اداروں پر کیچڑنہ اچھالیں کچھ تو ا حساس کریں

جمعہ 19 مارچ 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی 4 مارچ کی شام کو انتہائی جارحانہ، دھواں دار اور سلطان راہی اسٹائل کی تقریرنے سب کوپریشان کرکے رکھ دیا،عمران خان نے حفیظ شیخ کی یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کا سارا ملبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سر پہ ڈال لیا۔ ریاست پاکستان کے خودمختار ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان جس کا قیام آئین پاکستان کے آرٹیکل 218 کے ذریعہ سے وجود میں آتا ہے،5 مارچ کو اپنے ہنگامی اور خصوصی اجلاس کے بعد پریس ریلز جاری کردی جسکے مطابق الیکشن کمیشن نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم اور وزراء کے بیانات پر دکھ ہوا‘ملکی اداروں پر کیچڑ نہ اچھالیں‘ کچھ تو احساس کریں‘یہ حیران کن بات ہے کہ ایک ہی روز ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی الیکٹورل میں ایک ہی عملہ کی موجودگی میں جوہار گئے وہ نامنظور جو جیت گئے وہ منظور، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین و قانون کو نظر انداز کر سکتے ہیں اورنہ ترمیم کر سکتے ہیں‘کسی بھی دباؤ میں آئے ہیں نہ ہی آئیں گے۔

(جاری ہے)

الیکشن کمیشن سب کی سنتا ہے مگر وہ صرف اور صرف آئین وقانون کی روشنی میں ہی اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے اور آزادانہ طور پر بغیر کسی دباوکے فیصلے کرتا ہے تاکہ پاکستانی عوام میں جمہوریت کو فروغ ملے۔یہ حیران کن بات ہے کہ ایک ہی روز ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی الیکٹرول میں ایک ہی عملہ کی موجودگی میں جوہار گئے وہ نامنظور جو جیت گئے وہ منظور، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ جبکہ باقی تمام صوبوں کے رزلٹ قبول، جس رزلٹ پر تبصرہ اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے الیکشن کمیشن اس کو مسترد کرتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اگر اسی طرح آئینی اداروں کی تضحیک کی جاتی رہی تو یہ انکی کمزوری کے مترادف ہے نہ کہ الیکشن کمیشن کی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے ہی اداروں کے باہمی لڑائی جھگڑوں اور تصادم سے بھرپور ہے، کبھی صدر اور وزیراعظم کے اختلافات تو بھی وزیراعظم کے ریاست کے دوسرے آئینی اداروں کے سربراہوں سے اختلافات، جن کی بناء پر بہت سے مواقعوں پر ایوان اقتدار کے تخت پر بیٹھے ہوئے اشخاص کو اور کبھی کبھی ریاستی اداروں کے سربراہوں کوخالی ہاتھ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ کر جانا پڑا۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں جہاں اک طرف حکومت وقت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے پاکستان کی تمام بڑی جماعتیں PDM کی صورت میں صف آراء ہیں،وہی دوسری طرف ریاست پاکستان کے چیف ایگزیگٹو یعنی وزیر اعظم پاکستان کا ریاست کے آئینی اداروں سے تصادم کی راہ پر چلنا کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اک آئینی اور خود مختار ریاستی ادارہ ہے۔

عمران خان کی تقریر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری پریس ریلیز کا اگر غیر جانبدارانہ اور بغیر کسی تعصب کے تجزیہ کیا جائے تو وزیراعظم کے عہدہ پر براجمان شخص کی آئین پاکستان سے کم علمی اوربے وقوفی پر رونا آرہا ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک مقام ہے نہ جانے عمران خان کے مشیران اور وزرا کیوں عمران خان کو گمراہ کررہے ہیں. سینٹ کے الیکشن میں پاکستان تحریکِ انصاف کو انکے پارلیمانی عددی اکثریت پر پورے پاکستان میں تمام نشستوں پر کامیابی ملی سوائے اک اسلام آباد کی سیٹ پر۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ اگر عمران خان صاحب اک آدھے دن کی خاموشی اختیار کرتے۔ خان صاحب کی بچگانہ، شکست خوردہ اور سلطان راہی سٹائل کی تقریر کا جواب الیکشن کمیشن نے پاکستان کے آئین میں درج شدہ آرٹیکلز کی روشنی میں دیا۔ حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کچھ باتیں دفتری زبان سے ہٹ کر بھی لکھیں جو کہ شائد اتنی مناسب نہ تھی۔مگر خان صاحب وہ کیا کہتے ہیں کہ اک چپ سو سکھ۔

نجانے اب یہ کس نادان نے وزیراعظم صاحب کو مشورہ دے دیا کہ آپ قومی اسمبلی سے فورا اعتماد کا ووٹ لیکر اک مرتبہ پھر پی ڈی ایم کو شکست دے دیں۔ پی ڈی ایم نے یوسف رضا گیلانی کو جتوا کرجو مقاصد حاصل کرنے تھے وہ انہوں نے حاصل کرلئے، جس کی سب سے بڑی گواہی خود وزیر اعظم عمران خان اور انکی پوری کابینہ کے وزیرو مشیروں کی گھبراہٹ  اور ریاستی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف شدید ترین گولہ باری ہے۔

وہ علیحدہ بات ہے کہ انکی اس گولہ باری کا الٹا نقصان خود حکومت وقت کو اُٹھانا پڑ گیا۔ایک طرف عمران خان صاحب خود کہ رہے ہیں کہ انکے 16  ایم این اے بک گئے، قانون فطرت یہ ہے کہ اگر پی ڈی ایم والے ووٹ خریدنے کی بناء پر قومی مجرم ہیں تو کیا یہ 16 ایم این اے قومی مجرم نہیں ہیں؟  پھر کیا وجہ ہے کہ عمران خان انہی 16 قومی مجرموں سے اعتماد کا ووٹ دینے کی اپیل کررہے ہیں۔

عمران خان نے پارٹی چیرمین کی حیثیت سے تحریک انصاف کے تمام ایم این اے کو ہفتہ کے دن قومی اسمبلی میں پہنچنے کے لئے خط لکھ دیا، خط میں ووٹ سے متعلق رولز کے بارے میں ارکان کو بتایا گیا ہے۔خط کے متن میں کہا گیا کہ 12 بج کر 15 منٹ کے بعد اسمبلی ہال اور چیمبر کے دروازے بند  ہوجائیں گے، جس کے بعد کسی رکن کو اسمبلی ہال میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کی ہدایت کیمطابق تمام ارکان کو اعتماد کے ووٹ کے لئے حاضری یقینی بنانا ہوگی۔عمران خان نے اپنے خط میں کہا کہ عدم حاضری کی صورت میں رکن کیخلاف نااہلی کی کارروائی شروع کی جائیگی، پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی پر یہ اعلامیہ الیکشن کمیشن میں پیش کیاجاسکتا ہے۔متن میں مزید کہا گیا ہے کہ غیرحاضر رکن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت ایکشن لیا جائے گا۔

ایک طرف عمران خان اپنے پارٹی کے ایم این ایز سے اعتماد کے ووٹ بھی مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف دھمکی آمیز خطرات سے بھی آگاہ کررہے ہیں۔نہ جانے عمران خان ایسا کونسا خوف لاحق ہے کہ حکومت کے سب کام چھوڑ چھاڑ کر روایتی سیاست میں مشغول ہوچکے ہیں۔پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے اور اراکین کی مطلوبہ تعداد کو پورا کرنے کی غرض سے وزیراعظم پاکستان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ناشتہ کا انتظام کیا گیا ہے، تاکہ کوئی ممبر قومی اسمبلی ادھر اُدھر گھسک نہ سکے۔

میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق پارلیمنٹ لاجزمیں سخت پہڑے کا انتظام کیا گیا ہے، پارلیمنٹ میں حکومتی پارٹی اور اتحادی اراکین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ہر قسم کے ذرائع استعمال کئے جارہے ہیں۔دوسری طرف اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا ہے کہ کل کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کا کوئی رکن شریک نہیں ہوگا۔

سب سے حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت نے موجودہ سینٹ چیرمین صادق سنجرانی کو دوبارہ چیرمین شپ کے لئے نامزد کردیا، حکمران جماعت اور انکے اتحادیوں کے پاس ابھی بھی سینٹ میں پی ڈی ایم کے برخلاف عددی برتری حاصل نہیں ہے۔کیا یہ کھلی منافقت اور تضاد نہیں ہوگا کہ خفیہ رائے شماری جسکی حکمران جماعت نے ہر فورم پر کھل کر مخالفت کی، اسی خفیہ رائے شماری کے ذریعہ سینٹ چیرمین کی سیٹ جیتنے کے لئے پرعزم ہے۔

اگر بالفرض صادق سنجرانی دوبارہ چیرمین سینٹ منتخب ہوگئے تو کیا اسکو جمہوریت کا حسن کہا جائے گا یا پھر صادق سنجرانی کی جیت کو کرپشن کا نام دیا جائے گا۔اور یہ بات یقینی ہے کہ صادق سنجرانی سادہ اکثریت حاصل اسی طرح کرسکتے ہیں کہ جس طرح کا کرشمہ یوسف رضا گیلانی کی جیت میں سامنے آیا ہے۔ یاد رہے صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے سینٹ میں اپوزیشن کے  64  اراکین بھی کامیاب نہ کرواسکے تھے جبکہ صادق سنجرانی کے حق میں 40 اراکین تھے۔

شاید اسی کو مقافات عمل بھی کہا جاسکتا ہے جو یوسف رضا گیلانی کے معاملہ میں ہوا۔کیا عمران خان صاحب کو صادق سنجرانی کے وقت ہونے والے کرشمہ کی سمجھ نہ آسکی یا وہ سب کچھ حلال و جائز تھا؟  جس وقت چوہدری سرور کو پاکستان مسلم لیگ کے خفیہ ووٹوں کی بدولت سینٹر بنوایا گیا تھا کیا وہ سب کچھ جائز تھا؟
ترمذی شریف کی روایت کے مطابق رسول اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو خاموش رہا اس نے نجات پالی۔

اس کا مطلب ساری زندگی خاموش رہنا نہیں ہے بلکہ جو لایعنی باتیں ہیں، ان سے روکا گیا ہے۔ بے وقوف انسان جب تک خاموش رہتا ہے، اس کی بے وقوفی پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس ایک عقل مند انسان خاموش ہوتا ہے تو وہ غور و فکر کررہا ہوتا ہے۔ جب وہ بولتا ہے تو ذکر کررہا ہوتا ہے اور جب دیکھتا ہے تو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک عقل مند اور بے وقوف انسان میں ٖفرق ہے۔

زبان کے صحیح استعمال پر رسول اکرم  ﷺ نے جنت کی بشارت فرمائی ہے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت کے مطابق رسول  ﷺ نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا غور و فکر کریں اور زبان کے استعمال سے پہلے سوچ لیں کہ ہم زبان سے کیا کہنے جارہے ہیں تو ہم کسی کی دل آزاری سے بچ سکتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ بولنے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کسی کے دل پر تیر تو نہیں چلارہے ہیں یا اس کے ذریعے کسی کی حق تلفی تو نہیں ہورہی۔اللہ کریم مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہر آنے والی مشکلات، آفات سے محفوظ فرمائے، اور حکمرانوں کی صحیح معنوں میں عوام الناس کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :