کیا ہے۔ یہ ان ہی کی فنکاری ہے۔ اپنے شعروں میں لفظ ”دیے “اور ”روشنی“ کا کثرت سے استعمال کرے کے اندھیروں میں رہنے والوں کو صاف صاف روشنی دکھا ئی ہے۔ ادب کے سنجیدہ حلقے جن میں راقم بھی شامل ہے۔ شاعروں سے ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں عورت ، اس کے جسم کے ہر حصے کو نمائیاں کرنے میں اشعار کے انبار لگا دیتے ہیں۔ پھر شباب ، شراب اور کباب کے اردگرد ہی گھومتے اور جھومتے رہتے ہیں۔ کیا اتنی بڑی کائنات میں صرف عورت ہی اللہ کا شاہکار ہے کہ شاعر حضرات ہر وقت مرزا غالب کی طرح کہیں:۔
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورجاناں کیے ہوئے
اس لیے صرف تصورجان کے ساتھ دنیا میں ہر طرف پھیلی اللہ تعالیٰ کی اتھا ہ گہرایوں والی کائنات میں ڈوب کرسراغ ِزندگی کو تلاش کرنا بھی تو ایک چیز ہے! اللہ تعالیٰ کی کائنات شاہکاروں سے بھری پڑی ہے صرف توازن کی ضرورت ہے۔ حساس شاعر فطرت کا ترجمان ہوتا ہے۔ فطرت کے شاہکاروں کو دیکھ کر اور اسے محسوس کر کے اپنے اپنے وقت کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی سوچ کو عوام تک منتقل کرتا ہے۔ ہم نے سید مظہر کے شعری مجموعہ”خزاں کے بعد“ کی سطر سطر کو گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس میں کہیں بھی عورت، شباب اور کباب کا ذکر نہیں ملا۔ بلکہ کتاب کے شروع میں رب کائنات کی تعریف کرتے ہوئے علم نافح کی دعامانگی گئی۔ فخر موجودات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف لکھ کر محبت کا اظہار کیا گیا۔کمال کی بات ہے کہ اس کے بعد جنت میں نوجوانوں کے سردار حضرت حسین ابن علی کی شان میں سلام پیش کر اہل بیت سے اظہار عقیدت بھی کیا گیا۔ اس کے بعد اپنی محبوبہ غزل کو جگہ دی۔ غزل کے معیار کو مذید بلند کیا۔ دو نظموں کو اس شعری مجموعہ میں شامل کر کے سید مظہر کی بالغ نظری کی مثال یہ ہے کہ مملکت ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان، مثل مدینہ ریاست، اور اس کی شہ رگ کشمیر اور کشمیر میں جاری تکمیل پاکستان کی جنگ آزادی کے دکھ درد کو بیان کر کے ہر محب وطن پاکستانی کے دل جیت لیے۔ نظر آتا ہے جدید شاعری کی دنیا میں سید مظہر کی تخلیقی شاعری خوب رنگ جمائے گی۔ سید مظہر کا ایک شاہکار شعر:۔
دَیر والو ایک دن نکلو گے خود کشمیر سے
جنتیں کب مل سکی ہیں ظلم کی تدبیر سے
راقم دور جدید کے اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے جو عصری مسائل کے حل کے لیے ڈالیوں ، گلیوں اور پکڈنڈیوں میں چلنے کے بجائے تنوں ،شاہراؤں اور میدانوں میں رہ کر مسائل حل کرنے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔مطلب جزیات کی بجائے مین اسٹریم کی بات کرتا ہے۔ ملک ِپاکستان کی ساری خرابیوں کی جڑ ہماری اللہ سے دوری ہے ۔ آہیے اپنے پیارے پاکستان میں حکومت الہیٰا، اسلامی نظام حکومت، نظام مصطفےٰ یا مدینے کی اسلامی ریاست نام کچھ بھی ہو اسے قائم کر رہیں۔ پھر ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ اس لیے ہم نے کتاب” خزاں کے بعد“ کے ایک ایک شعر کو منتخب کر کے تبصرہ کرنے کے بجائے پوری کتاب کو سامنے رکھ کر تبصرہ کیا ہے۔ سید مظہر کی شاعری کے مجموعہ” خزاں کے بعد“ کتاب میں عام طریقے سے ہٹ کرمنفرد ترتیب اور تخلیقی کاوش دیکھ کر ہم نے بے ساختہ اللہ کے حضور ہاتھ اُٹھائے اور دعا کی کہ اے رب ِعرض و سماں ۔ شاعرجناب ِسید مظہر مسعود کی شاعری اورعلم میں بے بہا اضافہ فرما۔آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.