
مذہبی فکر اور تبدیلی کے مختلف ماڈلز !!
اتوار 23 دسمبر 2018

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
تبدیلی کا ایک ماڈل تبدیلی بذیعہ جہاد کے قائلین نے اپنایا ، اس ماڈل کے نتیجے میں اسی اور نوے کی دہائی میں دھڑا دھڑ جہادی تنظیمیں قائم ہونے لگیں۔ اگرچہ اس جہاد کے پیچے سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی اپنے اپنے مفادات تھے مگر اس کے باجود جہادی تنظیموں کو فری ہینڈ دیا گیا۔ تبدیلی کا یہ ماڈل اپنانے والوں کا خیال تھا کہ پہلے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی اور پھر اس کے ذریعے سے پاکستان کو بھی اسلامائز کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔ خلافت قائم ہو گی اور یوں پاکستان اسلامی دنیا کے لیے رول ماڈل بن جائے گا۔ اس مقصد کے لیے کچھ عناصر کو فوج میں بھی متحرک کیا گیا جہاں انہوں نے بساط بھر ہاتھ پاوٴں مارے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ تبدیلی کے اس ماڈل اور اس کے اثرات و نتائج پربھی کلام ہو سکتا ہے۔ تبدیلی کا ایک ماڈل ارباب مدارس اور بعض اصحاب فکر نے اپنایا ، ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اسلامائزیشن کے عمل سے قبل افراد سازی پر توجہ دی جائے۔ ان کاماننا یہ تھا کہ اگر ہمیں حکومت مل بھی جائے تو ہمارے پاس ایسے افراد نہیں جو اس کو چلاسکیں اور اس کو اسلامی قالب میں ڈھال سکیں۔ چناچہ انہو ں نے اپنی ساری توجہ افراد سازی پر مرکوز کر دی۔ جدید تعلیمی ڈسکورسز کو اپنے ہاں مدارس میں متعارف کروایا، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا ، صحافت ومعیشت کی طرف توجہ دی ،نوجوانوں کو صحافتی اداروں میں بھیجا اور اقتصاد و معیشت اور حلال فوڈ کے بارے میں آگاہی مہم چلائی۔ کراچی کے بعض اداروں کو اس میں سبقت رہی اور بعد میں دیکھا دیکھی ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس طرح کے پروگرامز شروع ہو گئے ، یہ حکمت عملی کس حد کامیاب ہوئی اس پر بھی تفصیلی بات ہو سکتی ہے۔ یہاں مختصرا عرض ہیکہ افراد سازی کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر جد وجہد کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں اس سطح کی محنت اور کوشش نہیں ہو رہی۔
تبدیلی کا پانچواں ماڈل حال ہی میں سامنے آیا ہے اور یہ چوتھے ماڈل ہی کی ایک معکوس صورت ہے۔ چوتھے ماڈل کی حکمت عملی یہ تھی کہ افراد تیار کر کے انہیں بیورو کریسی اور مختلف اداروں میں بھیجا جائے جہاں رہ کروہ نظام کی اصلاح کی کوشش کریں۔ پانچویں ماڈل کی حکمت عملی اس کے برعکس ہے کہ پہلے سے نظام میں موجود افراد کی اصلاح کی جائے اور انہیں اس کام کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ از خود ملک میں اسلامائزیشن اور ریاست مدینہ کی بنیاد رکھیں۔ اس ماڈل کے پیچھے یہ مفروضہ کار فرما ہے کہ حکمرانوں اور نظام میں موجود افراد کے سامنے کوئی واضح منشور نہیں ہوتا اور انہیں جس سمت گائیڈ کیا جائے وہ اس کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کی عمران خان سے حالیہ ملاقاتیں اور ان کے بارے میں بیان اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ حضرت مجدد الف ثانی کی حکمت عملی تھی جس کا احیاء کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ حکمت عملی کیوں اختیار کی گئی اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے ، مقتدر حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے ملک کی دو معروف سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا گیا ، موجودہ سیاسی حرکیات اور ہلچل اسی فیصلے کا نتیجہ ہے ، یہ دونوں سربراہان قید میں ہوں گے یا انہیں ہمیشہ کے لیے نااہل کر کے بہر صورت انہیں سیاسی منظرنامے سے ہٹا دیا جائے گا۔ اور یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری اور نااہلی کے باوجود اسے آگے بڑھایا جائے گا اور "ہمیں آگے بڑھنا ہے "کا نعرہ لگایا جائے گا۔ اس صورت حال کے تناظر میں بعض اہل فکر نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ موجودہ حکومت کی مخالفت کی بجائے اس کو سپورٹ کیاجائے اورحضرت مجدد الف ثانی کی طرز پر ان کی راہنمائی کی جائے۔ مولانا طارق جمیل اور بعض دیگر علماء کی موجودہ حکومت کے بارے میں نرم دلی اسی حکمت عملی جا نتیجہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان بھی کچھ دنوں سے خاموش ہیں اور ممکنہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مولانا فضل الرحمان اور موجودہ حکومت کے درمیان مصالحت کروا دی جائے گی اور آج کے حریف کل کے حلیف بن جائیں گے۔ یہ حکمت عملی کہاں تک کامیاب ہوتی ہے اور اس کے نتائج و ثمرات کیا ہو سکتے ہیں اس پر فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس حکمت عملی کے ناقد وہ لوگ ہیں جو شروع دن سے موجودہ حکومت سے ناخوش اور اسے ناجائز اولاد سمجھتے ہیں ، ان کے نزدیک موجودہ حکومت سے کسی خیر کی توقع خصوصا اسلام کے حوالے سے کسی اچھی خبر کی توقع عبث ہے۔مذکورہ بالا حکمت عملی اپنانے والوں کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان لوگوں نے برائی کے خلاف مزاحمت کرنے کی بجائے ہار مان لی ہے اور برائی سے بھلائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ سب اجتہادی آراء ہیں اور فریقین کو، ایک دوسرے کو اختلاف رائے کا حق بہر حال دینا چاہے۔ یہ تبدیلی کے مختلف ماڈلز تھے جن میں سے بعض آزمائے جاچکے اور اب ایک نئے ماڈل سے امید لگائی گئی ہے۔ اللہ کرے کہ اس کے نتائج مثبت نکلیں اور قوم کسی نتیجے تک پہنچ سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.