شہید ملت نواب لیاقت علی خان رحمہ اللہ

جمعہ 16 اکتوبر 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

 پاکستان کے پہلے وزیر اعظم رحمہ اللہ ،شہیدِ ملت نواب لیاقت علی خان رحمہ اللہ بانیان ِپاکستان قائد اعظم رحمہ اللہ کے دست راس تھے۔ لیاقت علی خان رحمہ اللہ ریاست کرنال کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آباؤاجداد ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے تھے۔ وہ اپنے خاندان کو ایران کے عادل حکمران، نوشروان سے جوڑتے ہیں۔

وہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے شریک کار تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے جرنل سیکرٹیری تھے۔ پاکستان بننے سے کچھ پہلے ہندوستان کے وزیر خزانے تھے۔ ایک مثالی بجٹ پیش کر کے اپنوں اور پراؤں سے داد تحسین وصول کر چکے تھے۔ قائد اعظم رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر آفاقی دوقومی نظریہ کے تحت پاکستان حاصل کیا تھا۔

(جاری ہے)

قائد اعظم رحمہ اللہ ایک زیرک انسان تھے۔

وہ شروع دن سے سمجھ گئے تھے کہ انگریز کے برعظیم سے رخصت ہو جانے کے بعد ہندوؤں نے اکثریت کی بنیاد پرمسلمانوں کو دبا کر رکھنے کا پروگرام ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس طرح وہ مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم رحمہ اللہ نے یہ سازش اُس وقت بھانپ گئے تھے جب وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں آنے سے پہلے آل انڈیا کانگریس میں تھے۔


 اس سے قبل دو قومی نظریہ کو سرسید احمد خان، علامہ اقبال رحمہ اللہ اور دوسرے مسلم اقابرین سمجھ کر اس پر عمل پیرا تھے۔ ویسے بھی یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ہندو قوم تنگ نظر ہے۔ ان میں یہودیوں کے جراثیم کثرت سے داخل ہیں۔ یہ جراثیم یہودی و نسل آریاؤں سے ہندوؤں میں منتقل ہوئے تھے۔ یہ بات ہمیں بھی ایک واقعہ سے معلوم ہوئی ۔ ہم نے ایک مضمون اخبارات میں پڑھا۔

جو یوم پاکستان کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہوا تھا۔سعودی عرب کے پاکستانی سفارت خانے میں یوم پاکستان کی تقریبات میں ایک عربی تاریخ دان نے تقریر کے دوران حاضریں میں یہ انکشاف کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کر دی۔ مسلمانوں کے عروج کے دوران یہ عرب سیاح ہندوستان گیا تھا۔اس نے اپنے سفر نامہ میں یہ تحریر کیا ہے۔ ہند ومذہب کے معاملے میں سخت قسم کے متعصب ہیں۔

وہ کسی بھی دوسری قوم کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک وہ کسی قوم کے غلام نہ ہوں۔ جیسے اُس وقت ہندوستان پر مسلمان حکمران تھے۔ سیاح نے لکھا ہے ہندو دوسری قوم کواچھوت یعنی ناپاک سمجھتے ہیں۔ان کے کھانے پینے دوسروں سے الگ۔ رہنا سہنا الگ، تہذیب تمدن الگ، معاشرت الگ، مختصر یہ کہ وہ ہر معاملے میں دوسروں سے الگ تھلگ ہیں۔ عرب سیاح نے اپنے سفر نامے میں لکھا کہ ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو ہنددؤں سے الگ ہی ہونا ہے۔


صاحبو!ہندوؤں نے کو یہ ساری باتیں ، آریاؤں،جو خود یہودی النسل تھے سیکھائی ہیں۔ اس سے پہلے ہندوستان کے اصلی اور قدیم باشندے دراوڑ تھے، جو ایک بے ضرر قسم کی قوم تھی۔ آریا وسط ایشیا سے آکر ہندوستان پر قابض ہوئے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی قدیم آبادی دراوڑوں کی زمینیں چھین کر انہیں شودر بنا تھا ۔ ذات پات کا نظام قائم کرکے قدیم آبادی پر حکومت کرتے رہے۔

پھر عرب مسلمان موجودہکراچی سے ملتان تک کے علاقے پر قابض ہوئے۔مسلمانوں نے ہندوستان پر مجموعی طور پر عرب محمد بن قاسم رحمہ اللہ سے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک ہزار سال سے زیادہ حکومت کی ۔ اسلام امن و شانتی والا دین تھا۔ مسلم حکمرانوں نے ہنددؤں کو مذہبی آزادی دی ہوئی تھی۔ علمائے اسلام کی تبلیغ سے ہندوستان کے عوام دین اسلام میں جوق در جوق شامل ہوئے۔


اسی تاریخی حقیقت کو قائد اعظم رحمہ اللہ نے استعمال کیا ۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد ڈالی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے اس پر لبیک کہا اور دنیا میں اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی مثل مدینہ ریاست پاکستان وجود میں آئی۔ قائد اعظم رحمہ اللہ نے برعظیم کے مسلمانوں کو کلمہ” لا الہ الااللہ“ کے نام پر ا کٹھا کیا۔ پھر اللہ نے اپنی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسلمانان ِ بر عظیم کو ہندوؤں اورانگریزوں کی ریشہ دوانیوں کے باجود اس شرط کہ وہ اس نئی مملکت میں اللہ کے کلمے کو بلند کرتے ہوئے اسلامی نظام ِحکومت قائم کریں گے پاکستان کا تحفہ دیا۔

قائد اعظم نے اسلامی نظامِ حکومت کی بنیاد رکھنے کے لیے اپنی زندگی میں ہی” ریکنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹ “ ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ جس کو پاکستان میں انگریزوں کے نظامِ حکومت کو تبدیل کر کے اسلامی نظام ِحکومت قائم کرنا تھا۔اللہ نے قاعد اعظم رحمہ اللہ کو جلد اپنے پاس بلا لیا۔ یہ کام پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان رحمہ اللہ کے سر پر آ گیا۔

لیاقت علی خان رحمہ اللہ نے قرارادار پاکستان جو پاکستان کی بنیاد ہے کو آئین پاکستان کے دیباچے میں شامل کرکے اس کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت پاکستان کے آئین کو اسلامی بنانا تھا۔ اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔ لیاقت علی خان رحمہ اللہ قائد اعظم رحمہ اللہ کی طرح پاکستان میں اسلامی نظام ِحکومت قائم کرنے میں مخلص تھا۔ مگر پاکستان میں اسلام دشمن کیمونسٹ کی طاقت ور لابی کے اہل کاروں نے لیاقت علی خان رحمہ اللہ کو راستے رے ہٹاتے ہوئے راولپنڈی لیاقت باغ میں جلسے کے دوران فائر کر کے شہید کر دیا۔


لیاقت علی خان ریاست کرنال کے نواب تھے۔ چاہتے تو کلیم داخل کر اپنے لیے شاندار رہائیش بنا سکتے تھے۔ مگر پاکستان میں لٹے پٹے ہجرت کر کے آنے والوں قافلوں کے گھروں کے انتظامات میں لگئے رہے ۔ اپنے گھر کے لیے کوئی بھی کلیم داخل نہیں کیا۔ جب شہید ِ نواب ملت لیاقت علی خان رحمہ اللہ کو غسل دینے کے لیے کپڑے اُتارے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک ریاست کے نواب کی بنیان تک پھٹی ہوئی ہے۔

ان کے بعد سکندر مرزا اور ایوب خان کی ملی بھگت سے پاکستان کو اسلام سے دور کر دیا گیا۔ ڈکٹیٹر نے اپنے آقاؤں کے کہنے پر سب سے پہلے مسلمانوں کے عالی قانون کو تبدیل کیا۔
 مسلمان قوم جب اسلام پر قائم تھی تو ساری دنیا کے ہزاروں تہذیبوں، تمدنوں،ثقافتوں اور زبانوں پر کو یک جان رکھ کر ہزاروں سال حکومت کرتے رہے۔لیکن لیاقت علی خان رحمہ اللہ کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے ایک بنگالی قوم کے مسلمان بھائیوں کو مطمئن نہ ر کھ سکے۔

غدارِپاکستان اور اگر تلہ سازش کے سرغنہ شیخ مجیب نے بنگالی قومیت اور حقوق کے نام پر بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے ۔ ایک اسلامی ریاست مثل مدینہ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی پادائش میں، تاریخ نے شیخ مجیب کو اُٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ بنگلہ دیش کی اسلام پسند فوج کے ایک دستے نے سارے خاندان کو ختم کر دیا۔ اے کاش !کہ قائد اعظم رحمہ اللہ اور لیاقت علی خان رحمہ اللہ کچھ مدت اورزندہ رہتے تو آج پاکستان دنیا کی قوموں میں ایک منفرد حیثیت کا مالک ہو تا۔ اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :