یہ بات سچ ہے میراباپ کم نہ تھا ماں سے

جمعرات 7 نومبر 2019

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

ماں کے قدموں تلے جنت ہے توباپ جنت کادروازہ ہے ان دورشتوں میں سے کسی ایک کی بھی اہمیت سے انکارناممکن ہے یہ دونوں وہ سایہ داردرخت ہیں کہ جن کی گھنی چھاؤں میں اولادپلتی بڑھتی ہے ۶نومبرکادن میری زندگی کاسب سے بھاری دن کہ جس دن میں میرے والدمحترم کاانتقال ہواباپ ایک ایسا عظیم اورپاکیزہ رشتہ ہے کہ دنیا اورآخرت میں اس کی اطاعت کے بغیر کامیابی کا کاسفرادھورااورناممکن ہے۔

باپ نے حوادثات زمانہ کے تھپیڑوں اورتیزوتندآندھیوں سے پنجہ آزمائی کی ہوتی ہے اولاداگرچہ فہم وفراست کی بلندیوں پرگامزن ہو لیکن اپنے تجربہ کاروجہاندیدہہ باپ کے تجربات اورنصائح سے اگراستفادہ نہیں کرتی توانکی فہم ودانش ان کے لئے تاریک راہ میں ہرگز اجالا نہیں کرسکتی۔

(جاری ہے)

اورپدر ی رہنمائی کے بغیر نہ تو دنیا میں دوراندیشی اورکامرانی حاصل ہوسکتی ہے اور اورنہ ہی آخرت میں کیونکہ ارشاد نبوی ﷺہے ِرِضَاالرَبّ فی رِضاالوَالِدِ وسخط الرب فی سخط الوالدترجمہ۔

باپ کی رضامیں رب تعالی کی رضامندی ہے اورباپ کی نافرمانی میں رب تعالی کی نافرمانی ہے۔
ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺنے باپ کو جنت کادروازہ بتلایا ہے۔سایہ پدری وہ مودت وموانست کا ایسا دبیزپردہ ہے کہ جس کی موجودگی میں غم وآلام کی گرم ہوائیں بھی اپنااثرکھوبیٹھتی ہیں۔
والدکے دل میں اولاد کے لئے محبت کا ایک سمندربیکراں ٹھاٹھے مارتا ہے وہ صبح سے لیکرشام تک خوب محنت ومشقت کرتا ہے اس کی ہڈیاں اپنی اولاد کی خواہشات کی تکمیل کرنے میں پگھل جاتی ہیں لیکن اس کے لب پر حرف شکایت نہیں آتا۔

وہ اپنے جگرگوشوں کی راحت کودیکھ کر اپنے سارے غم بھلادیتا ہے اورہر اگلی صبح ایک نئی امنگ وولولہ لیکر گھرسے نکل پڑتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے پرندے اپنے آشیانے سے ایک لمبی اڑان بھرتے ہیں اورواپسی پراپنی چونچوں اورپنجوں کے اندر اپنے چوزوں کے لئے بہت سی خوراک لئے پلٹتے ہیں ،والد خودسارادن بھوکا رہ کر مشقت اٹھاتا ہے اوراگرکبھی اسے کہیں سے کوئی کھانے کی چیز مل جائے تو وہ اسے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی بجائے اس کو بچا کراپنی اولاد کے منہ میں ڈالتاہے ،باپ کے ہوتے ہوئے اولاد کو کسی چیز کی tention نہیں ہوتی کیونکہ باپ ان کی ساری tentions خود لیتا ہے وہ اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں ہرذمہ داری سے سبکدوش کیے رکھتا ہے۔

وہ گھراورباہر کے سارے کام اپنے ذمہ لیے رکھتا ہے۔لیکن آخر ایک دن یہ ناتواں کندھے اپنے جگرگوشوں کے بارگراں کو اٹھاتے اٹھاتے تھک جاتے ہیں اس کے قوٰی کمزور ہوجاتے ہیں اس کے جسم میں رعشہ ہوجاتاہے یہ بہت نحیف ہوجاتا ہے۔دوسروں کے لئے ساری زندگی سہارا بننے والا خود کسی سہارے کا متلاشی ہوتا ہے لیکن افسوس کے اس کے ناتواں کندھوں کو سہارا دینے والے بہت کم ہوتے ہیں۔

لیکن وہ انمول ضرورہوتے ہیں۔انہی انمول اورقابل صدافتخارسعادتمندوں میں سے میں صرف ایک بیٹے اوربیٹی کا تذکرہ کروں گا کہ جن پرتاریخ اسلامی کو فخر ہے اوریہ ساری انسانیت کے بیٹوں اوربیٹیوں کے لئے نمونہ ہیں۔وہ سعادت مند بیٹا وہی ہے جس کے بارے علامہ قبال نے کہا تھا۔
"یہ مکتب کی کرامت تھی یاکہ فیضان نظر تھا ، سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی"حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے اباحضرت ابراھیم علیہ السلام کی اطاعت وفرمانبرداری کر کے جو لازوال قربانی پیش کی رب کائنات کو وہ ایسی پسند آئی کہ قیامت تک ان مثالی با پ بیٹا کی محبت کو عیدالاضحی کی صورت میں جاری کردیا۔

دوسری سعادت مند بیٹی وہ سیدة نساء الجنة حضرت فاطمہ الزہراہ ہیں کہ جنہوں نے ساری زندگی اپنے ابا سے محبت اوراطاعت گذاری اوردفاع میں بسرکردی اورجب دوجہاں کے سردار ﷺکا سانحہ ارتحال پرملال پش آیا تو یہ اپنے اباجان کی قبر مبارک پرتشریف لے گئیں اورقبر سے مٹی اٹھا کر اپنے ہاتھ میں لی اوربے ساختہ محبت بھرے یہ اشعار پڑے۔مَاذَا عَلٰی مَن شّم تربة احمد،اَن لَایَشْمَّ مدی الزّمان غَوَالِیَا،صْبَّت علیّ مصائب لَواَنَّھا ، صْبَّت عَلی الَایَّام صِرنَ لَیالیاترجمہ۔

جس نے قبر رسول ﷺکی خاک سونگھ لی اگروہ زمانے بھر گراں قیمت عطروں اورخوشبوؤں کو نہ سونگھے تو کوئی نقصان کی بات نہیں۔
مجھ پر میرے ابا جان ﷺکی وفات کی وجہ سے مصائب وآلام کاایسابارگراں آن پڑا ہے کہ اگر یہ دن پر پڑتا تو رات میں تبدیل ہوجاتا۔ حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ابھی صرف پانچ سال ہی کی تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت سیدّہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا اوریوں آپ رضی اللہ عنہا نے شفقت پدری کے علاوہ شفقت مادری بھی اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی اور یقینا آپ چونکہ سب سے چھوٹی اورچہیتی تھیں تو آپ کا اکثر وقت منبع برکات و تجلیات کی آغوش رحمت میں گزرتا تھا۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اپنے ابا جان سے محبت دنیا کے کسی پیمانے سے جانچی نہیں جاسکتی یہ محبت بڑی ہی والہانہ اوربیان سے باہر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اس چاند سی شہزادی سے اتنا پیار تھا کہ آپ علیہ الصلوة والسلام جب بھی کسی سفر پر روانہ ہونے کا قصد کرتے تو پہلے اپنی چہیتی بیٹی کے گھرجاتے اوران سے ملاقات کرکیاپنی آنکھوں کو اپنی لخت جگر کی زیارت سے ٹھنڈا کرتے اورپیار سے ان کی پیشانی مبارکہ پر بوسہ دیتے اوربے مثال بیٹی فرط محبت میں اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل کرتی ایسا معلوم ہوتا کہ باپ بیٹی کی محبت انتہائی جذباتی اور غیر معمولی تھی۔

پھر جب آپ علیہ السلام سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے اپنی لخت جگر کے ہاں جاتے اوردونوں باپ بیٹی اپنی پاکیزہ محبتوں کا تبادلہ کرتے اور یوں اپنی اداسی کو دور کرتے عظیم المرتبت باپ پیغمبرآخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی لخت جگرسے اس قدر محبت تھی کی ایک موقع پر انتہائی جذباتی انداز میں ارشاد فرمایا۔۔"فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے اذیت دے اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے اورجوبات اسے پریشان کرے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے"
 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ابا جان سے غیر معمولی محبت تھی نبوت کے ابتدائی دورمیں ایک دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک بد بخت گستاخ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراقدس پر نعوذباللہ مٹی ڈال دی رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں واپس گھر لوٹے چہیتی بیٹی نے جب اپنے کریم اباصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھی تو پھوٹ پھوٹ کررونے لگی وہ اپنے ابا جان کا سردھوتی جاتیں اورفرط غم میں آنکھوں سے آنسو بہاتی جاتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری لخت جگر صبر کر۔

اللہ رحمٰن و رحیم تمہارے باپ کا حامی و مددگار ہے۔وہ تمہارے والد کو قریش کی دست درازیوں اورایذارسانیوں سے محفوظ رکھے گا۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیجانثار صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہر کٹھن موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا مگر آپ کی اس چہیتی و لاڈلی شیر خداحضرت علی کرم اللہ وجہ کی زوجہ نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی بیماری کے ایام میں اپنی پیاری لخت جگر کو پاس بٹھا کر سرگوشی میں کچھ فرمایاجسے سن کر وہ رونے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ سوگوشی کی جسے سن کر وہ مسکرانے لگیں۔


 دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو اپنے وصال کی خبر دی تھی جسے سن کر وہ روپڑیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلّی دینے کے لئے ارشاد فرمایا فاطمہ بیٹی میرے گھر والوں میں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی اور میں تمہارے لئے کتنا بہترین پیش رو ہوں۔اورکیاتم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار بنو تو اس پر مجھے تسّلی ہوئی اور میں ہنس پڑی۔


 چنانچہ باپ بیٹی کی یہ محبت اتنی شدید تھی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھ ماہ کا قلیل عرصہ زندہ رہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عالم برزخ میں چلی گئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہجر ت کے گیارھویں سال رمضان المبارک میں رات کے وقت ہوئی اور آپ کی وصیت کے موافق آپ رضی اللہ عنہا کو رات کے اندھیر ے میں مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کردیاگیا۔

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں باب السّلام سے داخل ہوکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر درود وسلام پڑھنے کے جونہی ہم باب جبرائیل علیہ السلام سے باہر نکلیں تو بالکل سامنے کچھ ہی فاصلے پر جنت البقیع کا تاریخی قبرستان ہے جس کے داخلی دروازے کی دائیں جانب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری لخت جگر حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبرہے قابل فخر بیٹی کی اپنے والدﷺسے محبت کیسی لازوال تھی کہ جسے اپنے ابا کے بعد دنیا میں رہنا بے معنی نظر آرہا آرہاتھا۔ماں باپ کی خدمت و عظمت ہی وہ زینہ ہے جس پرسوار ہوکر ہم بڑ ی سی بڑی کامیابی کو پاسکتے ہیں اللہ تعالی ہم میں سے ہرایک کواپنے والدین سے ایسی سچی محبت کرنے کی توفیق دے۔آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :