عمران خان کی حکومت اور ریاست مدینہ‎‎

جمعرات 30 دسمبر 2021

Mohammad Bashir

محمد بشیر

یہ انیس سو اناسی کا ذکر ہے راقم فیض آباد کے قریب واقع ایک سرکاری دفتر میں ملازمت کرتا تھا. فیض آباد چوک راولپنڈی کے دونوں اطراف میں ہوٹل ہوا کرتے تھے. جہاں ہم دو تین دوست وقفے کے دوران کھانا کھایا کرتے. میں اور میرا ایک کولیگ دوست کبھی کبھار فٹ پاتھ پر کھڑے ہوجاتے. اور دونوں اطراف سے آنے والی گاڑیوں کی شوقیہ گنتی کرتے.

ایک آدھ منٹ یا بیس پچیس سیکنڈ کے بعد ایک عدد گاڑی گزرتی تھی. لہذا ان کو گننا بہت ہی آسان تھا. اگر اس دور کا آج سے مقابلہ کیا جائے تو اسی سڑک سے اتنی تعداد میں گاڑیاں گزر رہی ہوتی ہیں. جن کو گننا تو درکنار ایک پیدل انسان کا سڑک پار کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا.

(جاری ہے)

اسی وجہ سے حکومت نے پیدل چلنے والوں کے لیے اوور ہیڈ بریج بنا دیے ہیں تاکہ سڑک کراس کرنے والوں کو آسانی ہو.

اب تو گاڑیوں کی اتنی بہتات ہوچکی ہے کہ وہ تین لائنوں میں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں. ماضی میں ہم چہل قدمی کے انداز میں سڑک کراس کیا کرتے تھے. وہ بڑا پرسکون اور سستا زمانہ تھا. سات آٹھ سو روپے سیلری ملا کرتی. جس سے ایک چھوٹی فیملی آسانی سے گزارہ کرتی تھی. جب میں بھرتی ہوا تو بھٹو شہید کی حکومت کا آخری سال چل رہا تھا. اس دور میں کسی کسی کے پاس گاڑی ہوا کرتی تھی.

گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے افسران سائکل پر دفتر آتے تھے. سرکاری گاڑیاں صرف بڑے افسران کو دفاتر لانے اور واپس گھر لے جانے کے لیے دستیاب ہوتی تھیں.
آج چالیس بیالیس سال گزرنے کے بعد گاڑیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے. ملک کی آبادی بھی بہت بڑھ چکی ہیں. مگر گاڑیوں کی تعداد میں آبادی میں اضافے کی نسبت زیادہ بڑھی ہے. دوسری طرف مگر ملک کی معاشی حالت انتہائی درجے پستی میں جا چکی ہے.

میں نے اوپر اپنی سیلری کا تذکرہ کیا تھا جو اس دور میں سات آٹھ سو روپے ماہوار تھی. پھر دو تین سال کے اندر اٹھارہ سو تک جا پہنچی. ہمارے گھر کے پاس ایک سستا بازار لگتا تھا. میری بیگم دس بیس روپے میں دو تین سبزیاں لے آتیں. دو روپے کلو ٹماٹر ملا کرتے. پچاس روپے کا ڈھائی کلو کا گھی کا ڈبہ مل جاتا تھا. ہم تین سو روپے میں گھر کا راشن خریدتے. جو مہینہ بھر کے لیے کافی ہوتا تھا.

آج پنشن اس دور کی تنخواہ کے مقابلے میں کئی سو فیصد زیادہ ہے. مگر مہینہ کتنی مشکل سے گزرتا ہے. یہ مت پوچھیے.
میں نے مضمون کے شروع میں گاڑیوں کی تعداد کا تقابلی جائزہ پیش کیا تھا. دراصل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پچھلے دنوں فرمایا تھا. پاکستان خطے کے کئی ممالک سے سستا ملک ہے. چوہدری صاحب نے ثبوت کے طور پر گاڑیوں کی ریکارڈ خریداری کے اعداد شمار پیش کیے ہیں.

وزیراعظم صاحب بھی محض اسی وجہ سے پاکستان کو سستا ملک قرار دیتے ہیں. جنرل مشرف بھی اپنے دور میں سیل فون کی خرید و فروخت کو معیشت کی بہتری اور لوگوں کے اچھے معیار زندگی سے تشبیہ دیا کرتے تھے. بدقسمتی سے مگر وزیراعظم اور ان کے وزیر صاحب کی یہ وضاحت گمراہ کن بھی ہے. اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف بھی. گاڑیوں, موٹر بائیکس اور موبائل فونز کی ریکارڈ سیل ملک کے سستا ہونے کا پیمانہ ہرگز نہیں ہوسکتا.

دیکھنا یہ ہے کہ اس بدترین معاشی صورت حال میں گاڑیاں خرید کون رہا ہے. مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی دال روٹی بھی شدید مہنگائی میں پوری نہیں ہورہی. جن کے پاس کالا دھن یا کرپشن کا پیسہ ہے  یا جو جدی پشتی مالدار ہیں صرف وہی چمچماتی گاڑیاں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں.
وزیراعظم اور ان کے وزراء کو چاہئے کہ  وہ اپنے شاہانہ دفاتر سے باہر نکلیں اور بازاروں میں جا کر عام آدمی سے اس کی مالی حالت اور قوت خرید کے بارے میں دریافت کریں.

تب ہی ان کو صحیح صورت حال کا پتہ چل سکتا ہے کہ پاکستان ایک سستا ملک ہے بھی یا نہیں.
خان صاحب کو ریاست مدینہ کی تقلید کرتے ہوئے عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کا بھی بڑا شوق ہے. بدقسمتی سے مگر انہوں نے شائد خلفائے راشدین کے سنہری ادوار کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی. وفاقی وزیر مذہبی امور اور محترم طاہر اشرفی صاحب کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ وزیراعظم کو اس معاملے سے باخبر رکھیں کہ اسلامی ریاست کیسے چلائی جاتی تھی.

صحابہ کرام کا امور مملکت چلانے کا انداز کیا تھا. ان عظیم ہستیوں کا رہن سہن کیسا تھا. ان کے عدل اور انصاف کے قصوں پر مبنی کتب خان صاحب کی خدمت میں پیش کرنا ان مذہبی معاونین کا فرض ہے. اس کے علاوہ گشت کا نظام جو ریاست مدینہ کا خاصا تھا. اس کے بارے میں بھی آگاہی پیدا کی جانی چاہئے.
یہ انتہائی نامناسب بات ہےکہ وزیراعظم صاحب کسی پناہ گاہ کا دورہ کریں.

جہاں سیکورٹی اہلکاروں کو ان کےآس پاس بٹھا کرعام پبلک کو باہر کا راستہ دکھا دیا جائے. یہ تو خان صاحب کو ماموں بنانے والی بات ہوگئی. خلفاءراشدین بغیر کسی کو بتائے بھیس بدل کر آبادیوں میں پہنچ جاتے تھے. اور جس گھر میں راشن موجود نہ ہوتا. خلیفہ وقت اناج کی بوری اپنی کاندھے پر لاد پر ان کے گھر لے جاتے. انصاف کی بغیر کسی امتیاز کے فراہمی کے علاوہ نظام احتساب کا منصفانہ نظام اس عظیم اسلامی دور میں رائج تھا.
موجودہ حکومت ریاست مدینہ کی عظیم سلطنت کی گرد کو  پانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی.

کیوں کہ ہمارے نظام انصاف پر سنگین اعتراضات موجود ہیں. اس کے علاوہ نیب سربراہ ایک متنازعہ شخصیت کے مالک تصور کیے جاتے ہیں. جب کہ وزیراعظم خود بھی منتقم ا لمزاج شخصیت کے مالک ہیں. وہ مخالفت میں سرخ لائن کرانے سے بھی نہیں ہچکچاتے.
عمران خان کے ایک حامی صحافی اپنے ایک تازہ کالم میں فرماتے ہیں. عمران خان بار بار اپنی تقریروں میں ریاست مدینہ کا تذکرہ کرتے رہے.

سیرت نبی کے حوالے بھی دیے. اور اقوام متحدہ میں  اسلاموفوبیا پر خطاب بھی کیا. لیکن ایسا کرنے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں ان کی اسلام سے محبت اور دینی تعلق کا تصور  اجاگر نہ ہوسکا.
لوگ عمران خان کے نعروں کو وقتی مصلحت پسندی اور کھوکھلے پن سے تعبیر کرتے ہیں.
ناقدین سمجھتے ہیں وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں. انہوں نے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے. جن کی نہ کوئی سوچ ہے اور نہ نظریہ. جو خرابی کو ہوا دینے میں مہارت رکھتے ہیں. اور اسی میں ان کی بقا بھی ہے. دوسری جانب ملکی حالات پہ حکومت کی گرفت اب قائم نہیں رہی .وہ فیصلہ سازی اور قوتِ عمل سے بالکل محروم ہو چکی ہے. اسی وجہ سے مقتدر حلقوں نے دیگر آپشنز پر غور شروع کر دیا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :