ٹی وی ڈرامے!

اتوار 6 جنوری 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ 1980کی دہائی کی بات ہے ، امریکا کے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے رپورٹ شائع کی دنیا میں سب سے مضبوط خاندانی نظام برصغیر ، پاکستان اور اس سے ملحقہ خطوں میں پایا جاتا ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان خطوں میں بسنے والے لوگ آج بھی والدین کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور ان کی موجودگی کو نیک شگون سمجھتے ہیں ۔اس خطے میں دنیا میں سب سے ذیادہ والدین کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اکثر اہم فیصلے ان سے کروائے جاتے ہیں حتی کہ شادی جیسا اہم فیصلہ بھی انہیں سے صادر ہوتا ہے ۔

اس خاندانی نظام کو کیسے تباہ کیا جا سکتا ہے ، اس کے لیے امریکہ میں ریسرچ ہوئی ،باقاعدہ تھینک ٹینک قائم ہوئے اور یہ تجویز پیش کی گئی کہ انڈیا کی فلم انڈسٹری خطے کی ابھرتی ہوئی انڈسٹری ہے ، انڈیا کی بنی ہوئی فلمیں پاکستان، بنگلہ دیش ، عرب ممالک اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک دیکھی جاتی ہیں لہذا یہ کام انڈیا کی فلم انڈسٹری کے ذریعے کروایا جا سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

امریکہ کے ایک نامور ادارے نے اس خطے کے پچیس نامور پروڈیوسرز کو اسکالرشپ کی آفر کی ، انہیں اپنے ہاں بلایا ،فلم میکنگ کی ٹریننگ دی اور اس کے ساتھ ہی اپنا ایجنڈا انہیں تھما دیا ۔ یہ لوگ واپس آئے اور دوبارہ اپنے کام میں جت گئے ۔ نوے کی دہائی میں انڈین پروڈیوسر نے ایک مشہور فلم بنائی جس میں ایک نامور اداکارہ شادی کے معاملے میں اپنے والد سے اختلاف کرتی ہے، والد اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لڑکی اپنی بات پر اڑ جاتی ہے ، پھر ایک ایسا سین دکھایا جاتا ہے جس میں والد اور لڑکی آپس میں بحث کر رہے ہوتے ہیں ، دونوں اونچی آواز میں بولنے لگتے ہیں لڑکی بھی اونچی آواز میں بولنے لگتی ہے ، والد اسے خاموش کروانے کی کوشش کرتا ہے اسی دوران لڑکی طیش میں آکر والد کو ایک تھپڑ رسید کر دیتی ہے ۔

پوری فلم میں یہ سین مرکزی سین ہوتا ہے اور اس کے بعد والد اپنی بیٹی کے سامنے سر جھکا دیتاہے ۔ نوے کی دہائی میں بننے والی یہ فلم اور اس کا یہ سین اس خطے میں ایسی فلموں اور ڈراموں کاتالاب میں پھینکا جانے والا پہلا پتھر تھا ۔ اس کے بعد جتنی بھی فلمیں اور ڈرامے بنے ان میں والدین کی نافرمانی، اپنی مرضی سے شادی اور خاندانی نظام کی تباہی کے سین سرعام دکھانے کا رواج عام ہو گیا ۔

ایک فلم کروڑوں روپے کے بجٹ سے بنتی ہے اور جو لوگ کروڑوں روپے لگاتے ہیں وہ ویسے ہی نہیں لگاتے ، ایک فلم یا ڈرامہ آپ کی پوری سوسائٹی کی رائے بدل دیتا ہے اور موجودہ دور میں فلم اور ڈرامہ رائے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔اس وقت ہمارے سماج کی صورتحال یہ ہے کہ انٹر نیٹ ، موبائل ،سوشل میڈیا ، انڈین فلمیں، پاکستانی ڈرامہ، فحش لٹریچر، عشق و عاشقی پر مبنی فلمیں ، انڈین پنجاب کی پنجا بی فلمیں ، یونیورسٹیوں کا آذادانہ ماحول اورشای بیاہ کے موقعہ پر ناچ گاناان سب خرافات نے پاکستانی سماج کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے ۔

اس ماحول اور بے لگام آذادی سے سب سے زیادہ نوجوان نسل متاثر ہوئی ہے اور اس میں بھی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد مردوں کی نسبت کہیں ذیادہ ہے ۔ اگر آپ فیملی کورٹس کا ڈیٹا دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا لو میرج اور اس کے نتیجے میں طلاق کی شرح زمین سے آسمان پر چلی گئی ہے ۔ اور اگر آپ اپنے ضلعے کے دار الامان کا جائزہ لے لیں تو آپ سر پکڑ لیں گے کہ اتنی ذیادہ تعداد میں لڑکیاں گھروں سے بھا گ کر یا لو میرج کے چکر میں ناکامی کے بعد دار الامان کا رخ کرتی ہیں ۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے اس کی وجہ ہمارا میڈیا، ہماری فلم اور ڈرامہ ہیں ۔ اس وقت ہمارے چینل جس طرح کے ڈرامے دکھا رہے ہیں اور جس طرح کی فلمیں بن رہی ہیں اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہمارا سماج اور خاندانی نظام بکھرتا چلا جا رہا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ ہمارے پرائیویٹ چینل کس طرح کے ڈرامے دکھارہے ہیں ۔ ہم چینل کے ڈرامے ”پاکیزہ “میں طلاق کے بعد بیٹی کے مستقبل کا بہانہ بنا کر طلاق کو چھپایا لیا جاتاہے اوربیوی سابق خاوند کے ساتھ رہائش پذیر رہتی ہے ۔

اے پلس کے ڈرامے ”خدا دیکھ رہا ہے“ میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور جعلی فتوی لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روکے رکھتا ہے جبکہ بیوی اس کے پاس رہنے پرراضی نہیں ہوتی۔اے آر وائی کے ڈرامے ”انابیہ “میں شوہر طلاق کے بعداپنی بات سے پھر جاتا ہے حالانکہ اس طلاق پر اس کی والدہ اور بہنیں گواہ ہوتی ہیں۔ ہم چینل کے ایک اور ڈرامے” ذرا یاد کر“ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لیے بیوی خود شوہر تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے اوردوبارہ پہلے شوہر سے شادی کر سکے، حالانکہ باقاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا ناجائزاور انتہائی قبیح حرکت ہے۔

جیو کے ایک ڈرامے” جورو کا غلام“ میں بیٹا باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتاہے اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے اس کا نکاح کرواتاہے تاکہ دوسرے دن وہ طلاق دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔ہم چینل کے ایک تیسرے ڈرامے” من مائل“ میں لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر ان کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے۔

ہم چینل ہی کے چوتھے ڈرامے” تمھارے سوا“ میں لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوجاتا ہے، اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں ہوتی تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے اپلائی کر دیتا ہے اور اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے۔فلم اور ٹی وی عوام کی ذہن سازی اور رائے بنانے کا ایک موٴثر ہتھیار ہیں اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز کوپاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔

پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور دیہات میں ٹی وی تفریح کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ھے۔ایسے میں پلاننگ کے تحت فلم اور ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، اس طرح کے سوالات اٹھانا اور لوگوں کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا کرنا متعلقہ اداروں کے لیے بہت بڑا سوال ہے ۔کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی ایسابورڈ نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل اس کی منظوری دے۔

حیرت ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلی خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی اور اس پر کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا۔کیا ملکی سطح پرایسی کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو ان نشریات کا نوٹس لے،کیا ہمارے چینلز اور ان کے مالکان اتنی آزاد پالیسی رکھتے ہیں کہ جو چاہیں دکھا ئیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ۔ ایک طرف یہ پاکستانی ڈرامے اور سوشل میڈیا ہے اور دوسری طرف انڈین فلموں کی بھرمار ہے ، پہلے صرف انڈیا کی اردو فلمیں آتی تھیں اب انڈین پنجاب میں بننے والی پنجابی فلموں نے بھی دھماچوکڑی مچا رکھی ہے ۔

آپ پاکستانی پنجاب کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو بچے بچے کی زبان پر ان انڈین پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ نظر آئیں گے ۔ او ر ان پنجابی فلموں کے گانے تو یوں لگتا ہے جیسے ہماری ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں ، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جب تک ان پنجابی گانوں کی دھنیں نہ بجیں کوئی تقریب مکمل نہیں ہو تی۔کیا متعلقہ اداروں اور پاکستان کے مذہبی طبقوں کو ان حالات کا ادراک ہے اور وہ کس حد تک اپنی ذمہ اداکر رہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :