اپوزیشن کی سیاست اور بیچاری عوام‎‎

منگل 14 دسمبر 2021

Mohammad Bashir

محمد بشیر

حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم نے ایک سال کی اٹھک بیٹھک کے بعد بالآخر لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے. مگر 23 مارچ 2022 کی تاریخ جو مارچ کے لیے طے کی گئی ہے. وہ بڑی دلچسپ اور معنی خیز ہے. کیوں کہ اس دن اسلام آباد میں مسلح افواج کی پریڈ ہونے جارہی ہے. جس کی وجہ سے حسب روایت اسلام آباد کو جانے والے تمام راستے بند کر دیے جاہیں گے.

لہذا نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی کے مصداق لانگ مارچ کے قافلے اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاہیں گے.
 درحقیقت مسلم لیگ نواز مزاحمت اور مارچ کرنے والی جماعت تھی ہی نہیں . یقین نہ آئے تو اس کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کر لیں.

(جاری ہے)

وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کی شہرت رکھنے والی یہ جماعت اقتدار کی بساط بچھانے والوں کو رام کرنے میں دلچسپی لیتی آئی ہے.

ماضی میں جب نوازشریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لندن سے لاہور پہنچے تھے. تب ان کے چھوٹے بھائی شہبازشریف نے اپنے کارکنوں پر مشتمل جلوس کا رخ ائر پورٹ کے بجائے کسی اور جانب موڑ دیا تھا. تاکہ ان کی طرف سے محاذ آرائی کا تاثر پیدا نہ ہو اور کہیں "کسی" کی نازک جبیں پر شکنیں نمودار نہ ہوجاہیں. اس کے علاوہ نوازشریف کا نیب کی قید سے لندن پہنچ جانا بھی ڈیل کے تاثر کو تقویت پہنچاتا ہے.

اسی لیے چھوٹے میاں اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنے لیے حصہ چاہتے ہیں. نوازشریف اور ان کی صاحبزادی نے بھی چپ کا روزہ رکھ کر شہباز شریف کو فری ہینڈ دے دیا ہے. تاکہ وہ مقتدر قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا ڈول ڈال سکیں.
 اسٹیبلشمنٹ نے شہبازشریف کو 2018 میں وزیراعظم بنانے کی ٹھوس یقین دہانی کرائی تھی.

ن لیگ کی طرف سے وزیراعظم اور وزرا کے امیدواروں نے شیروانیاں بھی سلوا لی تھیں. مگر عین وقت پر ان سے ہاتھ کردیا گیا. دوسری بار نوازشریف کی معزولی کے بعد ان کی جگہ شائد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا کر ایک بار پھر ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا تھا. اب وہ کسی قیمت پر بھی وزیراعظم کے منصب کو کھونا نہیں چاہتے. جو کئی دفعہ ان کو چھو کر کسی اور کی جھولی میں جا گرا تھا.
 دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت نے بھی پی ڈی ایم کی طرف سے تقریبا´ ساڑھے تین ماہ کے بعد تحریک چلانے کے فیصلے پر سکھ کا سانس لیا ہے.

اگر اس عرصے کے دوران حکومت مہنگائی کے عفریت پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہوجاتی ہے. تو اس صورت میں لانگ مارچ کو عوامی پزیرائی ملنی مشکل ہوجائے گی.
اصل میں پاکستانیوں نے بھی اپوزیشن جماعتوں سے کوئی خاص امیدیں وابستہ نہیں کر رکھیں. جو عوام کی سیاست کرنے کے بجائے کسی غیبی امداد کی منتظر ہوں. اور ان کی سیاست مختلف بیانیوں کے ارد گرد بھی گھوم رہی ہو.

پی ڈی ایم جو پیپلز پارٹی کے نکلنے کے بعد پہلے ہی نزع کے عالم میں تھا. اب اتحاد کی واحد بڑی جماعت ن لیگ کے رحم و کرم پر رہتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھانے پر مجبور ہے. ستم ظریفی کی بات مگر یہ ہے کہ حکومت کے علاوہ اپوزیشن کی بڑی پارٹیاں بھی پنڈی کی نظر التفات کی منتظر رہتی ہے. محض اسی وجہ سے پنڈی والے ایک طاقت ور فریق کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں.
دوسری طرف آصف علی زرداری بھی اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں.

وہ شہبازشریف کے موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے کرتا دھرتا افراد سے رابطوں کا بغور مشاہدہ کر رہے ہیں. لاہور کے ضمنی الیکشن میں متاثرکن کارکردگی کی وجہ سے بھی ان کی امیدوں کا چراغ روشن ہو چکا ہے. نجم سیٹھی نے اپنے ایک حالیہ تجزیے میں بتایا ہے .کہ آصف علی زرداری نے مقتدر قوتوں کو اس بات کی پیش کش کی ہے. کہ وہ اگر ن لیگ کے بجائے پیپلزپارٹی سے ڈیل کرلیں.

تو ان کو بڑا فائدہ ہوگا. زرداری صاحب نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے. کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے بندے اکٹھے کرنے میں "ان" کی مدد کی جاسکتی ہے. اس کے بدلے میں پیپلز پارٹی بلاول بھٹو یا راجہ پرویز اشرف کو باقی ماندہ ڈیڑھ سال کے عرصے کے لیے وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی خواہش مند ہے. زرداری صاحب نے مقتدر قوتوں کو اس بات کا یقین  دلایا ہے.

کہ وہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں.
راولپنڈی کی طاقتور شخصیات پورے سیاسی ماحول کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنے میں مصروف ہیں.ان کے لیے عمران خان اب بھی ایک بہترین چوائس ہیں. کیوں کہ خان صاحب ہی وہ شخص ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے اعتماد پر پورا اتر سکتے ہیں. دراصل "وہ" مستقبل میں پرویزمشرف غداری کیس جیسے کسی ایڈوینچر کے متحمل نہیں ہوسکتے.

لہذا وہ محتاط انداز میں اپنے پتے کھیلنے میں مصروف ہیں. تاکہ بعد میں ان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو. اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس بات کا حتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے. کہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو آنے والے سیاسی سیٹ اپ میں کسی صورت میں بھی جگہ نہیں دی جائے گی.
دوسری طرف  معیشت کی بری حالت بھی ان کے لیے پریشانی کی باعث ہے. اسی لیے بادل نخواستہ دوسرے کئی آپشنز پر غور کیا جارہا ہے.

وزیراعظم کو بھی  آنے والے خطرے کا  احساس ہوچکا ہے. اسی لیے انہوں نے آنے والے تین مہینوں کو بڑا اہم قرار دیتے ہوئے اپنے لنگوٹ کس لیے ہیں. ان کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف سے رقم کے حصول کے بعد معیشت کو کسی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے ممکنہ خطرے کو کسی طرح ٹال دیں.  مگر آئی ایم ایف کے ساتھ کڑی شرائط پر کیا گیا معاہدہ حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے.

کیوں کہ حکومت تین سو ارب روپے کے مزید ٹیکسوں کا بوجھ عوام کے ناتواں کندھوں پر ڈالنا چاہتی ہے. جس کے بعد عوام جو پہلے ہی پریشان حال ہیں. مہنگائی کے آنے والے طوفان کے خلاف سڑکوں پر نکل کر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی اشرافیہ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں.
وزیراعظم موجودہ مہنگائی اور بےروزگاری  کے جن کو قابو کرنے کے بجائے اپوزشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں.

تاکہ اپوزیشن عوامی قوت کو ان کے خلاف استعمال نہ کرسکے. اس کام کے لیے نیب بھی خان صاحب کو کمک پہنچا رہا ہے. اپوزیشن کے تمام بڑے راہنما ایک ایک سال سلاخوں کے پیچھے رہ کر دفاعی پوزیشن اختیار کرچکے ہیں. لہذا وہ مزاحمت کا راستہ چن کر کسی قسم کا خطرہ مول لینے کے بجائے کسی معجزے کے منتظر ہیں.
اس وقت سیاست کے بڑے پہلوان  اور طاقتور قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ آنکھ مچولی میں مصروف ہیں.

جبکہ سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے عوامی مسائل سے عدم دلچسپی اور بےاعتناہی کی وجہ سے پاکستانی اضطراب کا شکار ہیں. ان کو اقتدار کی جاری میوزیکل چئر گیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے. عام آدمی کو سستا آٹا اور سستی چینی کی ضرورت ہے. وہ سستی بجلی اور کم قیمت پر پٹرول خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے. اب وہ ایک کروڑ نوکریوں اور لاکھوں گھروں کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے. اسے اب حقیقی معنوں میں ریلیف کی ضرورت ہے.
اس کے کان فلسفیانہ تقریریں اور بڑہکیں سن سن کر پک چکے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :