مدینہ مسجد کراچی اور سپریم کورٹ‎‎

جمعرات 6 جنوری 2022

Mohammad Bashir

محمد بشیر

سپریم کورٹ نےطارق روڈ پر چالیس سال سے قائم مدینہ مسجد کو ایک ہفتے کے اندر گرانے کا حکم جاری کیا ہے. کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد پارک کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی. نسلہ ٹاور کو گرانے کے حکم پر پہلے ہی کراچی کے شہریوں میں غم و غصے پایا جاتا تھا. اب علماءکرام  بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں.
 مفتی تقی عثمانی نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے.

کیوں کہ طارق روڈ کے وسیع و عریض علاقے میں صرف یہی ایک مسجد موجود ہے. اگر اس مسجد کو عدالتی حکم پر گرا دیا جاتا ہے. تو اس صورت میں نمازیوں کو اپنے فرائض کی بجاآوری میں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. مفتی تقی عثمانی کا مزید فرمانا تھا مسجد کی پچھلی طرف ایک پارک بھی موجود ہے. انہوں نے اس بات کی نشان دہی بھی کی ہے کہ حکومت نے ماضی میں ایک بھی مسجد تعمیر نہیں کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.

البتہ سرکاری طور پر اسلام آباد میں ایک عالی شان گوردوارہ تعمیر کیا گیا ہے.
مفتی صاحب نے تمام مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ ساتھ تمام شہریوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس نازک مسئلے پر اپنی آواز بلند کریں. تاکہ علاقے کی واحد مسجد کو انہدام سے بچایا جاسکے.
جہاں تک گوردوارہ اور مندر تعمیر کرنے کا تعلق ہے. دراصل حکومت  مغرب کو خوش کرنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے.

تاکہ پاکستان کا مثبت اور لبرل چہرہ دنیا کو دکھایا جا سکے. جہاں تک مسجد کو گرا کر پارک بنانے کا تعلق ہے کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے. کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروع ہوں گے. بس قانون کی عملداری قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.
خبروں کے مطابق مدینہ مسجد کو تمام سرکاری ضابطوں کی تکمیل کے بعد تعمیر کیا گیا تھا. اور اتنی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی کسی فورم سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا.

لہذا اب سپریم کورٹ کی طرف سے اس قسم کا فیصلہ حیران کن بھی ہے اور باعث تشویش بھی. کھیل کود اور تفریح کے لیے کراچی میں بےشمار جگہیں موجود ہیں. شہری آسانی سے وہاں کا رخ کر سکتے ہیں. مگر مساجد تو کہیں کہیں موجود ہیں.
چند ماہ سے سپریم کورٹ نے کراچی میں قائم  ناجائز تجاوزات کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے. اسی سلسلے میں نسلہ ٹاور کے علاوہ دو تین دیگر پلازے بھی مہندم کرنے کے فیصلے دیے جاچکے ہیں.

مگر میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر براجمان صحافی حضرات نسلہ ٹاور کراچی اور گرینڈ حیات ٹاور اسلام آباد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دو متضاد فیصلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں.
ماضی میں میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے گرینڈ حیات ٹاور کیس کی سماعت کرتے ہوئے اس عالی شان عمارت کی غیرقانونی تعمیر کو جرمانے کے عوض جائز قرار دینے کا حکم جاری کیا تھا.

اس ٹاور کی زمین ہوٹل کی تعمیر کے لیے لیز پر حاصل کی گئی تھی. مگر اس پر رہائشی فلیٹ بنا دیے گئے. جس کی وجہ سے سی ڈی اے نے گرینڈ حیات کی لیز منسوخ کردی تھی. اس نازک موقع پر میاں ثاقب نثار خریداروں کی مدد کو آئے. اور گرینڈ حیات کو گرانے کا فیصلہ  منسوخ کردیا. جناب چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا تھا. "خریداروں کے حقوق کا تحفظ کون کرے گا".

جب سی ڈی اے کے وکیل نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا. گرینڈ حیات نیشنل پارک کی زمین پر قائم ہے. جس پر میاں ثاقب نثار نے فرمایا. کیا اسے گرادیا جائے. اس طرح تو سپریم کورٹ کی عمارت کے ساتھ دیگر سرکاری عمارتیں بھی نیشنل پارک کی زمین پر بنی ہوئی ہیں. کیا ان سب کو گرا دیا جائے.
یاد رہے گرینڈ حیات ٹاور میں وزیراعظم عمران خان  کے علاوہ سابق چیف جسٹس صاحبان, سابق جنرلز اور دیگر اعلئ سرکاری اور غیر سرکاری شخصیات کے فلیٹس ہیں.
اگر نسلہ ٹاور, ہجویری ہائٹس اور دیگر پلازوں میں عسکری حکام اور تگڑی حکومتی شخصیات کے فلیٹ ہوتے تو یہ بلڈنگز بھی مہندم ہونے سے بچ سکتی تھیں.


ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح گرینڈ حیات ٹاور اسلام آباد جو نیشنل پارک کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے. اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف سے مدینہ مسجد کو بھی ریلیف فراہم کیا جاتا. اب بھی اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ایک طرف مسلمانوں کے جذبات مجروع ہونے کا اندیشہ ہے. اور دوسری طرف اگر مسجد کو مہندم کرکے پارک بن بھی جاتا ہے تو کیا مسلمان اس جگہ کو ایک تفریح گاہ  کے طور پر قبول کرلیں گے.

یہ بڑا اہم سوال ہے. جس کا جواب بحرحال کسی کے پاس نہیں ہے.
پاکستان بھر میں زیادہ تر مساجد مسلمانوں نے چندہ اکٹھا کرکے بناہیں ہیں. صرف چند مساجد سرکاری پلاٹس پر تعمیر کی گئی ہیں. اسلام آباد کی فیصل مسجد برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی فنڈنگ سے تیار ہوئی تھی. جب کہ مسجد کے لیے زمیں حکومت پاکستان نے فراہم کی تھی. اسی طرح مدینہ مسجد کراچی بھی سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی تھی.

اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو حکومت سندھ کا ذیلی ادارہ ہے. اس کی طرف سے مدینہ مسجد کو این او سی جاری کیا گیا تھا. لہذا اس مسجد کو دستیاب قوانین اور دیگر مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ واپس ہونا چاہئے.
یہ بات بھی دلچسی سے خالی نہیں ہے کہ بعض ججز اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ دنوں یا ہفتوں پہلے اس طرح کے فیصلے دیتے آرہے ہیں.

جو قانونی تقاضوں کو تو پورا کرتے ہیں. مگر وسیع تر عوامی مفاد کے زمرے میں نہیں آتے. جسٹس مشیر عالم نے بھی اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل سولہ ہزار سرکاری ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ جاری کیا تھا. جس کے خلاف ہزاروں خاندانوں نے اسلام آباد میں دھرنا دے دیا تھا. سپریم کورٹ نے بالآخر اپنے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے متاثرہ ملازمین بحال کردیئے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :