یہ ہماری اوقات ہے !

بدھ 7 جولائی 2021

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

پندرویں صدی کی آخری دہائی میں اسپین مسلمانوں کے لیئے اجنبی بن چکا تھا اور سولہویں صدی کے آغاز میں اسپین میں مسلمان نام کی کوئی مخلوق نہیں ملتی تھی ۔ابو عبداللہ شہر کی چابیاں فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے حوالے کر کے اندلس کے پہاڑوں میں غائب ہو چکا تھا ۔اسپین کی فتح نے اہل یورپ پر فتح و کامرانی کے دروازے کھول دیئے تھے اور اب وہ صرف اسپین تک محدودنہیں رہنا چا ہتے تھے،ان کے حوصلے بلند ہو چکے تھے اور اب ان کے لیے چین سے بیٹھنا ممکن نہیں تھا ۔

یہ وہ دورتھا جب یورپ میں تخلیقی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور اسی تخلیق کا ری نے یورپ کو دنیا کا سربراہ بنا دیا تھا ،یورپی جہازراں اسپین کے ساحل سے سمندر میں داخل ہوتے اور واپسی پرکسی نئی دنیا کی خبر لے کر آتے تھے۔

(جاری ہے)

،ان دنوں سمندری سفر کی بڑی اہمیت تھی اور ہر ملک کی کوشش تھی کہ ا پنے جہاز رانوں کو ذیادہ سے ذیادہ سہولیا ت فراہم کرے تاکہ نئی دنیا کی تلاش کی صورت میں اس کے معدنی ،صنعتی اور زرعی ذخائر پر قبضہ کیا جا سکے ،یہی وجہ تھی کہ ان دنوں ڈچ،پرتگالی ،اور فرانسسیسی جہازرانوں میں مسابقہ عروج پر تھا اور ہر جہازراں دوسرے سے آگے نکلنے کی سر توڑ کو شش کرتا تھا ۔

نئی دریافتوں کے عوض جہاز رانوں کو قیمتی جواہرات اورسونے چاندی سے نوازا جاتا تھااور اس کے ساتھ اسے نئی دنیا کے نائب السلطنت کا خطاب بھی دیا جاتا تھا ۔خلافت عثمانیہ نے جب بحیرہء روم پر قبضہ کر کے اہل یورپ کے لیئے ایشیا کے بحری راستے بند کر دیئے تو یورپی جہاز رانوں نے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور ایشیا تک رسائی کے نئے راستے تلاش کر نا شروع کر دیئے ۔

واسگوڈے گاما اس مہم میں کامیاب ہوا اور اس کا یہ کارنامہ ہندوستان کے زوال کا پیغام بن گیا۔اسی عرصے میں کولمبس بھی بحری مہم کے لیئے نکلا اور تقدیر کے تھپیڑوں نے اسے امریکہ کے سنسان جزیروں میں پھینک دیا جہاں سے انسانی تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا ۔ کولمبس ایک طویل سفر کے بعد امریکہ پہنچا تھا اور اسے خود یقین نہیں تھا وہ ایک نئی دنیا تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ،اس بحری مہم کے دوران اسے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا نام سن کر بھی روح کا نپ اٹھتی ہے ،جہاز میں شریک اس کے ساتھی اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے تھے کہ خدا کے لیئے اگر تمہیں اپنا خیال نہیں تو ہمارے بیوی بچوں کا خیال کر لو مگر اسے اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا اس لیئے وہ سب کو تسلیاں دیتا رہا ۔

آپ کے لیئے یہ بات حیران کن ہو گی کہ جب کولمبس نے اسپین کے حکمرانوں کو نئی بحری مہم کی تجویز دی تھی تو اس نے کہا تھا اس سفر اور نئی دریافتوں سے جو نفع حاصل ہو گا اس کا ایک حصہ بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزادکروانے کے لیئے خرچ کرے گا۔ اس نے یہ عہد بھی کیا تھا کہ وہ سات سا ل کے اندر چار ہزار سواروں اور پچاس ہزار پیادوں کی یک فوج بھرتی کرے گا تاکہ وہ بیت المقدس کو آزاد کر وا سکے ۔

سولہویں صدی کے آغازمیں صورتحال یہ تھی کہ اہل یورپ نے ایک طرف ہندوستان میں قدم رکھ دیا تھا اور دوسری طرف پورا براعظم امریکہ ان کی جھولی میںآ گرا تھا ،اب اہل یورپ دو طرف سے دولت سمیٹ رہے تھے،ہندوستان کے مصالحہ جات ،سوتی کپڑا اور قیمتی پتھر ان کا خاص ہدف تھے اور ہندوستان کی کپاس دیکھ کر ان کی رال ٹپکتی تھی۔ دوسری طرف سترھویں صدی کے آغاز تک 180ٹن سونا اور 1700ٹن چاندی امریکہ سے یورپ لا ئی گئی تھی اور یہ وہ دولت تھی جس پر نئے یورپ کی بنیاد رکھی گئے تھی ۔

پہلے انگریز وں نے ہندوستان کو لوٹا اور جب اسے یہ ساری چیزیں امریکہ سے دستیاب ہو گئیں تو اس نے ہندوستان سے ہاتھ کھینچ لیا ۔اب وہ امریکہ میں خود کپاس اگانے لگے تھے ،افریقہ سے دھڑا دھڑ غلا م پکڑ کر لائے گئے اور ان کے خون پسینے سے امریکی زراعت پروان چڑھی ،جب گوروں نے ہندوستان سے مصنوعات خریدنا بند کر دیں تو ہندوستان کا کسا ن اور مزدور کنگال ہو گیا ،پہلے ان کا مال اگرچہ سستے داموں ہی سہی بک تو جاتا تھا لیکن اب ان کی مصنوعات کا کوئی خریدار نہیں تھا۔


گوروں نے اپنی بحری برتری کے لیئے پانچ سو سال پہلے جو پلاننگ کی تھی اس کا فائدہ وہ آج اٹھا رہے ہیں ۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ گوروں نے پاکستان کو اپنی بری اور فضائی قوت کو مضبوط بنانے کے لیئے تو کسی نہ کسی حد تک مدد دی لیکن پاکستانی بحریہ کو صحیح طرح اسٹبلش نہیں ہو نے دیا گیا ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستانی بحریہ کو مضبوط بنا کر بحیرہء عرب میں اپنے لیئے مشکلا ت کھڑی کریں کہ یہاں سے خلیج عرب کو راستہ نکلتا تھا جو ان کو تیل کے چشموں تک رسائی دیتا تھا،انہیں خطرہ تھا اگر پاکستانی بحریہ کو مضبوط ہو نے دیا گیا تو مستقبل میں ان کے لیئے مشکلا ت کھڑی ہو سکتی ہیں اور پاکستان تیل کے چشموں میں سٹیک ہولڈر کی حیثیت اختیا ر کر سکتا ہے ۔

بحیرہء عرب کو چھوڑ کر خلیجی ریاستوں اور مسلم ممالک کی اہم بحری شاہراہوں کو دیکھ لیں سب گوروں کے کنٹرول میں ہیں،جمال عبدالناصرکی طرف سے نہر سوئز کو قومی تحویل میں لینے کے اعلان پر مغربی طاقتوں کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھے تھے وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہو ئے ۔یہ سب کیا تھا ،یہ آج سے پانچ سو سال پہلے ہو نے والی وہ پلاننگ تھی جس کی وجہ سے آج گور وں کے بحری بیڑے اور بحری جہاز ہماری سمندری حدود میں اڑانیں بھرتے ہیں اور ہمیں ان کو پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔

جب گورے یہ ساری پلاننگ کر رہے تھے اس وقت ہمارے آباوٴاجداد کیا کر رہے تھے یہ دکھ بھری داستان پھر کبھی سہی ۔یہ تو بحری قوت کا رونا تھا مگر آنے والا دور فضائی تسخیر کا دور ہے ،اب انسانی قدم زمینی سیارے سے بہت دور نکل چکے ہیں ،انسان فضاوٴں میں اڑتا ہو ا چاند اور مریخ تک جا پہنچا ہے ،مشہور امریکہ سرمایہ دار اور الیکٹرک کاریں بنانے والی مشہور کمپنی ٹیسلاکے مالک ایلون مسک نے سپیس ایکس کے نام سے ایک منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت انسانوں کو مریخ پر بسایا جائے گا۔

اس پروجیکٹ کے تحت سٹار شپ نامی طیارہ بنایا جا رہا ہے جو انسانوں کو مریخ پر لے جائے گا اور اس میں ایک سو افراد کی گنجائش ہو گی ۔ ایلون مسک کا ٹارگٹ صرف مریخ نہیں بلکہ وہ دوسرے سیاروں پر بھی انسانی زندگی کے آثار ڈھونڈنا چاہتے ہیں ۔ اس کے نزدیک ہمارے پاس دو راستے ہیں ، ایک ، ہم ہمیشہ کے لیے اس زمین پر رہیں مگر یہ زمین ایک نہ ایک دن کسی عظیم حادثے سے دوچار ہوجائے گی ، دو ، ہم ایک ایسی تہذیب بن جائیں جو فضاوٴں میں آباد ہو اور ہم دوسرے سیاروں پر گھر بنا سکیں ۔

ایلون مسک کو یقین ہے کہ وہ دوہزار چوبیس تک سٹار شپ کو مریخ کے لیے روانہ کر دے گا اور اس کے بعد دنیا میں ایک نے دور کا آغاز ہو گا ۔
 پہلے ہم سمندری تسخیر کے حوالے سے بے خبر تھے اور گوروں نے سمندری تسخیر سے زمینی سیارے کو جکڑ لیاتھا اور ر آج ہم فضائی تسخیر کے حوالے سے نابلد ہیں ، ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ آنے والے وقت میں کیا ہونے جا رہا ہے اور اسپیس ٹیکنالوجی کے بغیر ہم دنیا میں سروائیو نہیں کر سکیں گے ، فضائی تسخیر کے حوالے سے ہم کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ آپ پاکستانی یونیورسٹیوں میں اسپیس ٹیکنالوجی کی تعلیم سے لگا لیں ، شاید ہی کسی یونیورسٹی میں ڈھب کا کوئی پرگرام چل رہا ہو ، یہ ہماری حیثیت اور یہ ہماری اوقات ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :