امپائر کو سوچنا ہو گا

پیر 28 ستمبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

پاکستان کی سیاست انوکھا کھیل ہے۔اس میں کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں۔لیکن امپائر نہیں بدلتا۔امپائر بدل بھی جائے تو اس کا کردار نہیں بدلتا۔اس کھیل میں سب کھلاڑی  امپائر کی حمایت لینے کےلئے سرگرداں رہتے ہیں۔لیکن امپائر کچھ زیادہ ہی سمجھدار ہے۔یہ ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتا۔اس کی حمایت خاص انداز اور منفرد کردار سے ملتی ہے۔

امپائر کی جانب سے جو کردار بھی دیا جاتا ہے۔اس کو احسن انداز سے نبھانا لازمی ہوتا ہے۔ذرا سی بھی اونچ نیچ امپائر کو غصہ دلا سکتی ہے۔اور کھلاڑی کا مستقبل داو پر لگ سکتا ہے۔اس کھیل میں تماشائیوں کو کنڑول میں  رکھنے کےلئے ففتھ جنریشن وار کا طبل بجایا جاتا ہے۔ جو بھی امپائر کے کردار پر انگلی اٹھاتا ہے۔وہ خود ہی کہیں غائب ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ امپائر کی انگلی میں بھی کرشماتی جادوئی طاقت ہے۔

جو نچوانا بھی جانتی ہے۔اور رلانا بھی۔لہذا اس کھیل میں تماشائی صرف  محظوظ ہو سکتے ہیں۔اپنے کھلاڑی کی کارکردگی پر سوال بھی اٹھا سکتے ہیں۔لیکن کھلاڑی کو امپائر کی اجازت اور منشا کے بغیر بدل نہیں سکتے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ مخالف کا حمایتی ہونے کے باوجود سارے کھلاڑی امپائر کے گرد مکھیوں کی طرح بھوں بھوں کرتے رہتے ہیں۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں شاید انھیں بھی بھوں بھوں کرنے سے کوئی مٹھائی کوئی گلاب جامن مل جائے۔

لیکن یہ تو پھر حالات پر منحصر ہے۔کب کیا حالات بنتے ہیں؟ کسی  بھی کھلاڑی کو کسی پوزپشن پر کسی بھی وقت بیٹنگ کےلئے بھیجا جا سکتا ہے۔بعض دفعہ تو اس طرح بھی ہوتا ہے، کہ باؤلر کو اوپننگ پر بیٹنگ کروائی جاتی ہے۔ اور باؤلر سے چھکے لگوائے جاتے ہیں۔لیکن اگر باؤلر تھوڑی سی بھی چالاکی دکھاتا ہے،تو باؤنسر اس کے منھ پر ٹھا کر کے لگتا ہے۔پھر اس کی عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔


یہ کھیل 1951ء سے شروع ہوا تھا۔اور آج تک جاری ہے۔اس کھیل کا پہلا میچ لیاقت علی خاں کے دور میں قادیانیت کے مسئلے پر لاہور میں کھیلا گیا تھا۔جس میں امپائر کے جان نشینوں نے خوب رول پلے کیا تھا۔اور ملک کو بڑے انتشار سے بچایا تھا۔امپائر کا رول صرف کھلاڑیوں تک محدود نہیں ہے۔بلکہ اس ملک کو بچانے کےلئے امپائر کے ساتھ ساتھ امپائر کے خدمت گاروں نے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔


لوگ آج بھی ان خدمت گاروں کو سیلوٹ پیش کرتے ہیں۔اور آج بھی لوگ ان خدمت گاروں کو ملک کا اثاثہ اور فخر سمجھتے ہیں۔اس دھرتی،اس مٹی پر جو پھول کھلے ہیں۔ان کی جڑوں میں خدمت گاروں کا خون شامل ہے۔ عوام کو مسئلہ ان خدمت گاروں سے نہیں ہے۔ بلکہ امپائر سے ہے۔یہاں پر امپائر کوئی ایک شخص مراد نہیں ہے۔بلکہ کئی بڑے بڑے سرخیل جب ملتے ہیں تو امپائر بنتا ہے۔


عوام بھی ملک کی بھلائی چاہتی ہے۔اور یہ خاکسار لیکھک بھی ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ہمارا اختلاف امپائر سے کوئی ذاتی نہیں ہے۔بلکہ ہمارا اختلا ف امپائر کے کردار اور اثرورسوخ سے ہے۔
امپائر ملک کو  اندرونی و بیرونی خطرات سے بچائے۔
یہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت تک محدود رہے
۔ملک کی سالمیت کا ضامن بنے۔ اس کا یہی پیشہ ہے۔ اور وہ اسی میں رہ کر سب کی آنکھوں کا تارا بن سکتا ہے۔

اگر یہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرے گا،تو اس کی ساکھ کو خطرہ ہے۔ کیونکہ اب ہر طرف سے اس کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ ہر سو زباں درازی ہو رہی ہے۔ اب طاقت سے نہ تو انگلیاں کاٹی جا سکتی ہیں۔اور نہ زبانوں کو تالے لگائے جا سکتے ہیں۔لہذا وقت کا تقاضا یہی ہے۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر اعتدال پسندی سے ملک کی تعمیروترقی کےلئے اپنا اپنا کردار ادا کرے۔

اب اگر کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو کھلاڑی سب سے زیادہ ملک کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔ ہر کھلاڑی پردے کے پیچھے امپائر کی حمایت حاصل کرنے کی تگ ودو میں رہتا ہے۔جبکہ پردے کے سامنے وہ امپائر کے خلاف دھبے دھبے لفظوں میں زہر اگلتا ہے۔امپائر سے ملک چلتے ہیں۔ان کے خلاف نفرتیں پیدا کی جائیں تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہاں امپائر سے اختلاف کی گنجائش موجود رہتی ہے۔


نفرت کی نہیں۔لیکن اگر امپائر کا کردار گھٹیا مقام تک پہنچ جائے تو پھر نہ صرف نفرت پنپتی ہے۔
بلکہ یہ نفرت خوانی انقلاب کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔خدا نہ کرے کہ ہمارے ملک میں ایسے حالات پیدا ہوں۔
فیصلے وہی درست ہوتے ہیں۔جو وقت کی نزاکت کو سمجھ کر عین وقت پر کیے جائیں۔اب اگر ماضی کے قصوں کو بھلا کر سیاسی جماعتیں امپائر کو سیاست میں مداخلت سے باز رکھنے کےلئے ایک لائن اور مشترکہ نظریہ پر آمادہ ہو گئی ہیں، تو وہ اس کےلئے سنجیدگی سے لائحہ عمل تیار کریں اور اس پر عمل در آمد شروع کر دیں۔

تاکہ ملک میں آزادنہ طور  پر جمہوریت کے نظام کو نافذ کیا جا سکے۔
کیونکہ جمہوریت ہی ملکوں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اور جمہوریت تو انسان کی فطرت میں ہے۔انسان کبھی بھی طاقت کے زیر سایہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔وہ جان تو دے دیتا ہے۔لیکن کسی آمریت اور جابرانہ نظام میں زندگی بسر نہیں کر سکتا۔حقیقی جمہوریت ہی ملک میں حقیقی ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے۔

جمہوریت تو انسان کو خدا کی طرف سے ملی ہے۔اللہ پاک بھی فرماتا ہے۔دین میں جبر نہیں ہے۔ تو پھر یہاں امپائر کے کردار پر سوال اٹھانے والوں کو کیوں  غائب کر دیا جاتا ہے۔عوام بھی ملک کے وفادرا ہیں۔  سوال اٹھانے والے بھی اس ملک کی بھلائی چاہتے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے۔امپائر کو ان عوامل اور ان پہلوؤں پر سوچنا ہو گا۔یہ ملک کے امن سلامتی اور ترقی کےلئے ضروری ہے۔
گولی اور گالی سے حق کو نہیں دبایا جا سکتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے ہزاروں سالوں کی بڑی حقیقت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :