”صدی کی ڈیل“امریکہ ایران تناؤ اور پاک فوج کے خلاف مہم

جمعرات 11 جولائی 2019

Muhammad Ijaz Haider Janjua

محمد اعجازحیدرجنجوعہ

پچھلے دنوں خلیجی ملک بحرین میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کی زیرنگرانی بحرینی حکمران خاندان کی میزبانی میں امریکی منصوبہ ”صدی کی ڈیل “ کے تحت ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو ئی۔ جسے ” اکنامک ورکشاپ“ اور ”امن سے خوشحالی “ کا نام دیا گیا ، اس کانفرنس میں کلیدی حیثیت ٹرمپ کے داما د اور ” صدی کی ڈیل “ نامی سوسالہ فتنہ پرور منصوبے کے بانی جیرڈ کشنر کو حاصل تھی ، جبکہ میزبان شاہی خاندان کی حیثیت جی حضوری والے غلام کی سی رہی۔

موصوف نے خطبہ صدارت کے دوران منصوبے کے خدوخال واضح کیے،امریکی غلاموں اور غداران امت پر مبنی حاضرین محفل کو بتایا کہ ہم فلسطین کے باشندوں پر اگلے د س سالوں میں،انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت کے میدان میں 50ارب ڈالرخرچ کر نا چاہتے ہیں بلکہ خرچ کرینگے کا لفظ استعمال کیا گیا، اور تفصیل سے حاضرین محفل کو بتایا کہ ویسٹ بینک کے علاقے اسرائیل، غزہ ،اردن وغیرہ اور لبنان کو کس طرح روڈ اور ریلوے لائنز کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے گا۔

(جاری ہے)


 اس منصوبے میں خاص الخاص فلسطینیوں کو ہی 50ارب ڈالرکے تحت گھیرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ چھ خلیجی ممالک میں سے تین ملکوں نے اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی ۔ کویت ، قطر اور عمان نے اس فتنہ پرور اجتماع سے دوری اختیار کی۔ جبکہ جن فلسطینیوں کے لیے یہ جال تیار کیا گیا تھا وہ پہلے دن سے ہی اس کا نفرنس کا بائیکاٹ کر چکے تھے۔ جس سے ثابت ہو تا ہے کہ ”صدی کی ڈیل“ نامی فلسطین اور مسلم امت کی دشمنی پر مبنی یہود کا سوسالہ منصوبہ ابتداء میں ہی ناکام ہو گیاہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس اور درسرے سر کر دہ راہنماؤں کی دوراندیشی کو سلام جنہوں نے یہود کی اس عظیم سازش کو آغاز میں ہی ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔
 حالانکہ 50ارب ڈالر کی رقم اور وہ بھی صرف دس سال کے لیے کوئی معمولی رقم نہ تھی۔ مگر فلسطینی قیادت نے لالچ میں نہ آکر خود کو سیاسی سطح پربیدار ثابت کیا ہے ۔ ان کی جگہ اگرماضی قریب کے پاکستانی حکمران ہوتے تو یقینا اتنی بڑی رقم کی خاطر ”ماں“ تک بیچ ڈالتے۔


” ورلڈ جیوش کانگریس“ نامی یہودیوں کی عالمی تنظیم نے امریکہ کی سپر پاور چھتری کی آڑ میں امت محمدیہ کو مستقبل میں کئی صدیوں تک زیر کنٹرول رکھنے اور اپنے دیرینہ خواب گریٹر اسرائیل کی تکمیل کے لیے ” صدی کی ڈیل“ نامی منصوبے کے تحت جو پہلا قدم اٹھایا ہے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس کے لیے خدمات ایک مسلم ملک اور مسلم شاہی خاندان نے ہی فراہم کی ہیں۔

اور زیادہ افسوس بحرینی وزیرخارجہ خالد بن احمد الخلیفہ کے ان الفاظ پر ہے جو وہ فرمارہے ہیں کہ اسرائیل ہمارے ریجن میں ایک حقیقت ہے۔
کہتے ہیں مردِ میداں جب مذاکرات کی میز پر آتے ہیں تو تلوار کے ذریعے حاصل کر دہ انعامات سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔ مسلم امت کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوتا آرہا ہے ۔ ماضی میں یاسر عرفات کی پی ، ایل، او کی گوریلا کارروائیوں نے اسرائیلیوں کو ناکوں چنے چبوادیئے تھے ، قریب تھا کہ اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر اکتفا کر تا مگر مذاکرات کے خوبصورت جال نے یا سر عرفات کو مرا ہوا سانپ بنادیا۔


کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے بھی بظاہر فلسطینیوں کے لیے خوشنما تھے ان میں بھی اسرائیلی سرحدوں کی روک تھام اور ڈالروں کی بارش کے وعدے تھے مگر مصر وغیرہ سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے علاوہ کوئی وعدہ وفا نہ ہوا۔ تب بھی ان معاہدوں کا ضامن و معمار امریکہ تھا۔ اب جبکہ چند سال پہلے لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے مجاہدین نے اسرائیل کی ناقابل تسخیر چھتری کا توڑ کیا ہے اور اندرون غزہ حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی سیکورٹی کو داؤ پہ لگا رکھا ہے تو ورلڈ جیوش کا نگریس کے منصوبہ سازوں نے پرانے جال کو نئے داؤ سے پھینکنے کی بین الاقوامی اوراخلاقی واردات کی ہے ۔

خدانخواستہ اگر یہود کا یہ منصوبہ کا میاب ہو جا تاہے تو پھر تمام خلیجی ممالک جو آج اسرائیل کو اپنے ریجن میں حقیقت تسلیم کر تے ہیں وہ حقیقتاً ایک دن گریٹر اسرائیل کا حصہ ہو ں گے۔ کیونکہ تمام خلیجی ممالک کی دفاعی سیکورٹی امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور امریکہ عربوں سے زیادہ اسرائیل کی سیکورٹی کا ضامن ہے۔ جس نے اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر اپنے ہی تیار کردہ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کراپنا سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کر دیا ہے ، مستقبل بعید میں بھی گریٹر اسرائیل کا ضامن امریکہ خلیجی ممالک کو دنیا کے نقشہ سے مٹانے میں لمحہ برابر بھی دیر نہیں کر ے گا۔

یہی امریکہ اور اسرائیل کا اصل مقصد اور”صدی کی ڈیل“ کی تہہ میں پنہاں اصلیت ہے ، جو سعودی عرب کے ولی عہد عزت مآب جناب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود ، خلیفہ بن زید بن سلطان النہیان اور خالد بن احمد الخلیفہ حضرات اور ان کے حکمران خاندانوں کو نظر نہیں آرہی۔ نظر آئے گی بھی نہیں کیونکہ ان لوگوں کو پچاس پچاس سال تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کر نے کا لالچ دیا گیا ہے۔

مگر یہ جانتے نہیں کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا جس میں سب سے بڑا مطالبہ فلسطینیوں سے اپنی علیحدہ آزاد ریاست کے حصول سے دستبرداری کا ہے تو پھر نہ ان خاندانوں اور شخصیات کے ملک رہیں گے ، نہ یہ لوگ رہیں گے۔ حکمرانی کہاں کریں گے؟ جیسے شامی علاقے گولان کی وادی کے بارے میں امریکہ کہتا ہے کہ وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ ہو نا چاہئے، اسی طرح ایک دن امریکہ کہے گا خلیجی ممالک کو بھی اسرائیل کا حصہ ہو نا چاہئے۔


واضح رہے اس منصوبے کے موجد ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کا داما د جیرڈ کشنر ہیں جو کہ کٹر صیہونی یہود ی ہیں جن کے نزدیک مسلمانوں اور عربوں کو ناحق قتل کرنا واجب، جائز اور ضروری ہے ، اور ہمارے یہ شاہی خاندان مسلمان اور عرب بھی ہیں، یعنی ٹرمپ اور کشنر کامذہبی اور بہترین شکار۔اس ہدف کو عبور کر نے کے لیے امریکہ نے خلیج کے عرب حکمرانوں کے سامنے ایک اور اسلامی ملک ایران کو ان کا خوفناک دشمن بنا کر پیش کر رکھا ہے ۔

اسرائیلی پروردہ بین الاقوامی یہودی میڈیا کے ذریعے ایران کو بحرین، سعودی عرب، کویت ،متحدہ عرب امارات وغیرہ کے حکمران خاندانوں کے اعصاب پر سوار کر دیا گیا ہے۔حالانکہ ایران نے کبھی کسی عرب ملک کی سرحد عبور نہیں کی، جبکہ اسرائیل عربوں کا پورا ملک فلسطین ہڑپ کر چکا ہے ۔ اردن سے بیت المقدس کا پورا علاقہ چھین کر اپنا دارالحکومت بنا چکا ہے، ایک اور عرب اسلامی ملک شام سے گولان کی وادی کا سارا علاقہ غصب کر لیا ہے۔

پھر بھی ان کے نزدیک ایران خلیجی عربوں کا اسرائیل سے بڑا دشمن ہے۔ بعینہ ماضی میں جیسے صدام حسین کا عراق مڈل ایسٹ کنٹریز کے لیے خطرہ تھا آج اسی طرح امام خمینی  کے ملک ایران کو عربوں کے لیے زبردستی خطرہ بنا دیا گیا ہے ۔ کیونکہ ایران گریٹر اسرائیل کی راہ میں عربوں سے کہیں بڑی رکاوٹ ہے، جس کا خا تمہ امریکہ اور یہود قوم کے نزدیک بے حد ضروری ہے ۔

تبھی اہل عرب کو ورغلا کر ایران کے خلاف ایک خوفنا ک اور خطرناک محاذ تشکیل دیا جا چکا ہے ۔ برسوں سے اقتصادی ناکہ بندی جد ید سے جدید شکل میں اہل ایران کا مقدر بن چکی ہے ۔یہودی علماء کے نزدیک دنیا کی طبعی عمر پوری ہونے میں تقریباً 60یا70سال باقی ہیں ان کے نزدیک گریٹر اسرائیل ( جس کی سرحدیں دریائے فرات سے دریائے نیل تک بتائی جاتی ہیں) کی تکمیل بہت جلد اور ضروری ہے ۔

جس میں اہم مرحلہ مسجد اقصیٰ کے گنبد والی جگہ پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے ،جس کا اعلان مضبوط ایران اور ایٹمی پاور کی حامل پاک فوج کی موجودگی میں نا ممکن ہے”صدی کی ڈیل“ نامی منصوبے کے خفیہ نکات میں آگے چل کر ایران اور پاکستان و افواج پاکستان کی بربادی کے تذکرے بھی ” نمایاں“ ہیں یہی وجہ ہے کہ یہودونصاریٰ کی خفیہ ایجنسیاں پاک فوج کے مقابلے میں کبھی تحریک طالبان پاکستان نامی گروہ بنا لاتی ہیں تو کبھی ما ما قدیر، الطاف حسین، منظور پشین ، براہمداغ بگٹی ، بالاچ مری،حیر بیارمری، علی وزیر، محسن داوڑ ،مریم نواز ،بلاول زرداری ،پرویز رشید وغیرہ کو پاک فوج سے مڈبھیٹر کرنے اور کیچڑ اچھالنے کے لیے تیار کر کے لاتی ہیں ،یہ لوگ دراصل جانے یا انجانے میں گریٹر اسرائیل کے لیے کام کر رہے ہیں جو اندرون پاکستان پاک فوج اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو آئے روز ہدف تنقید بنائے رکھتے ہیں، یہ لوگ صرف اور صرف لوٹ مار پر مبنی اپنے اقتدار کی خاطر ملک و قوم اور امت محمدیہ کے لیے سیکورٹی رسک بن چکے ہیں، ان کو کعبہ مکہ مکرمہ میں نہیں واشنگٹن ، لندن اور تل ابیب میں نظر آتا ہے۔

یہ پاکستانی عوام کی طرف سے ریجیکٹڈلوگ پاکستانی عوام کے سلیکٹڈ حکمرانوں پر تنقید کی آڑ میں اصل میں یہودی قوم کی عالمی تنظیم ورلڈ جیوش کانگریس کی طرف سے فراہم کر دہ پاکستان دشمن ایجنڈہ پروان چڑھانے کی جسارت کرتے پھرتے ہیں، میں ناچیز پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ان شاء اللہ یہ نیا وطن دشمن ریجیکٹڈ ٹولہ بھی پاک سر زمین کے ماضی کے ناپاک دشمنوں کی طرح نیست و نابود ہو جائے گا۔


خلیجی ممالک کے عوام کو چاہئے کہ بیداری کا ثبوت دیں اور اپنے حکمرانوں کو بلاوجہ ایران دشمنی سے روکیں ساتھ ہی امریکہ ، اسرائیل کی سر کردہ یہودی کمیونٹی کی سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور اپنے اپنے ملکوں میں عوامی رائے عامہ کو ایران مخالف کرنے والے عناصر کا محاسبہ کر یں۔ اسی طرح پا کستان جو لَااِلٰہ اِ لَّا اللّٰہ کی بنیاد پہ قائم ہے کی غیور عوام سے بھی اپیل ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ اور روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں کا گھر ہے، لہذا اس کی بنیادوں یعنی شعائر اسلام کی توہین کر نے والے وہ لوگ جنہوں نے قانون ختم نبوت میں ترمیم کی ناپاک جسارت کی ، حقوق نسواں کے نام پر گھریلو عورتوں کو کمرشل ویمنز بنانے کی جسارت کی ، حجاج کرام کوماضی میں جی بھر کے لوٹا، اور آج کل حرمین الشریفین اور اسلام کے قلعہ کے دفاع کی ضامن پاک فوج کے خلاف بھارت اور اسرائیل کی زبان بولتے پھرتے ہیں ،ان کا جلد از جلد اور بھر پور محاسبہ کریں ۔

یہ عدالتی سند یافتہ لٹیرے ،ڈاکو،چور، جھوٹے، بے ایمان، بد کردار، بد اخلاق ،بدزبان اور بد تہذیب لوگ کسی رو رعایت اور نرمی کے مستحق نہیں۔ یہ لوگ جدید یہودیت کے پرنس آف عریبیہ کی سیاسی باقیات ہیں ، جنہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالتیں سیسلین مافیاز قراردے چکی ہیں ، وہ مافیاز جن کے نزدیک ملک و قوم کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ، ان کا ایک ہی ماٹو ہوتا ہے کہ لُوٹو، لُوٹواور بس لُوٹو چاہے ملک رہے نہ رہے ، لوٹ مار میں کمی نہ آئے ، ان ملک و قوم اور امت دشمنوں کی زبان بند کر نا اب عوام کی ذمہ داری ہے۔

امید ہے کہ عوام یہ قومی ، مذہبی اور ملکی ذمہ داری بہ احسن طریقے سے سرانجام دے گی۔جیسا کہ بلاول زرداری اور بیگم صفدر اعوان کے ناکام جلسوں سے عوام کی بیداری کا احساس واضح ہو تا نظر آرہاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :