جس زمین پر

منگل 14 اگست 2018

Mohammad Ali Raza

محمد علی رضا

الیکشن کا قصہ تمام ہوا، الزام و دشنام کی آندھی کچھ تھم سی گئی ، ہار جیت کا فیصلہ ہو چکا، فاتح کی شہنائیاں اورمفتوح کے نوحوں کا شور بھی مدھم ہوا۔ منشوروں کی رونمائی کا دوردورہ اختتام کو پہنچا،حکومت سازی کے معاملات طے ہوئے ، فاتح 'پیش قدمی کرتے ہوئے صاحبان اقتدار ہوئے۔ وعدے، سنہرے خواب ، شعلہ بیانیاں ، بذلہ سنجیاں اور سیاسی دعوؤں کا طوفان بھی تھم سا گیا۔

یہ منصب اقتدار ،یہ جاہ و جلال، ارباب اختیار و اقتدار کو مبارک!  آئیں انتخابی مہم کے لیے برپا، سنہرے خوابوں کی دنیا سے نکل کر، زمینی حقائق کی تلخ سطح پر قدم رنجا فرمائیں۔ حقائق کو پرکھیں اور حقیقت کی تلخ نوائی کو لب بام کریں۔
آزادی سے لے کر آج تک یہ چناؤ ، بلند و بانگ نعرے، سنہرے خواب، اور سبز باغ دکھائے جاتے رہے۔

(جاری ہے)

حکومتیں آتی رہیں ، جاتی رہیں، مارشل لاء آئے، گزر گئے، صاحبان اقتدار آئے، منصب اقتدار کا منصب سنبھالا، اقتدار کے پنچھی کے ساتھ اڑتے رہے اور بالآخر سب منظر سے غائب ہوتے گئے، لیکن اگر نہیں بدلی تو مملکتِ خداداد کی عوام کی حالت نہیں بدلی، نہیں بدلا تو  یہ بدبودار گنداسڑا نظام نہیں بدلا۔

نہیں بدلے تو عوام کے صبح و شام نہیں بدلے،نہیں ختم ہوئی تو یہ بلکتی اور سسکتی عوا کی آہیں ختم نہیں ہوئیں۔ نہ ان کی محرومی کم ہوئی اور نہ زندگی کی تلخیاں کم ہوئیں ۔
یہ کل بھی غربت ، محرومی ، بیماری ، لاچاری اور بے کسی سے مر رہے تھے اور آج بھی بدحالی ان کے چہروں پہ عیاں ہے ۔ رہے چند چہرے، جی ہاں ! بس اشرافیہ کے بہروپیے ، نام بدل بدل کر، پارٹیاں بدل بدل کر، نعرے بدل بدل کر، طریقے بدل بدل کر، عوام کےنام پر، عوام کی طاقت سے ، عوام کی قربانیوں سے، اقتدار کے محلات پر قابض  ہوتے رہے اور عوام کے خون کو ہی نچوڑ نچوڑ کر،گوشت کو نوچ نوچ    کر ،اندرون و بیرورن ممالک اپنے خزاتے بھرتے رہے، ان کے محلات  و آستانوں میں پیدا ہونے والا ہر بچہ بھی اربوں روپے کا مالک اور سونے کا چمچ ، چاندی کا "فیڈر" لے کر پیدا ہوتا ہے  اورغریب   عوام کا بچہ پیدا ہوتے ہی لاکھوں کا مقروض ہوتا ہے۔

   غربت  کی چکی میں پسی ہوئی ،یہ مفلوک الحال قوم1, 7 سال سے  پانی تک کے لیے  بلک رہی ہے اور زندہ رہنے کے لیے، اپنی بھوک مٹانے کے لیے ، اپنے جسم کے اعضا بیچنے پر مجبور ہے۔
آپ اس قوم کا المیہ تو دیکھیے! اشرافیہ اگر ملک کو دیوالیہ کر کے ریاستی معیشت کا خون نچوڑنے کے جرم کی پاداش میں، اگر جیل یاترا بھی کر لےتو ان کے لیے جیل میں مرتبے اور سٹینڈر کے رونے  ہیں، کہ کہیں عام ریاستی باشندے ان کے اجلے اجلے جسموں سے، مَس نہ ہو جائیں یا ان کی خواب گاہوں میں کوئی خلل نہ پڑ جائے اور دوسری طرف ان محروم ،عام انسانوں کے ،انبار در انبار ، بغیر کسی جرم کے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سک سک کر ، دما دم صدائے، " انا انسان" ، " انا انسان" لگا رہے لیں ، لیکن سننے والا کوئی نہیں ۔


غربت اور محرومی سے ماری عوام کو اس سے کیا غرض، کہ سیاسی گھوڑے کا خریدار کون ہے؟ اور ان کو خرید کر ان کو چرانے والا کون ہے؟۔ کون وزارت لیتا ہےاور کون مشیرِ خاص ہوتا ہے ۔ غربت میں پسی عوام  ،  71  سالوں سے یہ چناؤ کی چالبازیاں، یہ سیاسی دغا بازیاں دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکی ہے۔ تجربہ کار، نیم تجربہ کار، نئے پرانے، عسکری اور  نوکر شاہی بابوؤں کو آزما کر،ان کی عیاریوں سے زخم کھا کر ،تنگدستی اور غربت کی سلوں کے نیچے آخری ہچکیاں لیے ہوئے اس بار ایک ایسے کھلاڑی پہ جانثار ہو رہی ہے ،جس نے اب    کی  بار پھر،اس عوام کی ڈھارس بندھائی ہے۔

جس نے پھر ایک امید کا دیا جلایا ہے، جس نے ایک باراور خواب دکھایا ہے، جس نے ایک  بارپھر ان کے حالات بدلنے کا وعدہ کیا ہے ۔
اب عوا م نے تو اپنا حق اپنے نئے مسیحا کے لیے اد کر دیا ۔ اب آپ کا اعلیٰ منصب آپ کو مبارک!  اب عوام آپ کی دستِ مسیحائی کی منتظر ہے، حضور والا! خواب تو نئے پاکستان کے دکھا دیے، اب ان پرانے پاکستان کے اصل باسیوں کو ، ان خوابوں کی تعبیر بھی دکھائیے۔

انہیں اجلا اجلا نیا پاکستان دکھائیے اور یاد رکھیے اس بار آپ کے محکوموں میں شعور کی لہر بھی جاگ اٹھی ہے ، اب کی بار آپ بھی اگر ،اپنے پیش روؤں کی طرح مصلحتوں کا شکار ہوئے، منصب اقتدار کی رنگ رلیوں میں گم ہوئے، اور ایک بار پھر مفاد پرست اشرافیہ کو اپنے اقتدار کا دستِ راست بنا کر عوامی مسائل سے پشت پناہی کی، تو یاد رکھیے گا ، اب  عوامی پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ، اس بار بھی اگر عوامی مفاد پر پھر ڈھاکہ پڑا تو پھر شاید یہ تمام سیاسی کھلاڑی اور ایمپائر تو موجود ہوں لیکن ان کا سیاسی گروانڈ ، ملیا میٹ ہو گیا ہو۔
بقول منیر نیازی:
ملتی نہیں پناہ، ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمین پر اٹھا دیناچاہیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :