پاکستان کا پارلیمانی نظام حکومت

منگل 11 اگست 2020

Muhammad Riaz

محمد ریاض

ریاستی امور کو چلانے کا نام حکومت ہے، اور جن قوائد و ضوابط اور قوانین کے تحت حکومت چلائی جاتی ہے اسکو آئین یا دستور کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت تین طرح کے نظام حکومت چل رہے ہیں، صدارتی نظام، پارلیمانی نظام اور بادشاہت یا آمریت۔
صدارتی حکومت کی بہترین مثال امریکہ کا صدارتی نظام حکومت ہے اور جب بات کی جائے پارلیمانی نظام حکومت کی تو برطانیہ اور بھارت کے پارلیمانی نظام حکومت کو سب سے پہلے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے ، جبکہ نظام حکومت کی تیسری مثال اگر دیکھنی ہوتو سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات، مصر سرفہرست ہیں جن میں یا تو بادشاہت ہے یا پھر آمریت یعنی ڈکٹیٹرشپ کا راج ہے۔


پاکستان کی اگر بات کی جائے تو پاکستان کا نظام حکومت، پاکستان کے وجود 1947 کے بعد سے لے کر آج تک مختلف قسم کے تجربات سے گزرا ہے، کبھی تو یہاں صدارتی نظام رائج رہا، کبھی ٹیکنوکریٹس کی حکومت، کبھی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز کی حکومت ، کبھی پارلیمانی نظام حکومت، کبھی نیم صدارتی نظام حکومت۔

(جاری ہے)


پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند بدنصیب ملکوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی آزادی حاصل کرنے کے بعد ریاستی امور کو چلانے کے لئے اپنا آئین کئی سالوں تک نا بنا سکے۔


1947 سے لے کر 1956 تک نظام حکومت کے مختلف قسم کے تجربات مملکت خداداد پاکستان نے دیکھے، پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں نافظ العمل ہوا جسکے مطابق پاکستان میں صدارتی نظام حکومت قائم ہوا اور سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے ، 1958 میں فیلڈمارشل ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا اور 1958 سے لے کر 1969 ملک میں ایوب خان کا صدارتی و آمریت کا نظام حکومت رہا اسکے بعد 1969سے 1971 تک یحی خان کا صدارتی و آمریت کا نظام حکومت رہا ، ملک دو لخت ہونے کے بعد ذولفقار علی بھٹو کا سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدارتی نظام حکومت تب تک چلا جب تک کہ 1973 کا پارلیمانی نظام حکومت کے لئے بنایا گیا آئین نافظ نہ ہوگیا۔

1973 سے 1977 تک ریاست کا نظام حکومت پارلیمانی طرزکا رہا اسکے بعد جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد ملک 1988 تک اک مرتبہ پھر صدارتی و آمریت کے نظام حکومت کے تحت چلا۔ 1988 سے 1999 تک ریاستی نظام حکومت پارلیمانی طرز کا رہا، 1999 سے 2008تک ملک میں اک مرتبہ پھر جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں آمریت و صدارتی نظام حکومت رہا۔2008 سے 2020ابھی تک پاکستان میں فی الحال پارلیمانی نظام حکومت چل رہا ہے۔


اب اک نظر پاکستان کے پارلیمانی نظام حکومت پر دوڑا لیتے ہیں۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 50 کے مطابق پاکستان کی ایک مجلس شورہ (پارلیمان) ہوگی جوکہ صدر پاکستان اور دو ایوانوں پر مشتمل ہوگی۔پاکستان کی پارلیمنٹ جس کو مجلس شورہ بھی کہا جاتا ہے، درج ذیل پر مشتمل ہے:
 صدر پاکستان
 ایوان زریں (قومی اسمبلی)
 ایوان بالا (سینٹ)
آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 342 ہے ، جس میں272 عام نشستیں یعنی جن پر براہ راست الیکشن کے ذریعہ ممبر اسمبلی کو منتخب کیا جاتا ہے اور 60 خواتین کی مخصوصی نشستیں اور 10 اقلیتوں کی نشستیں ہیں، ان سب نشستوں کی ترتیب درج ذیل ہے:
بلوچستان :         14 عام نشستیں اور 3خواتین کی نشستیں
خیبر پختونخواہ:    35 عام نشستیں اور 8 خواتین کی نشستیں
پنجاب:        148 عام نشستیں اور 35 خواتین کی نشستیں
سندھ:        61 عام نشستیں اور 14 خواتین کی نشستیں
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات:    12 عام نشستیں
وفاقی دارلحکومت:    2 عام نشستیں
آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت ایوان بالا یعنی سینٹ کے ممبران کی کل تعداد 104 ہے جسکی ترتیب درج ذیل ہے:
56سیٹیں:ہر صوبہ کی چودہ سیٹیں جو کہ ممبران صوبائی اسمبلی منتخب کرتے ہیں
08سیٹیں: قبائلی علاقہ کے لئے مخصوص
16 سیٹیں : ٹیکنو کریٹس ۔

۔ہر صوبہ سے 04 سیٹیں
16 سیٹیں: خواتین ۔۔ہر صوبہ سے 04 سیٹیں
04سیٹیں: اقلیتوں کے لئے مخصوص
04سیٹیں: وفاقی دارلحکومت کے لئے مخصوص
آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے لئے مرد ویا عورت امیدوار کی عمر 25 سال ہونی چاہئے، اسکو پاکستان کا شہری ہونا چاہیے اور اسکا نام انتخابی فہرست میں شامل ہونا لازمی ہے۔ تاہم سینٹ کا ممبر بننے کے لئے مرد یا عورت امیدوار کی عمر 30 سال ہونا لازمی ہے۔


پارلیمانی نظام حکومت کا سربراہ وزیراعظم کہلاتا ہے، پاکستان کے چیف ایگزیٹو یعنی حکومتی سربراہ وزیراعظم پاکستان کا انتخاب بھی پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے کیا جاتا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے لئے ممبر قومی اسمبلی ہونا شرط ہے۔وزیراعظم پاکستان کو قومی اسمبلی کا لیڈر آف دا ھاؤس بھی کہا جاتا ہے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ کو اپوزیشن لیڈر کہا جاتا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی یا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کرتے ہیں جبکہ سینٹ کے اجلاس کی صدارت چیرمین سینٹ یا ڈپٹی چیر مین سینٹ کرتے ہیں
پارلیمانی نظام حکومت میں ریاست کے تمام امور چاہے وہ ریاستی سلامتی کے ہو ں یا پھر داخلی، خارجہ امور کے معاملات ، ترقیاتی فنڈ کے معاملات ہوں یا پھر سالانہ بجٹ کے معاملات ، ان تمام امور کے لئے قانون سازی پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔

قانون سازی کے لئے بل قومی اسمبلی کی بجائے سینٹ میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے تاہم سینٹ میں بل کی منظوری کے اس بل کو قومی اسمبلی سے منظور کروانا لازمی ہے۔ تمام بلوں کو دونوں ایوانوں سے منظور کروانا لازمی ہے، تاہم منی بل جسے عرف عام میں بجٹ بل کہا جاتا ہے اس بل کو صرف اور صرف قومی اسمبلی میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن سینٹ منی بل کے لئے اپنی سفارشات بھیجوا سکتی ہے تاہم ان سفارشات کو ماننا یا مسترد کردینا قومی اسمبلی کا استحقاق ہے۔

منی بل یا بجٹ بل کے لئے سینٹ کی منظوری لینا لازمی نہیں ہے۔
 قومی اسمبلی کا بنیادی مقصد قانون بنانا ہے، جب کوئی بل قومی اسمبلی سے پاس ہوجاتا ہے تو اس بل کو سینٹ کی منظوری کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد بل صدر پاکستان کی منظوری کے لئے ایوان صدر بھیج دیا جاتا ہے، صدر پاکستان کی منظوری کے بعد بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یہ قانون پورے ملک میں نافظ العمل ہوجاتا ہے۔


صدارتی نظام حکومت اور پارلیمانی نظام حکومت کے سرسری موازنہ کی اگر بات کی جائے تو سب سے بڑا فرق یہی ہوتا ہے کہ صدارتی نظام حکومت میں ریاست کا صدر پارلیمنٹ سے زیادہ پاورفل ہوتا ہے جب کہ پارلیمانی نظام حکومت میں صد ر اور وزیراعظم کی بجائے پارلیمنٹ زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔
پارلیمانی نظام حکومت میں سربراہ حکومت یعنی وزیراعظم پاکستان اپنے تمام ریاستی امور کے لئے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے۔

پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر حکومتی اور اپوزیشن اراکین کسی بھی بل یا معاملے پر کھل کر بحث کرسکتے ہیں، جبکہ صدارتی نظام حکومت اور آمریت یابادشاہت میں پارلیمنٹ کی بجائے فرد واحد کے پاس بے انتہا اختیارات ہوتے ہیں۔پارلیمنٹ کو Mother of All Institutions بھی کہا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :