اس کو خون کا ہر ذائقہ ازبر ہے۔وہ نہ رام کا اصل پچاری ہے اور نہ ہی کسی امن کی فاختہ سے اس کی یاری ہے۔وہ وحشت کا چیلا ہے اور راشٹریا سیوک سنگھ کا ایک مداری ہے۔چائے کے ڈھابے پر پانی میں کھولتی ہوئی چائے کی پتی آج بھی اس کے ہواس پر سوار ہے۔وہ ہندستان کی ہراقلیت کو چائے کی پتی سمجھتا ہے جسے اس نے انہی کے خون سے ابال دینا ہے۔گجرات کا یہ چائے والا آج دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا والی وارث ہے۔
وہ نفرتوں کا داعی ہے۔اس کی سیاسی عمارت کی ہر اینٹ کے نیچے انسانی خون کے دھبے ہیں۔وہ مہاتما گاندھی نہیں،وہ جواہر لال نہرو بھی نہیں،وہ مرار جی ڈیسائی نہیں،وہ نہ واجپائی ہے اور نہ ہی ایڈوانی، وہ محض ایک قسائی ہے جس کو سیوک سنگھ نے لوگوں کے گلے کاٹنے کے لیے تیار کیاتھا اور وہ آج سیاسی بہروپ بھرے آستین میں خنجر چھپائے ''یدھ نہیں بدھ '' کا راگ الاپتے ہوئے معصوموں کے گلے کاٹ رہا ہے۔
(جاری ہے)
وہ بھارت جس کی پہچان کبھی لتا،محمد رفیع،کشور کمار،مکیش کی آواز،دلیپ کمار، مدھوبالا، نرگس،شاہ رخ،عامر خان اور سلمان خان کی اداکاری،نوشاد،اے آر رحمن کی مسحور کن دھنیں،راج کپور اور محبوب کی فلمسازی،سنیل گواسکر، کپل دیو،سچن ٹنڈولکر اور ویرات کوہلی کا سحر انگیزکھیل تھا، آج اس کی پہچان نریندر مودی ہے۔وہ بھارت جو سنگیت کی سرزمین تھی،جہاں کبیر کے دوہے گنگنائے جاتے تھے،جہاں گیان کے دریا بہتے تھے اور جہاں علم کے موتی بکھرا کرتے تھے،آج اس بھارت میں مودی کی نفرت کے لاوے بہتے ہیں۔
گجرات کا نریندر مودی کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہے تو اس پر حیرت بنتی بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے منہ کو جو خون لگ گیا ہے،اس سے ایک دن ہندوستان کے ہندو بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔انہیں ابھی شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے ایک ایسی ڈائن کو اپنے اوپر مسلط کرلیا ہے جو آخر میں اپنے بچوں کو ہی کھاجاتی ہے۔مجھے حیرت عرب کے حکمرانوں پر بھی نہیں ہے،جو اسے انسانیت کے ایوارڈز سے نواز رہے ہیں۔
سوا ارب انسانوں کی مارکیٹ سے تو بڑوں بڑوں کے ایمان ڈگمگاجاتے ہیں۔درحقیقت مجھے اصل حیرت اپنے وزیراعظم کے کردار پر ہورہی ہے۔
میانوالی کا یہ نیازی جسے اس کے سیاسی مخالفین ''یوٹرن خان ،سلیکٹڈ اور طالبان خان'' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انوکھاکردار ہے۔اسے بیٹ بال سے ناطہ توڑ کرسیاست کے دشت میں قدم رکھے ہوئے دو دہائیاں گزر گئی ہیں۔
اس کی طویل جدوجہد ہے،جہاں اس نے سمجھوتے بھی کیے اور بے شمار غلطیاں بھی لیکن بالآخر اس نے اپنی منزل پالی ہے۔آج کوئی مانے یہ نہ مانے وہ پاکستان کا وزیراعظم ہے۔کچھ اس کو ڈمی وزیراعظم کہتے ہیں تو کسی کی نظر میں وہ ایک ناکام وزیراعظم ہے۔ملک کا سب سے اعلی منصب پانے کے لیے اس نے اصولوں سے روگردانی بھی کی،جو سب کے سامنے عیاں ہے۔اس کی معاشی پالیسیوں سے عوام کی چیخیں بھی نکل رہی ہیں۔
اس کی ٹیم کے کھلاڑی بھی وہی ہیں،جو ماضی کے حکمرانوں کے ساتھی تھے لیکن وہ پھر بھی بہت مختلف ہے۔اس کے پیچھے کوئی سیاسی میراث نہیں ہے۔وہ غلطیاں کررہا ہے لیکن 72سال کی خرابیوں سے اس کی ایک سال کی غلطیوں کا موازنہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
لاہور جیم خانہ کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلنے والا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قوم کی نمائندگی کے لیے موجود تھا۔
ادھر دور حاضر کا'' ہلاکو ''ایک آرام دہ کمرے میں اپنے ''یدھ نہیں بدھ''کے جملے پر نازاں ٹیلی وژن پر نظریں جمائیں بیٹھا تھا۔''بسم اللہ الرحمن۔ایاک نعبد و ایاک نستعین''یہ سن کر اس نے اپنی نظریں ٹی وی اسکرین پر گاڑھ لیں۔ادھر میانوالی کا نیازی کلائمٹ چینج پر بات کررہا تھا۔یہاں گجرات کا قسائی زیر لب مسکرا رہا تھا۔''کرکٹر''نے منی لانڈرنگ کا ذکر کیا تو گجرات کے باسی کو اپنا بھاشن یاد آگیا کہ کس طرح اس نے دنیا کے سب سے بڑے فورم پر ہندوستان میں 11کروڑ واش رومز بنانے کا ذکرکیا تھا۔
اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی جارہی تھی کہ اچانک اس کے کانوں نے راشٹریہ سیوک سنگھ کے الفاظ سنے،پاکستان کا ''خان'' اس کو ہٹلر سے تشبیہ دے رہا تھا۔اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔اس کی آنکھوں سے شعلے نکل پڑے جب اس نے سرخ و سفید چہرے والے ''پردھان منتری'' کو یہ کہتے سنا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے بارے میں جس کو جاننا ہے وہ گوگل کرلے۔سب کو علم ہوجائے گا کہ کس طرح یہ تنظیم مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔
اس کا ذہنی تنا بڑھتا جارہا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جب دبئی کے حکمرانوں سے لے کر بل گیٹس تک اسے ایوارڈز سے نواز رہے ہیں تو اس ''سلیکٹڈ'' کو اس جگہ یہ باتیں کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے اور پھر وہ لمحہ آہی گیا جس سے وہ خوفزدہ تھا۔تقریر کرنے والا اب کشمیر کی طرف آگیا تھا۔پاکستانی وزیراعظم جنرل اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کو ایک انگریزی فلم ''ڈیتھ وش'' کا حوالہ دے رہا تھا۔
وہ بتارہا تھا کہ کس طرح فلم کے ہیرو کے اہل خانہ کو ماردیا جاتا ہے تو وہ انصاف نہ ملنے پر خود بندوق اٹھالیتا ہے اور قاتلوں کو ٹھکانے لگانا شروع کردیتا ہے۔اس پر پورا سینما تالیاں بجاکر داد دیتا ہے اور اسے اپنا ہیرو قرار دیتا ہے۔وہ انہیں سمجھارہا تھا کہ اگر کشمیریوں نے انصاف نہ ملنے پر بندوق اٹھالی تو انہیں بھی ہیرو ہی قرار دینا۔یہ سن کراس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا،اس نے دل میں ''امیت شا'' کو کوسنے دیئے اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
اسے لگ رہا تھا کہ وہ امریکا کے کسی عالیشان ہوٹل میں نہیں بلکہ گجرات کے اسی ڈھابے پر موجود ہے،جہاں سے اس کی زندگی کا سفر شروع ہوا تھا۔
''خان'' کہہ رہا تھا کہ جس دن کشمیر سے کرفیو اٹھا وہاں خونریزی شروع ہوجائے گی اور اس کا الزام ہم پر لگایا جائے گا۔ایسی صورت حال میں دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں گی۔میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ اگر آپ کا پڑوسی آپ سے سات گنا بڑا ہو اور آپ کے پاس ہتھیار ڈالنے اور لڑنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتو آپ کیا کریں گے؟میرا جواب ہوتا ہے لاالہ اللہ،ہم اپنی آخری سانس تک لڑیں گے۔
یہ الفاظ سن کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ انہونی ہوگئی ہے۔ادھر جنرل اسمبلی کا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اور یہاں گجرات کے چائے والے کو لگ رہا تھاکہ اس کا چولہا ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہوگیا ہے۔اب اس کی کیتلی میں نہ پانی کھولے گا اور نہ ہی بے گناہ کشمیری مسلمانوں کا خون۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔