
غیرت ہے کیا
ہفتہ 31 مئی 2014

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
اس خاتون کا قتل گوکہ غیرت کے نام پر کیاگیا اور آمدہ اطلاعات کے مطابق پروین کی دوسری شادی پر اس کاوالد اور بھائی ناخوش تھے
صاحبو! یہ نہ تو پہلاواقعہ ہے اورنہ ہی اسے آخری سمجھاجانا چاہئے۔ کیونکہ یہ واقعات پہلے بھی جاری تھے اورآئند ہ بھی رہیں گے ۔بنیادی طورپر اسے شعور کی کمی گرداناجاتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات میں صرف ان پڑھ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ لاہور میں ہونیوالا یہ واقعہ واقعی غیرت کے قتل کے زمرے میں آتا ہو لیکن اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں ایسے واقعات کی بہتات ہے اور ان میں شاذ و نادر ہی کوئی واقعہ درست ہو۔
یہ بھی تسلیم کہ موجودہ دور میں عشق ‘محبت کے نام پرجس انداز میں جسموں کاکاروبار جاری ہے وہ قابل مذمت ہی نہیں کریہہ آمیز بھی ہے تاہم ایسے واقعات بھی پاکستان کے ماتھے پر شرمناک دھبہ ہیں۔ اب آتے ہیں دوسری جانب ‘ یہ غیرت ہے کیا؟؟ کوئی انجان شخص کسی کی بہن بیٹی کو چھیڑے‘ یا حالت غیر میں پایاجائے تو پھر لازمی امر یہ ہے کہ والد بھائی والدہ کاخون کھول اٹھتا ہے اوروہ بھی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں یعنی مارا ماری کی حد تک بات جاپہنچتی ہے ۔ اسی طرح سے اگرکوئی خاتون یا لڑکی جانے انجانے میں کسی مرد کے چنگل میں پھنس کر عزت گنوا بیٹھتی ہے اورپھرمجبورا ًیا اپنی خواہش کے مطابق اسی راہ پر چلتی رہے تو پھر اہل خانہ جن میں والد‘ بھائی والدہ یا پھر چچا کزن وغیرہ شامل ہیں اس لڑکی سمیت ذمہ دار مرد کو بھی ٹھکانے لگادیتے ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ ایک جرم کے بدلے کتنا نقصان اٹھاناپڑیگا۔ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کچھ نہ کیاجائے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات لڑکیاں بہکاوے میں آکر یا خوشنما مستقبل کے خواب دیکھتے ہوئے گھر اور گھر کی عزت تک فراموش کردیتی ہیں۔ یہ فعل صرف کنواری لڑکیوں کے ساتھ نہیں بلکہ شادی شدہ اوربال بچے دار خواتین کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ اگر اسی تناظر میں دیکھاجائے تو لاہور ہائیکورٹ کے سامنے قتل ہونیوالی فرزانہ نے بھی یہی کچھ کیا۔تاہم اس نے شادی کے وقت یہ تک نہیں سوچا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اب قانون کے مطابق کاروائی ہوگی‘ فرزانہ کے والد‘ بھائی اورمبینہ طور سابقہ شوہر بھی شکنجے میں جکڑاجائیگا اور رسوائی الگ ‘ یعنی غیرت کے نام پر کئے گئے قتل کے کتنے مضمرات سامنے آتے ہیں
چند سال قبل ہی کا واقعہ ہے کہ ایک لڑکی نے اپنے والد کو شکایت کی کہ کالج سے واپس آتے ہوئے فلاں فلاں لڑکا اسے چھیڑتاہے‘ باپ نے دو دفعہ سمجھانے کاوعدہ کیا لیکن جب بات ہاتھ پکڑنے تک پہنچی تو پھر باپ طیش میں آگیا اوراسی حالت میں اس نے نوجوان کو قتل کرڈالا۔ بدقسمتی سے اس لڑکی کا کوئی بھائی نہیں تھا ۔ والدہ بیمار تھیں‘ جونہی وہ باپ سے ملاقات کیلئے جیل جاتی تو ایک عجیب سی اذیت کاسامنا ہوتا ‘جیل عملہ کی نگاہیں اورپھر محلہ ‘آس پاس کے آوارہ نوجوانوں کی بدتمیزیاں‘ گستاخیاں بھی بڑھ گئیں بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اس لڑکی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی جاتی رہی‘ باپ جیل کی سلاخیں پکڑپکڑکرچیختا روتا رہا کہ ”کاش ا سوقت میں جوش میں آکر یہ جرم نہ کیاہوتا اورقانون کاراستہ اختیار کرتاتوآ ج میری بچی یو ں بے آسرا نہ ہوتی“
بعد کے حالات کاپتہ نہیں کیا ہوا تاہم اس امر سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ایسے واقعات کے بعد پھر کئی گھرانے بھی تباہی سے دوچارہوجاتے ہیں۔ ایک علاقہ میں غیرت کے نام پرقتل وغارت بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں ایک لڑکی لڑکے کو پسند کی شادی کے جرم میں غیرت کے نام پرقتل کردیاجاتا ہے پھر کیاہوتاہے جب دو بھائیوں کو سزائے موت کے عدالتی احکامات موصول ہوتے ہیں توپھر اہل خانہ کو
پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ مقتول گھرانے سے صلح صفائی کی بات ہوتی ہے اورپھر ”ساک “ (بدل میں بچیوں کارشتہ )کی بات ہوتی ہے ۔ اب مقتول کے خاندان پر منحصر ہوتاہے کہ وہ ایک رشتہ قبول کرلے یا دو پر راضی ہوجائے۔ گویا ایک محبت کی شادی کے بدلے زبردستی دو بچیوں کارشتہ‘پھر یہ بھی دیکھئے اس جرم کے بدلے ”ساک“ میں دی گئی بچیوں کے ساتھ عمر بھر سسرال میں کیاہوتاہے ؟ یہ کہانی الگ ہے۔
ہمارا نقطہ نظر محض اتنا ہے کہ اسلامی احکامات کی روشنی میں اگر بچیوں کی پسند کو بھی مدنظررکھاجائے تو زیادہ بہترہوگا نیز ایسے معاملات کا تعلق براہ راست والدین ‘ معاشرہ میں اس لڑکی یا لڑکے سے منسلک لوگوں سے ہوتا ہے ۔ضروری ہے کہ بچوں ‘بچیوں کی محافل‘ دوستانوں پر نظر رکھی جائے نیز اگر کبھی کوئی واقعہ سامنے آئے تو اس کو ملکی قوانین کی روشنی میں طے کیاجائے یقینا جوش میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم زندگی بھر کیلئے پچھتاوا بن جاتاہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.