ہم اور خالی نقشے !

پیر 16 ستمبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

 فواد حسین چوہدری اپنی معصوم زبان اوراپنی وزارت کے ساتھ انڈیا کو للکار بھی رہے ہیں ،یہ اس زبان کے ساتھ کشمیر بھی فتح کرنا چاہتے ہیں اور یہ چھ ارب روپے بجٹ کے ساتھ سائنس کی دنیا میں اپنا مقام بھی بنانا چاہتے ہیں۔جبکہ انڈیا اور باقی دنیاکہاں پہنچ چکی ہے یہ سمجھنے کے لیے آپ پندرویں صدی سے قبل اور مابعد دنیا کے نقشوں پر غور کریں ، پندرویں صدی سے قبل دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف تہذیبوں اور سلطنتوں نے راج کیا ہے ، مثلا یونان، چین ، فارس ، ہندوستان اور اسلام ۔

ان سلطنتوں نے پندرویں صدی تک دنیا کے جو نقشے بنائے وہ سب ایک جیسے تھے ، یہ سلطنتیں دنیا کے صرف تین براعظموں سے واقف تھیں ، ایشیا ،ا فریقہ اور یورپ ۔ یہ لوگ جب دنیا کا نقشہ بناتے تو صرف انہی تین براعظموں کو دکھاتے تھے ، نقشے کے باقی حصوں پر کوئی خیالی تصویر یا نقش رقم کر دیا جاتا تھا ۔

(جاری ہے)

سولہویں صدی کے آغاز میں یورپ نئی انگڑائی لے رہا تھا ، نئی ایجادات اور نئی دریافتوں کے جنون نے یورپ کو بے چین کر رکھا تھا ،اس زمانے میں یورپ کے ماہرین ارضیات نے جو نقشے بنائے ان میں خالی جگہیں بھی چھوڑنا شروع کر دیں ،یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دنیا کے یہ حصے ابھی تک انسانی دسترس سے باہر ہیں اور انہیں دریافت کیا جاسکتا ہے ۔

ان نقشوں میں رنگ بھرنے کے لیے یورپی ملاحوں نے بحر ی مہمات کا آغاز کیا ، کولمبس کی مہم بھی اسی جستجو کا نتیجہ تھی وہ الگ بات ہے کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک نئی دریافت کا رنگ بھرنے کے باوجود اس سے بے خبر رہا ۔ کولمبس نئی دنیا امریکہ پہنچنے کے باوجود اس سے بے خبر تھا ،1499سے1504تک ایک اطالوی ملاح امریکو ویسپوچی نے امریکہ کے کئی دورے کیے ، 1502سے1504تک امریکو ویسپوچی کے حوالے سے ان مہمات کی تفصیل یورپ کے اخبارات میں شائع ہوئی ، اس تفصیل میں بتایاگیا کہ کولمبس کی نئی دریافت شدہ زمین مشرقی ایشیا کا ساحل نہیں بلکہ یہ ایک نیا بر اعظم تھا ۔

1507میں ان تفصیلات سے متاثر ہو کر والڈ سی میولر نے دنیا کا ایک نیا نقشہ ترتیب دیا جس میں نئی دنیا کو بھی دکھایاگیا تھا ، والڈ سی میولر اس دنیا کو کوئی نام دینا چاہتا تھا ،ا س غلط فہمی میں کہ امریکو ویسپوچی پہلا فرد تھا جس نے اس براعظم پر قدم رکھا اس نے نئی دنیا کا نام امریکہ رکھ دیا ۔ اس کے بعد دیگر نقشہ نویسوں نے بھی والڈ سی میولر کے نقشے کی نقول تیار کرنا شروع کر دیں اور اس طرح نئی دنیا کا نام ایک غیر معروف اطالوی ملاح کے نام پر معروف ہو گیا ۔

امریکہ کی دریافت یورپی ملاحوں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی ، اس کے بعد یورپ میں بکثرت ایسے نقشے بنے جن میں خالی جگہیں چھوڑی جاتی تھی اور یورپی ملاح مقناطیسی کشش کی طرح ان خالی نقشوں میں رنگ بھرنے کے لیے مہمات کا آغاز کرتے تھے ۔ انہی مہمات کا نتیجہ تھا کہ سولہویں صدی میں یورپی ملاحوں نے بحرا لکاہل اور بحر ہند کو عبور کیا ، نئے سمندری راستے ڈھونڈے ، نئی دنیائیں دریافت کیں اور ہزاروں جزیرے فتح کیے
دنیا میں باوقار انداز میں جینے ، اپنی سرحدوں کی حفاظت اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لیے جدید سائنس ،سول اور وار ٹیکنالوجی ، سیاسی استحکام، تخلیقی ذہانت ، آگے نکلنے کی جستجو اور کچھ نیا دریافت کرنے کا جنون لازم ہے ۔

عین اس وقت جب یورپ نئی دنیائیں دریافت کر رہا تھا چینی منگ سلطنت کے ایڈمرل ژینگ ہی نے سات بڑے بحری جہاز چین سے بحر ہند تک روانہ کیے تھے ، یہ بحری جہاز کولمبس کے جہازوں سے کئی گنا بڑے اور جدید تھے ، ژینگ ہی کے سب سے بڑے بیڑے میں تین سو جہاز اور تیس ہزار ملاح تھے جنہوں نے سری لنکا ، انڈیا ،خلیج فارس ، بحیرہ احمر اور مشرقی افریقہ کی سیر کی تھی، اس کے برعکس کولمبس کے بیڑے میں صرف تین جہاز اور ایک سو بیس ملاح تھے ، یہ ژینگ ہی کے بحری بیڑے کے مقابلے میں مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بحری مہم تھی مگر کیا وجہ ہے کہ ژینگ ہی ناکام ہوا اور کولمبس امر ہو گیا ، ژینگ ہی کو نئی دنیائیں دریافت کرنے اور نئی آبادیات کا شوق تھا اور نہ ہی اسے منگ سلطنت کے حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل تھی ۔

نئے حکمرانوں نے آتے ہی اس بحری مہم کو ختم کر دیا ، دیو ہیکل بحری بیڑا بکھر گیا اوراہم تکنیکی اور جغرافیائی معلومات ضائع ہو گئیں ۔کولمبس اور اس کے حکمرانوں کو نئی دنیائیں دریافت کرنے کی بھوک تھی، نئے علوم حاصل کرنے کا شوق ،کچھ نیا کرنے کا جنون اور دنیا کے وسائل لوٹنے کا خبط تھا، یہ وہ فرق تھا جس نے کولمبس کو لمبس بنا دیا جبکہ ژینگ ہی، ژینگ ہی رہا۔


یورپ کی بحری مہمات ماضی کی تمام مہمات سے مختلف تھیں، گزشتہ مہمات کے فاتحین سمجھتے تھے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور اپنا نکتہ نظر پھیلانے کے لیے علاقوں کو فتح کرتے تھے ، اہل یورپ کا نقطہ نظر مختلف تھا ، وہ خود کو جاہل سمجھتے اور سیکھنے کی غرض سے مہمات میں حصہ لیتے تھے ، یورپ نے جو بھی مہمات بھیجی ان میں ماہرین علم اور سائنس دانوں کو بھی ساتھ روانہ کیا ، نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو اپنے ساتھ 1165اسکالر بھی ساتھ لے کر گیا جنہوں نے فتح کے بعد ”علوم مصری “ کا ایک نیا شعبہ قائم کیا جس نے مذاہب ، لسانیات اور نباتات کے ضمن میں اہم علوم میں اضافہ کیا ۔

1831میں برطانوی بحریہ نے ہیگل نامی جہاز جنوبی امریکہ کے فالک لینڈ اور گالاپا گوس جزائر کی نقشہ سازی کے لیے روانہ کیا ، اس بحری مہم کا کپتان ایک سائنس دان تھا ، اس نے فیصلہ کیا کہ راستے میں ملنے والی مختلف اشیا ء کی جانچ کے لیے ایک ماہر ارضیات کو بھی ساتھ شامل کر لیا جائے ، اس نے کئی پیشہ ور ماہرین کو دعوت دی مگر سب نے انکار کر دیا ، کیمبرج کا ایک بائیس سالہ گریجویٹ جو اینگلیکن پادری بننا چاہتا تھا اس نے یہ آفر قبول کر لی ، اس کا نام چارلس ڈارون تھا ، اس کی ذیادہ دلچسپی ارضیات اور قدرتی سائنس سے تھی ، مہم کے کپتان نے اپنا سارا وقت عسکری نقشوں کی تیار ی میں صرف کیا اور ڈارون نے عمومی اعداد و شمار جمع کیے جس کے نتیجے میں وہ مشہور نظریہ پیش کیا جسے آج دنیا نظریہ ارتقاء کے نام سے جانتی ہے ۔

انیسویں اور بیسویں صدی تک دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں تھاجہاں اہل یورپ نے اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں ۔ بیس جولائی 1969سے قبل نیل آرم سٹرانگ اور بز آلڈرن چاند کی سطح پر اترنے سے قبل مغربی امریکہ میں چاند کے مماثل کسی صحرا میں مشق کر رہے تھے ، یہ علاقہ ریڈ ایڈین کا گڑھ تھا ، ایک مقامی بوڑھا ان خلانوردوں سے ملا اور پو چھا کہ وہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں ، خلا نوردوں نے جواب دیا کہ ہم ایک تحقیقاتی ٹیم کا حصہ ہیں جو بہت جلد چاند پر جانے والی ہے ، بوڑھے نے کہا میرے قبیلے کے افراد کا کہنا ہے کہ چاند پر مقدس ارواح مقیم ہیں آپ میرا ایک پیغام انہیں پہنچا دیں، خلا نوردوں نے بوڑھے کا پیغام اچھی طرح رٹ لیا مگر انہیں اس کا مفہوم نہیں پتا تھا ، وہ واپس اپنے اڈے پر آئے تو ایک مقامی شخص کو ڈھونڈ کر وہ پیغام سنا گیا جس کا مطلب تھا ” یہ لوگ جو کچھ بھی کہیں ان کی کسی بات پر یقین نہ کرنا یہ تمہاری سرزمین پر قبضہ کرنے آئے ہیں “ یہ یورپی مہمات کا وہ غیر شعوری خوف تھا جو انیسویں اور بیسویں صدی کے انسان میں راسخ ہو چکا تھا ۔


یہاں ایک لمحے کے لیے رک کر آپ فواد حسین چوہدری، وزارت سائنس اور چھ ارب روپے پر غور کریں ، ہم ان نابغوں اور چھ ارب روپے کے ساتھ بھارت کو بھی آنکھیں دکھانا چاہتے ہیں اور دنیا میں اپنا مقام بھی دیکھنا چاہتے ہیں ، میرا خیال ہے ہمیں نیپال کے جنگلوں میں جا کر خود کشی کر لینی چاہئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :