مری کا سانحہ‎‎

منگل 11 جنوری 2022

Mohammad Bashir

محمد بشیر

قوموں کو وقتا´ فوقتا´ ناگہانی آفات اور حادثات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے. زلزلے ہوں ,سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا ٹرین کے حادثات, اس نوعیت کے سانحےحکومت وقت کے لیے ٹسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں. اور متعلقہ اداروں کی اہلیت کا اندازہ ہنگامی صورت حال میں ہی لگتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں. اگر حکومت ناگہانی آفات کو احسن انداز سے ہینڈل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ اس کی اچھی گورنس کی عکاسی کرتا ہے.


محکمہ موسمیات موسم  کے بارے میں پیشگی الرٹ جاری کرنے کا مجاز ادارہ ہے. اس کے بعد کی ذمہ داری متعلقہ حکام, اداروں اور وزارتوں پر عائد ہوتی ہے.

(جاری ہے)

کہ بارشوں اور برف باری کا الرٹ جاری ہوتے ہی حفاظتی اقدامات کرلیے جاہیں تاکہ عوام کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے. این ڈی ایم اے قدرتی آفات کے بعد بحالی کے اقدامات اٹھاتا ہے.
محکمہ موسمیات کی طرف سے مری اور اس کےگرد و نواح میں بارشوں اور شدید برف باری کی پیشن گوئی قبل از وقت کردی گٹی تھی.

بدقسمتی سے مگر وفاقی اور صوبائی انتظامیہ  نے کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہ کیے اور وہ خواب غفلت کی نیند سوتی رہی. جس کے نتیجے میں دو درجن سے زائد بدقسمت افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. معصوم بچے اور خواتین بھی جان بحق ہونے والوں میں شامل تھے. کہا جاتا ہے کہ مری میں تقریبا تیس ہزار کے قریب گاڑیوں کی پارکنگ کے انتظامات ہیں. مگر سانحے والے دن 75 ہزار سے زیادہ گاڑیاں مری میں داخل ہوہیں.

کثیر تعداد میں گاڑیوں کے مری کی طرف رخ کرتے ہی ٹریفک جام ہوگئی. اس کے ساتھ ہی برف باری کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہوگیا.
جس کی وجہ سے گاڑیاں برف میں پھنس کر رہ گہیں. اور گاڑیوں میں سوار مسافر محصور ہوکر رہ گئے.
وفاقی وزیر فواد چوہدری ایک دن پہلے ہی بڑی تعداد میں شہریوں کے مری جانے پر خوشیاں منا رہے تھے. انہوں نے اس کو معیشت کی بہتری سے تشبیہ دی تھی.

اطلاعات کا وزیر ہونے کے ناطے ان کا فرض منصبی تھا کہ وہ تمام متعلقہ محکموں کو موسم کی سنگینی سے باخبر رکھتے. مگر وہ اپنے بے تکے بیانات کی حد تک ہی محدود رہے. وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی بارشوں کے طویل سپیل کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہو رہی تھیں. مگر انہوں نے بھی اس معاملے میں فعال کردار ادا نہیں کیا.  
جمعہ والے دن جب سینکڑوں شہری مری کے قرب و جوار میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے.

صوبہ پنجاب کا حاکم پارٹی کی تنظیم سازی کے سلسلے میں ایک اجلاس کی صدارت کررہا تھا. خبروں کے مطابق یہ بیٹھک ڈھائی گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سینکڑوں محکموں اور ہزاروں کی تعداد میں حکام اور اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود عثمان بزدار سانحے سے کیسے بے خبر رہے. اگر موصوف کو اس بات کا علم تھا. تو ان کی طرف سے انتہاہی درجے کی سنگدلی اور بےحسی کا مظاہرہ کیا گیا.

انہوں نے مجاز اتھارٹیز کو  فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت نہ کرکے بڑی غفلت کا مظاہرہ کیا.  سابق وزیراعظم شائد خاقان عباسی ایک پریس ٹاک  میں کہہ رہے تھے. اربوں روپے کی مشینری جو برف ہٹانے اور مسافروں کو ریسکیو کرنے کے لیے مری میں موجود تھی. اس کو کیوں نہیں استعمال کیا گیا.
جناب عثمان بزدار وزیراعظم کے فیورٹ چیف منسٹر ہیں. ان کو اس عہدے سے ہٹانے کے لیے ہر طرف سے آوازیں بلند ہوہیں.

آرمی چیف  بھی عثمان بزدار کی کارکردگی سے غیر مطمہن تھے. جنرل صاحب نے بارہا  ان کی تبدیلی کے لیے وزیراعظم کو کہا. مگر عمران خان ڈٹ گئے اور  ہمیشہ اپنا ووٹ عثمان بزدار کے پلڑے میں ڈالتے رہے. سانحہ مری کے بعد ایک بار پھر وزیراعلی پنجاب کی تبدیلی کی افواہیں پھیلنی شروع ہوچکی ہیں.
جیسا کہ محکمہ موسمیات کی طرف سے ہیوی سنوفال کا الرٹ جاری کردیا گیا تھا.

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا بنیادی فرض تھا کہ وہ صورت حال کا جائزہ لیتے اور اسلام آباد پولیس کے ذریعے گاڑیوں کو مری داخل ہونے سے روک دیا جاتا. ان کا کام شہریوں کی جان اور مال کا تحفظ ہے. شیخ صاحب کو وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے ایک پیج پر ہونے کے بیانات دینے کے لیے وزیر نہیں بنایا گیا. اور نہ ہی ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوازشریف کو واپسی کا ٹکٹ آفر کرتے پھریں.

انہیں سیاست میں پھلجڑیاں چھوڑنے اور نجومی کی طرح پیشن گوئیاں کرنے کے بجائے اپنی وزارت کی طرف توجہ دینی چاہئے. ان کے محکمے کا ایک اہلکار اپنے معصوم بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتے مانگتے دنیا سے رخصت ہوگیا. لیکن ایک ایٹمی ریاست کا وزیر داخلہ اس بدقسمت فیملی کی جان بچانے میں ناکام رہا.  بدقسمتی سے شائد شیخ صاحب سبز قدم بھی ہیں. جس وزارت میں بھی جاتے ہیں.

حادثات اور ناگہانی آفات وہاں کا رخ کرنے لگ جاتی ہیں. موصوف جب ریلوے کی وزارت کے انچارج تھے. تو آئے دن ریل کے حادثات ہوتے رہے. ان کے دور میں ریل کے ریکارڈ حادثات ہوئے اور سینکڑوں  مسافر جان سے گئے.
جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے. وہ بےشمار دوسرے وعدوں کے علاوہ کرپشن کو ختم کرنے کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آئے. انہوں نے بے گھر افراد کے لیے لاکھوں مکانات اور نوجوانوں کو کروڑ نوکریاں دینے کا جھانسہ دے کر اپنے ساتھ ملایا.

مگر وزیراعظم بننے کے بعد نوکریوں اور مکانات کو ایک طرف رکھ کر خان صاحب نے صرف کرپشن ختم کرنے کا مشن سنبھال لیا. نیب نے ان کی منشا کے مطابق بے شمار اپوزیشن راہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی. ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے کئی قدآور لیڈروں کو مہینوں سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا. مگر ڈھاک کے وہی تین پات سب نے ضمانتیں کرالیں. نہ لوٹی ہوئی رقم  ریکور ہوئی اور نہ کسی ملزم کو کو سزا ملی.

اب محترم وزیراعظم کرپٹ عناصر کو سزا نہ ہونے اور لوٹی ہوئی رقم کی عدم واپسی کو جمہوری نظام کی خرابی سے جوڑ رہے ہیں. اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا ہے . صرف چین جیسے سسٹم کے تحت ہی کرپٹ عناصر  کو سزا دی جا سکتی ہے. وزیراعظم شائد اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کو ہی کرپٹ سمجھتے ہیں. اپنی پارٹی اور کابینہ کے اراکین جن پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں.

ان کو دودھ کے دھلے سمجھ رہے ہیں. اس دوغلی پالیسی کی سمجھ نہیںِ آرہی.
اگر وزیراعظم کرپشن ختم کرنے کے مشن کے ساتھ ساتھ  گورنس کو بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا. انہوں نے اپنی کابینہ میں ساٹھ کے قریب افراد بھر رکھے ہیں. لیکن اگر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھاری بھر کم کابینہ کی موجودگی کے باوجود حکومت کی پرفارمنس مایوسی کی حد تک خراب ہے.

وزرا اور معاونین کی کارکردگی ماپنے کا کوئی پیمانہ ہی مقرر نہیں کیا گیا.
 ماضی کی حکومتوں میں سہ ماہی بنیادوں پر وزارتوں اور محکموں کی پراگرس مانیٹر کی جاتی تھی.  اجلاس تو اب بھی ہوتے ہیں لیکن ان میں نوازشریف کی واپسی, آصف زرداری اور شہبازشریف کے کیسز پر بات ہوتی ہے. وزرا اور ترجمانوں کو اپوزیشن کو کھینچ کر رکھنے کے احکامات دیے جاتے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :