مادہ پرستی اور ہمارے بدلتے معاشرتی رویے

پیر 15 جون 2020

Mudassar Aslam

مدثر اسلم

مادہ پرستی (Materialism)سے مراد ہے مادی فوائد (Material Interests)کو غیر ضروری اہمیت دیناا ور اخلاقی ور وحانی اقدار (Ethical & Spirtual Values)کو نظر انداز کرنا ۔آسان الفاظ میں کہا جائے تو اس سے مراد ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کو کسی بھی دوسری چیز پر ترجیح دینا۔ماد ہ پرستی نے ہمارے معاشرتی رویوں پر بہت برُے اثرات مرتب کئے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انسان شروع سے ہی مادہ پرست تھا ؟اس سوال کے جواب میں میری رائے کسی بھی دوسرے شخص سے مختلف ہو سکتی ہے ۔

میرے مطابق اس سوال کے جواب کو جاننے کیلئے ہمیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔چلیے آئیے ماضی کی سیر کرتے ہیں۔آسمانوں میں سفر کرنے والا یہ انسان پہلے پہل پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانپتا تھا۔ پھر ُاس نے خدا کی دی ہوئی لا ذوال نعمت"دماغ"کا استعمال کیا اور روئی بنائی اور پھر روئی سے دھاگا اور کپڑے بنائے ۔

(جاری ہے)

یوں وہ اپنے معیارِزندگی کو بلند کرتا گیا ۔

وہ نت نئی ایجادات سے اپنی زندگی کو آسان اور پرُسکون بناتا گیا ۔نت نئی ایجادات سے وہ اپنے معیارِزندگی کو بلند کر رہا تھا اور جب اس نے اپنے معیارِزندگی کو بلند کیا تو ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار (Moral Values)کا گلا گھونٹ دیا ۔پتھر کے زمانے کا یہ انسان اب اپنے معیار پر لوگوں کو جانچنے لگا۔اس کا رشتہ معاشرے سے کمزور ہوتا گیا ۔پھر کیا ہونا تھا ۔

انسان کی جگہ پیسے نے لے لی ۔کردار کی جگہStatusنے لے لی ۔یہ تبدیلیاں معمولی نہیں تھیں۔بلکہ ان تبدیلوں نے اُس کے زندگی گزارنے کے ڈھنگ کو یکسر بدل دیا تھا ۔اس کی مادی مفادات کو حاصل کرنے کی حوس بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔اور وہ اپنی راہ میں آنے والی ہر دوسری شے کا قلع قمع کرنے لگا ۔تو یہ تھی اُس کے ماضی کی عبرت ناک کہانی ۔جس کے سننے کے بعد آپ مذکورہ سوال کے جواب تک پہنچ گئے ہوں گے ۔

آج بھی وہ اپنا یہ رویہ برقرار رکھے ہوئے ہے ۔آج بھی اس کی نظرمیں انسان اور اس کے کردار کی کوئی قیمت نہیں ۔قیمت صرف پیسے اور سٹیٹس کی ہے ۔وہ کسی نے کہا تھا کہ :
"جب کوئی آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ کیا کام کرتے ہیں تو حقیقتاََ وہ اندازہ لگا رہا ہوتا ہے کہ آپ کو کتنی عزت دینی ہے "    
اور یہ بات بالکل درست ہے ۔ہم دوسرے شخص کےStandardکی بنیاد پر اس کو عزت دیتے ہیں ۔

کوئی ایسا شخص جو اچھے Standardکا ہو اور ہمیں اس سے کسی قسم کے فائدے کی توقع ہو تو اُس سے ہمارا رویہ بڑی حد تک مخلصانہ ہوتا ہے ۔اور اس کے برعکس جن لوگوں سے ہمیں فائدے کی توقع نہیں ہوتی ان سے ہمارا رویہ اچھا نہیں ہوتا ۔آپ کویہ بات ایک سادہ سی مثال سے سمجھاتا ہوں ۔ایک ایسا درخت جس سے ہمیں پھل ملنے کی اُ مید ہوتی ہے اُ سے ہم پانی دیتے ہیں اور اس کی مکمل دیکھ بھال کرتے ہیں ۔

اس کے برعکس ایسے درخت جس سے ہمیں پھل ملنے کی اُمید نہیں ہوتی ،اُ سے کاٹتے نہیں بلک اُ س کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔اُ س کے سامنے دوسرے درختوں کو پانی دیتے ہیں اور اُ س درخت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔اور وہ درخت اپنے آپ مرُ جھا جاتا ہے۔پھر اُسے گھن لگتا ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے ختم ہو جاتا ہے۔غور کیجئے گابالکل یہی رویہ ہمارا لوگوں کے ساتھ بھی ہے ۔

ہم ان لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں جن سے ہمیں کسی فائدے کی توقع ہوتی ہے اور اس کے برعکس جن لوگوں سے ہمیں فائدے کی توقع نہیں ہوتی ،ان سے تعلق مکمل طور پر ختم نہیں کرتے ،بالکل اُسی طرح جس طرح درخت کو نہیں کاٹتے۔بلک اُسے توجہ دینا کم کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ رشتہ آہستہ آہستہ کمزور پڑ جاتا ہے اور بالآخر دم توڑ جاتا ہے ۔یاد رکھیے گا کہ کسی انسان کو اس کے Standardکی وجہ سے عزت دینا اوراُس سے اچھا رویہ رکھنا ،اصل میں اُس انسان کیلئے نہیں ہے بلکہ اُس کے Standardکو عزت اور اہمیت دینا ہے ۔

پتہ ہی نہیں چلا کہ دن کیسے بدل گئے ۔اپنے بڑوں سے سنتے ہیں کہ گاؤں میں رہنے والے لوگ بہت اچھے تھے ۔وہ ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے سےَ مل جُل کر رہتے تھے ۔وہ ہر ملنے والے سے محبت سے ملتے تھے ۔ہر شام کو بیٹھک ہوتی تھی اور وہ ایک دوسرے سے مل کر باتیں کرتے تھے اور اپنے مسائل ایک دوسرے کو بتاتے تھے ۔میں سوچتا ہوں کہ کتنا اچھا منظر ہوتا ہو گا۔


کچے گھر اور پکے رشتے ہوتے تھے
گاؤں کے دن کتنے اچھے ہوتے تھے
لیکن آج کل ہم شہروں میں رہنے والے لوگ اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں مل جُل کر بیٹھنے کا ۔آج ہم اپنے ذاتی مفادات کو رشتوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔آج ہم ذاتی مفادات میں اتنے اُلجھ گئے ہیں کہ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہم نے اپنے معاشرے سے کس طرح کا رویہ رکھنا ہے ۔

تو پتہ چلا کہ گویا آج ہم ماضی کے نسبتاََ سہولتوں اور آسائشوں سے بھر پور زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہمارا دل محبت و مروت کے احساس سے خالی ہے ۔
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ضرورت ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ اگرچہ آج ہم نے اپنے معیارِ زندگی کو بلند کر لیا ہے لیکن لوگوں کو ان کے کردار کی بنا پر عزت دیں نہ کہ اس کے سٹیٹس کی بنا پر ۔

اس بات کو خطبہ حجتہ الوداع میں نبی پاک ﷺنے بڑے جامع انداز میں سمجھایا ہے کہ :
"تم میں سے کسی عربی کو عجمی پر ،کسی عجمی کو عربی پر ،کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں ،سوائے تقوٰی کے "
پتہ چلاکہ فوقیت کا معیار کردار ہے نہ کہ سٹیٹس ۔تو خداراا س بات کو سمجھیں کہ انسان اپنے کردار کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ورنہ مہنگے کپڑے تو دکانوں میں پُتلوں کے بھی ہوتے ہیں ۔

اور جہاں تک مادی مفادات (Material Interests)کی بات ہے تو ان کی خواہش ایک فطری عمل ہے ۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک فطری رجحان ہے ۔مسئلہ ان مفادات کی خواہش کرنے اور ان کے حصول کیلئے تگ و دو کرنے میں نہیں ہے ۔مسئلہ اس بات میں ہے کہ ہم ان مفادات کو حاصل کرنے کیلئے کون سا ذریعہ استعمال کرتے ہیں ۔اگر ہم اپنے مفادات کے حصول کیلئے دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں،دوسروں کی دل آزاری کرتے ہیں اور اپنے معاشرے سے بُرا رویہ روا رکھتے تو یہ سراسر غلط ہے ۔

اور ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ذاتی مفادات کے حصول کیلئے کوشش کرنے والا انسان کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا ۔وہ ہر مفاد کے بعد اور زیادہ کی خواہش کرتا ہے ۔اُسے کبھی بھی دلی سکون میسر نہیں آتا ۔میری مانیے ۔۔بانٹا سیکھیں ۔اگر آپ خوش ہیں تو دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کریں ۔یتیموں کیلئے دستِ شفقت بنیں ،گرتے ہوؤں کا سہارا بنیں ،غم زدوں کیلئے دلاسہ بنیں ۔پھر دیکھیے گاکہ زندگی کتنی پُرسکون ہو جائیگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :