حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں‎‎

پیر 3 جنوری 2022

Mohammad Bashir

محمد بشیر

ملک کے غیر یقینی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اشرافیہ میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے. کہ یہ ملک اب  رہنے کے قابل نہیں رہا. لہذا ان کو بیرون ملک رہائش اختیار کر لینی چاہئے. ایک وفاقی وزیر نے بھی اپنے ساتھیوں کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا تھا. کہ اب ان کے بچوں کو ملک چھوڑ کر اپنا مستقبل محفوظ بنا لینا چاہئے. کیا ملک دیوالیہ ہوچکا.

ایلیٹ کلاس کو اس بات کی شائد سن گن ہوچکی ہے. اسی خطرے کے پیش نظر ملک چھوڑنے کی باتیں کی جا رہی ہیں.سابق چئرمین ایف بی آر شبر زیدی جو معیشت کے بارے میں ایک عام آدمی کی نسبت بہتر ادراک رکھتے ہیں, نجی چینلز پر اپنے تجزیوں میں ملک کی خطرناک معاشی صورتحال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں.

(جاری ہے)


دوسری طرف حکومتی سطح پر گمراہ کن اعداد و شمار کے ذریعے عام آدمی کو طفل تسلیاں دی جارہی ہیں.

تبدیلی انقلاب کو برپا ہوئے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے. مگر ملک آگے بڑھنے کے بجائے پستی کی طرف جارہا ہے. حکمران پہلے سے پسے ہوئے طبقے پر ٹیکس لگا کر ان کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ دینا چاہتے ہیں. درحقیقت عمران خان سے ملک چل ہی نہیں رہا. کیوں کہ ان کے اندر قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے. اس کے علاوہ  اشرافیہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے میں بھی دلچسپی نہیں لے رہی.

لہذا وزارت خزانہ میں براجمان معاشی امور کے کرتا دھرتا یہ سوچنے میں مگن رہتے ہیں کہ اب کس شعبے پر ٹیکس لگا کر پیسے جمع کیے جاہیں تاکہ حکومت کے شاہانہ اخراجات پورے ہو سکیں. موجودہ حکومت نے تین سالوں کے دوران ریکارڈ قرضہ حاصل کیا ہے. بدقسمتی سے مگر ریاست مدینہ کے سنہری اصولوں کے مطابق سادگی اختیار کرنے سے اجتناب برتا جارہا ہے. مہنگی گاڑیوں کی خریداری ہو,  دفاتر اور رہائش گاہوں کی شاہانہ آرائش ہو یا وزراء اور مشیران کے غیرملکی دورے.ملکی خزانے کو بےدردی سے لٹایا جارہا ہے.

دراصل حکومت میں شامل وڈیرے, جاگیردار اور سیٹھ لوگوں کو سادگی سے چڑ ہے. کیوں کہ اس طرح ان کی ناک اور شملہ اونچے نہیں رہتے.
2022 کا سال پاکستان کے نچلے طبقے پر پہاڑ بن کر گرا ہے. کیوں کہ ایک طرف منی بجٹ کے ذریعے اربوں روپے کے مزید ٹیکس لگا دیے گئے ہیں. اور دوسری طرف پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر پٹرول بم گرادیا گیا ہے.اس مہینے کے بجلی کے بل بھی عام آدمی کے لیے اچھی خبر لے کر نہیں آئے.
 اس نازک صورت حال میں مڈل کلاس اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے کس سے فریاد کریں.

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک  سے بننے والی عمران خان کی کمزور حکومت بدترین پرفارمنس کے باوجود بھی  کامیابی سے چل رہی ہے. طاقتور قوتوں نے ایسا بندوبست کررکھا ہے.کہ اپوزیشن بھی موجودہ حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی. پارلیمان نامعلوم فون کالوں کی مدد سے غیر جمہوری قوانین پاس کرتی جارہی ہے. اور بھاری بھرکم اپوزیشن منہ دیکھ رہی ہے.

اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے اسمبلیوں میں ہنگامہ کردیا یا بینر لہرا دیے. اس کے علاوہ اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں سے کسی اچھائی کی امید باقی نہیں رہی.
سو دن  سے بات چلی اور پھر ایک سال کے اندر معیشت کی بہتری اور عوام کو ریلیف دینے تک پہنچی. بدقسمتی سے سوا تین سال گزرنے کے باوجود بھی پرنالہ وہیں کا وہیں ہے. اب تو بات بہت آگے جاچکی ہے. صرف عام آدمی کے سانسوں پر ٹیکس لگانا باقی رہ گیا ہے.

باقی کچھ ایسی چیز باقی نہیں بچی. جو عوام کی قوت خرید سے باہر نہ کر دی گئی ہو. 2018 میں جب عمرانی انقلاب نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی تھی. اس وقت فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کی مقبول ترین شخصیت نے میڈیا کو کہا تھا. صرف چھ ماہ تک حکومت کے مثبت اقدامات کو دکھایا جائے. اور منفی چیزوں سے چشم پوشی اختیار کی جائے. اس کے بعد ملک ٹریک پر چڑھ جائے گا.
جنرل صاحب شائد اس غلط فہمی کا شکار تھے.

کہ کرکٹ ورلڈکپ جیتنے والا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا. مگر سارے دعوے, وعدے, پیشن گوہیاں اور پلان دھرے کے دھرے رہ چکے. اسٹیبلشمنٹ کا گھوڑا بری طرح پٹ چکا ہے. طاقتور حلقوں نے سوچا ہوگا. ورلڈکپ کا فاتح کپتان فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دے گا. بدقسمتی سے مگر ان کی امیدوں کا چراغ روشن نہ ہوسکا. پاکستان کی معیشت کو اب آئی ایم ایف کے ملازم چلا رہے ہیں.

سٹیٹ بنک کو بھی عالمی مالیاتی ادارے کی گود میں ڈال دیا گیا ہے. یہ سب کچھ اپنے آپ کو فائٹر کہنے والے وزیراعظم کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے. وہ بیچارہ کر بھی کیا سکتا ہے. اس کو تو حکومت چلانے کی سمجھ بوجھ ہی نہیں ہے. کپتان کو ملک پر مسلط کرنے والے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے میں مصروف ہیں. اس کو ہٹایا بھی تو نہیں جاسکتا. کیوں کہ کپتان کی جگہ لینے کے لیے زرداری صاحب اور نوازشریف جیسےگھاک سیاستدان بیٹھے ہوئے ہیں.

جن کے سامنے طاقتور حلقوں کی کوئی پیش نہیں چلنے والی. یہ تو آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا والی بات ہوجائے گی. اب ان کے پاس بڑے محدود آپشن ہیں. کیوں کہ انہوں نے ملک کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ بھی بچانی ہے.
لیکن موجودہ قیامت خیز مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام کی جان سولی پر بری طرح اٹک چکی ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :