9نومبریوم اقبال

پیر 9 نومبر 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

9نومبر1877ء وہ دن کہ جب سیالکوٹ شہرکواپنی پہچان ملی ۔دنیا کے نقشے پہ یہ ایک شہرکی حیثیت سے توبہت پہلے سے معرض وجودمیں آچکاتھا یہاں سینکڑوں انسان بستے تھے ہردن کسی نہ کسی آنگن میں کوئی پھول کھلتا تھا مگر۹نومبر۱۸۷۷کو سیالکوٹ کے ایک نیک سیرت وخوش بخت انسان شیخ نورمحمدکے آنگن میں جس نورنظرکی آمدہوئی وہ بے مثال تھا ۔وہ اس شہرکا بے تاج بادشاہ ثابت ہوااورصرف آج ہی نہیں قیامت کی صبح تک اسی کے دم بقدم سے یہ اپناوجودباقی رکھ پائے گا اسلیے کہ وہ تومسیحاتھا اس نورنظرکی پیشانی میں علم وحکمت اورسعادت مندی کے آثارنمایاں تھے ۔

آج دنیا اسے مصوّرپاکستان اورشاعرمشرق کے نام سے جانتی ہے ۔اس کی بنیادوں کوجلاء بخشنے والے کوشمس العلماء سے پکارتی ہے۔

(جاری ہے)

اس نے جہاں دیدہ دانشوروں سے شرف تلمذحاصل کیا ۔فلسفے کی گہرائی میں یوں غوطہ زن ہواکے اساتذہ اس کی غیرمعمولی فلسفیانہ لیاقت ومہارت کی داددیتے نہ تھکتے۔اسلئے کہ یہ صرف طالبعلم نہ تھا بلکہ علم خوداس کا طالب نظرآتا تھا ۔

جستجووتفکراس کی طبیعت ثانیہ تھی اس کی پروازکی وسعتیں آسمانوں سے بلندتھیں اسے قصرسلطانی کے گنبدپربھی تسکین نہ ملی اس لئے کہ وہ توشاہین تھا جس کا بسیراصرف چٹانوں پرہی تھا ۔وہ ہروقت کسی گہری سوچ میں گم سُم رہتا تھا وہ شاہین تھا اورشاہین توآزادی کاخوگرہوتا ہے اس لئے وہ اپنی قوم کوغلامی وزندان سے آزادکروانا چاہتا تھا ۔
نہیں تیرانشمین قصرسلطانی کے گنبدپر
توشاہیں ہے بسیراکرپہاڑوں کی چٹانوں پر
اس کی آوازمیں ایک دردتھا جووہ اپنی خوابیدہ قوم کوسناتا اوران کویہ باورکروانے کی کوشش کرتا کہ تم کرگس نہیں بلکہ شاہین ہو اس لئے غفلت وسستی کی چادراتار دو۔

تمہاراجہاں اورہے غلامی میں رہتے ہوئے تمہاری کوئی تدبیروشمشیرکارگرنہ ہوگی اس لئے یقین محکم کو پیداکرواوراپنی منزل پہچانو۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جوہوذوق یقیں پیدا توکٹ جاتی ہیں زنجیریں
بالآخراس کی محنت وجانفشانی رنگ لے آئی اوراس کی قوم نے آزادی کی نعمت حاصل کرلی۔لیکن آزادہونے کے باوجودبہت سے شاہین آج بھی کرگس کی مانندزندگی گذارنے پرتُلے ہوئے ہیں ۔

اقبال ان سے بیزارہے وہ ایسی بے حس آبادی کوویرانے سے تعبیرکرتاہے۔اورانہیں یہ نصیحت کرتا ہے کہ اگرتم نے اپنی حالت کونہ بدلا اورغفلت میں رہے تویادرکھنا تمہاراخدابھی تمہاری پرواہ نہیں کرے گا۔آج امت مسلمہ کواقبال کے نظریات اورسوچ کو اپنانے کی اشدضرورت ہے ۔اقبال نبّاض قوم ہے اس کی شاعری میں محبت ،اخوت ،جذبہ،خودداری،حبّ الوطنی ،بے نیازی،دوراندیشی ،خداترسی ،محبت رسولﷺغرض ایک کامل مسلمان کو جن صفات سے مزین ہونے کی ضرورت وحاجت ہے وہ سب کچھ موجودہے ۔اقبال ایک جہدمسلسل ،امید،ولولے اورمشعل راہ کانام ہے جس کی شمع قیام پاکستان کی نوید تھی اوراستحکام پاکستان کے لئے نسخہ کیمیاہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :