لسانی استعماریت، عالمگیریت اور اُردو

منگل 20 اپریل 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

لسانی استعماریت ایسے عوامل کو سامنے لاتی ہے جس کی بنا پر کوئی مخصوص زبان گلوبل سطح پر دوسری زبانوں پر غلبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد استعماریت نے اپنے مکروہ چہرے کی پلاسٹک سرجری اِس انداز سے کی کہ دنیا نے اِس کے مختلف روپ دیکھے جنھیں تیسری دنیا کے ممالک نے نادانی میں اپنا نجات دہندہ سمجھا۔ استعماریت کی یہ مختلف اشکال بنیادی طور پر بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے مختلف عالمی اداروں کی صورت میں ظہور پذیر ہوئیں۔

1934ء میں برٹش کونسل (British Council)،1944ء میں عالمی بنک (World Bank)، 1945ء میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (International Monetary Fund) اور 1948ء میں ٹیرف اور تجارت پر عمومی معاہدہ (General Agreement on Tariffs and Trade) جس کی موجودہ شکل 1995ء سے عالمی تجارتی ادارہ (World Trade Organization)ہے، ایسے نمایاں عالمی اداروں کی مثالیں ہیں جو استعماریت کی جدید،زندہ، متحرک اور استحصالی اشکال ہیں۔

(جاری ہے)

اطلاقی لسانیات کے شعبہ میں زبانوں کی استعماریت کی طرف باضابطہ توجہ1992ء میں رابرٹ فلپ سن کی کتاب” لسانی استعماریت“ (Linguistic Imperialism)کے منظرِ عام پر آنے سے ہوئی۔ اُس نے لسانی استعماریت کے حوالے سے جو نظریہ قائم کیا وہ بنیادی طور پر جوہان گالتنگ (Johan Galtung) کے نظریہٴ استعماریت(Imperialism Theory)، انتونیو گرامسکی(Antonio Gramsci) کے نظریہٴ سازش(Conspiracy Theory) اور اپنے تصورِ غالب کلچر (Cultural Hegemony) کی بنیاد پر وضع کیا۔


اقتصادی عناصر کے علاوہ استعماریت کے دیگر حربوں میں طاقت، زبان و ادب، سیاسی گٹھ جوڑ، معاشرتی اور ثقافتی انحصاریت نمایاں پالیسی فیکٹرز ہیں۔مقامی ثقافت اور زبان و ادب کتنی ہی خوبیوں کے حامل ہی کیوں نہ ہوں مگر جب استعماریت اپنے حربوں سے اُنھیں کم تر ثابت کردے تو اُنھیں معاشرے میں نارمل سطح پر لانا اور استحکام بخشنا خاصا مشکل امر ہوتا ہے خاص طور پر جب سیاست، حکومت، ادارے اور اشرافیہ استعمار کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائیں۔

برطانوی استعمار کو ہندوستان میں سب سے بڑا ثقافتی مسئلہ زبان کی شکل میں پیش آیا، یہی وہ بنیاد تھی جس کی وجہ سے اُنھوں نے ہندوستان کی کلاسیکی اور دیگر مقامی زبانیں سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ لسانی استعماریت کے مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت مقامی لوگوں کو اُن کی زبان اور ثقافت سے قطعی طور پر جدا کرنا، نوآبادیوں میں یہ تو ممکن نہ ہو سکا مگر انگریزی علم کے ذریعے مقامی زبانوں اور اُن کے ادب و ثقافت کی تفہیم کا جو سلسلہ ہماری اشرافیہ نے استعمار کی مرعوبیت میں شروع کیا، وہ آج تک نہ رک سکا۔


لسانی استعماریت کا ایک بہت بڑا ذریعہ بین الاقوامی انگریزی میڈیم سکول ہیں۔انٹرنیشنل سکول ریسرچ رپورٹ 2021ء کے مطابق دنیا میں اِس وقت ایسے انگریزی سکولوں کی تعداد12100 ہے اور اِس تعداد میں سالانہ چھ فی صد سے زائد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اُن کی فیس سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدن 53 بلین امریکی ڈالر ہے۔اِن انگریزی میڈیم سکولوں میں برطانوی یا امریکی طرز کا نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کا تعلق اُس ملک کے قومی یا مقامی نصاب کے ساتھ دور کا بھی نہیں ہوتا۔

جاپان،پاکستان، بھارت، چین اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کے کئی ممالک میں موجود اِن انگریزی میڈیم بین الاقوامی سکولوں سے جب طلبا فارغ ہوتے ہیں تو وہ عموماً دنیا کی مختلف انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ بعدازاں جب یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ عملی میدان میں آتے ہیں تو اپنی زبان و ثقافت سے اُن کا رشتہ لامحالہ کمزور پڑجاتا ہے۔


پاکستان میں جس طرح ایک قومی زبان کے ساتھ کئی علاقائی زبانیں رائج ہیں بالکل ایسے ہی ایک قومی کلچر کے ساتھ کئی ایک علاقائی کلچرز بھی موجود ہیں اور پاکستانی ادب اُن کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔یہ صورت وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کی عمدہ مثال ہے۔ سکے کا دوسرا رُخ عالمگیریت کا موجودہ بے پناہ غلبہ ہے جس میں دنیا واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے، ایک طرف اشیا و خدمات کو پیدا کرنے والے اور دوسری جانب محض صارفین کی کثیر تعداد جو پیدا کنندہ کی پیدا کردہ طلب کو ہی اپنی طلب سمجھے بیٹھی ہے اور نت نئی اشیا کے خالی استعمال کو ہی ترقی کا معیار مان بیٹھی ہے۔

مغرب کی تقلید میں مشرق مرعوبیت کی حدیں عبور کرتا، یورپ کے تسلط کو اِس قدر قبول کرچکا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اُس کی پیروی کو احسن خیال کیا جاتا ہے۔
عالمگیریت کے غالب اثرات سے بچنا تو اب شاید ہی ممکن ہو مگر عالمگیریت اور مقامیت دونوں کی بیک وقت کچھ خصوصیات کی حامل ایک تیسری اصطلاح”عالمی مقامیت“اب کچھ ادیب اور مفکر استعمال کرنے لگے ہیں جس کا ایک اہم نمائندہ نوم چامسکی ہے۔

یہ عالمی مقامیت نہ خالصتاً عالمگیریت گریز ہے اور نہ ہی عالمگیریت مائل بلکہ یہ دونوں کا امتزاج ہے۔ڈاکٹر ناصر عباس نیرکے خیال میں ہمیں عالمیائی مقامیت کاری کے ضمن میں بھی زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مقامی زبانوں کو صرف اتنی اہمیت دیتی ہے جو اُن کی ناگزیر تجارتی و صارفی ضروریات کو پورا کر سکے۔ یہ انگریزی میں موجود علم کی مقامی زبانوں میں منتقلی کا بیڑا نہیں اٹھاتی۔

عالمگیریت کی اِس موجوہ صورتِ حال میں ادیب جب تک مادی معاملات کو ادب کا براہِ راست حصہ نہیں بناتا، محض شہرت کی ادبی جستجو کافی نہیں ہوگی۔
 جہاں تک اُردو اور عالمگیریت پر مبنی موجودہ معاملات کے تعلق کا ذکرہے تو یہ بات بڑی واضح ہے کہ اُردو کو دیگر زبانوں کی طرح انگریزی کے پیدا کردہ لسانی استعماریت کے چیلنج کا سامنا تو ضرورہے مگر اِس ضمن میں کوئی بہت زیادہ خطرے یا پریشانی والی بات نہیں ہے۔

اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُردو اکیسویں صدی کے موجودہ منظرنامے پر نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی میڈیا کی زبان بھی ہے۔ اُردو نے انٹرنیٹ پر خود کو ایک ترقی یافتہ زبان کے طور پر آشکار کیا ہے اور اِس ضمن میں مختلف اُردو سافٹ وئیرز بھی تیار کیے جاچکے ہیں۔ آج اُردو زبان میں سینکڑوں ٹیلی وژن چینلز کام کر رہے ہیں جو نہ صرف اُردو میں خبریں فراہم کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہیں بلکہ اُردو ادب و کلچر اور اُس سے متعلقہ دیگر علاقائی زبانوں کے ادب و کلچر کی ترویج کے لیے مختلف پروگرامز بھی کامیابی سے منعقد کر رہے ہیں۔

علاوہ ازیں اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں کئی قومی اور بین الاقوامی ادارے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔
علاقائی ادب و ثقافت کو مابعد نوآبادیاتی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو جو روایات استعمار نے قائم کی تھیں، موجودہ کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی صورتِ حال میں فوقیت آج بھی قدرے مختلف شکل میں اُنھی کو حاصل ہے۔ اُن روایات میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کسی خاص زبان جیسا کہ انگریزی اور اُس سے جڑے ادب و کلچر کو بلند تر درجہ دیتے ہوئے قومی یا دیگر علاقائی زبانوں کو کم تر سمجھنا۔

زبان، ادب اور کلچر پر غیر زبان، غیر ادب اور دوسرے کلچرز کے اثرات لازماً ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات ضروری ہے کہ غیر کے اثرات اپنی زبان اور ادب و کلچر کی قیمت پر قبول کیے جائیں یا محض عالمگیریت اور آفاقیت کی بنا پر دونوں کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے اپنایا جائے اور ساتھ ہی دونوں کی کم زوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اُن سے بچا بھی جائے۔ سامراجی طاقتوں کی بنیادیں موجودہ دور میں متزلزل ہو چکی ہیں اور اِس ضمن میں ویت نام کی جنگ، کمبوڈیا اور افغانستان کی صورتِ حال واضح مثالیں ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے مجبوراً عوامی طاقتوں کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیا ہے جس سے علاقائی زبان و ادب اور اُن کی تہذیب و ثقافت پر استعماریت کا رعب لازماً کم ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :