
اُردو تحقیق کا معلم اول
منگل 27 اپریل 2021

محمد عثمان بٹ
(جاری ہے)
اُردو تحقیق کے میدان میں وہ پہلے محقق ہیں جنھوں نے اولین مآخذ کی اہمیت کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا۔ اُنھوں نے اُردو کے کلاسیکی سرمائے کا ازسرنو جائزہ لیا اور پہلے سے موجود اُردو تحقیق کی روایت سے ہٹ کر اُردو کے اُس سرمائے کا تحقیقی و تنقیدی بنیادوں پر مقام متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
اُن کی تحقیق کی خاص بات یہ تھی کہ اُنھوں نے سائنسی اور غیرجذباتی بنیادوں پر اپنے تحقیقی رجحانات کو استوار کیا۔ کلاسیکی اُردو ادب کے مخطوطہ جات اکٹھا کرنے اور اُن کی چھان پھٹک میں اُنھوں نے اپنی عمر گزار دی۔ مخطوطہ شناسی کے فن سے وہ اِس قدر آشنا تھے کہ مخطوطے کو دیکھتے ہی اُس کے کاغذ، سیاہی اور انداز سے اُس کے زمانے کا تعین کرلیا کرتے تھے جو اُن کی تحقیقی و تدوینی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اُردو کے مایہ ناز محقق اور ماہرِ لسانیات حافظ محمود شیرانی 5 اکتوبر 1880ء کو ٹونک،راجستھان،بھارت میں پیدا ہوئے۔ابتدائی عمر میں ہی اُنھوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا اور پھر فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اُنھوں نے مڈل کا امتحان1898ء میں جودھ پورر سے پاس کیا۔اورینٹل کالج لاہور سے 1898ء میں منشی کا امتحان، 1899ء میں منشی عالم اور پھر 1901ء میں اُنھوں نے منشی فاضل کا امتحا ن پاس کیا۔1904ء میں حافظ محمود شیرانی نے Lincoln's Inn Londonمیں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا مگر وہ گھریلو حالات کے باعث اِسے مکمل نہ کر سکے۔4 مئی 1905ء کو اُن کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی جس کا نام اُنھوں نے داوٴد خاں رکھا جسے دنیا آج اختر شیرانی کے نام سے جانتی ہے۔اختر شیرانی جو حافظ محمود شیرانی کے صاحبزادے تھے اُردو کے نامور شاعر تھے۔1908ء میں اُنھوں نے ”لوزک اینڈ کمپنی“ میں مشیر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی۔1913ء میں وہ ہندوستان واپس چلے آئے اور اِسی سال اُنھوں نے یہ ملازمت ترک کر دی۔1922ء سے اُنھوں نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور سے اپنے تدریسی فرائض کا آغاز کیا جہاں وہ اُردو اور فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔1928ء میں اُنھوں نے اورینٹل کالج لاہور سے بطور لیکچرار اُردو ملازمت کا آغاز کیا جہاں وہ 1940ء اپنی ریٹائر منٹ تک تحقیقی و تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔
اُن کی ادبی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے جس میں شاعری، تحقیق، تنقیداور لسانیات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔اُردو زبان کے بارے میں اُنھوں نے ”پنجاب میں اُردو“ کے نام سے ضخیم نظریہ پیش کیا۔اُن کی نمایاں تصانیف میں ”پنجاب میں اُردو“(1928ء)،”مجموعہ نغز(ترتیب و تصحیح)“(1933 ء)،”سرمایہ اُردو“ (1935ء)،”تبصرہ بر خزائن الفتوح امیر خسرو“(1935ء)،”فردوسی پر چار مقالے“(1942ء)،”تنقید شعر العجم“(1942ء)، ”تنقید پرتھی راج راسا“(1943ء)،”خالق باری“(1944ء)، ”مقالات شیرانی“ (1948ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)،جلد اول(1966ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)،جلددوم(1966ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)،جلدسوم(1968ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)،جلد چہارم (1969ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی) ،جلد پنجم(1970ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)،جلد ششم(1972ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “ (مرتبہ مظہر محمود شیرانی)، جلدہفتم (1976ء)،”مکاتیب حافظ محمود شیرانی “(1981ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)، جلدہشتم (1985ء)، ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)،جلد نہم(1999ء) اور ”مقالات حافظ محمود شیرانی “(مرتبہ مظہر محمود شیرانی)، جلددہم(2007ء) شامل ہیں۔مذکورہ تصانیف کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں مضامین و مقالات اور نظمیں شامل ہیں۔حافظ محمود شیرانی کی شخصیت کا یہ خاصا رہا ہے کہ وہ کسی بات کو اُس وقت تک روایت نہیں بناتے جب تک کہ اُس کے ماخذ اور مصادر کو تحقیق کی کسوٹی پر جانچ نہیں لیتے۔اُنھوں نے نہ صرف ہندوستان میں دستیاب کتابوں سے استفادہ کیا بلکہ اپنے یورپ کے قیام کے دوران میں بھی اُنھوں نے وہاں دستیاب مشرقی علوم سے بھرپور استفادہ کیا۔ اُردو تحقیق کے اِس عظیم معمارِ اول نے 15 فروری 1946ء کو اپنے آبائی قصبہ ٹونک میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔
ہندوستان میں غزنوی حکومت قائم ہونے کے کچھ ہی عرصہ میں مسلمان پورے پنجاب میں پھیل گئے۔ پنجاب میں مسلمانوں کے قیام کا یہ عرصہ کم و بیش دو سو سال پر محیط تھا۔ حافظ محمود شیرانی اپنی کتاب”پنجاب میں اُردو“ میں خیال ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے قیامِ پنجاب کے عرصہ میں اُن کے اہلِ پنجاب کے ساتھ گہرے سماجی تعلقات استوار ہوگئے تھے۔ اُردو زبان اُن کے نزدیک اُسی تعلق کی یادگار ہے اور یہ پنجاب میں پیدا ہوئی جس کے بعد یہیں سے وہ دہلی منتقل ہوئی۔ شیرانی صاحب کے مطابق اُردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اِس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے(پنجاب میں اُردو۔ص8)۔اِس حوالے سے تاریخی سطح پر اُنھوں نے دلائل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ لسانی سطح کو بھی شامل کیا ہے۔حافظ صاحب نے اُردو اور پنجابی کے صرفی و نحوی معاملات کو تقابل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اُن کے خیال میں اُردو اور پنجابی دونوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی اور جب سیانی ہو گئی تب اُن میں جدائی واقع ہو ئی ہے۔ (پنجاب میں اُردو۔ص86)رشید حسن خاں کاخیال ہے کہ حافظ محمود شیرانی قدیم مشرقی اندازِ تعلیم اور جدید مغربی اندازِ نظر دونوں سے فیض یاب تھے(ادبی تحقیق۔مسائل اور تجزیہ۔ص110)۔ حافظ محمود شیرانی نے ”پنجاب میں اُردو “ میں کئی پنجابی شعرا کے کلام میں اُردو زبان کے اثرات کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اُن کے تاریخی دلائل سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اُن کی لسانیاتی کاوش سے انکار کرنا مشکل ہے۔ تحقیقی مقالات کے علاوہ ”تنقید شعرالعجم“ اُن کا ایک شاہ کارکام ہے جس میں اُنھوں نے ایسے مقامات کی نشان دہی کی ہے جہاں شبلی نے تحقیقی اُصولوں کو نظرانداز کیا۔ حافظ محمود شیرانی بلاشبہ اُردو تحقیق کے معلمِ اول ہیں جنھوں نے داخلی شواہد کی بنیاد پر تحقیق کی ٹھوس بنیادیں قائم کیں۔ حکیم قدرت اللہ قاسم کا تذکرہ ”مجموعہ نغز“ اُنھوں نے اپنی تحقیقی و تدوینی صلاحیتوں سے ترتیب دے کرایک اہم کام انجام دیا۔ امیر خسرو سے منسوب مثنوی ”خالقِ باری“ پر تحقیق کرتے ہوئے وہ اُس کے داخلی شواہد کی بنیاد پر سامنے لائے کہ یہ امیر خسرو کی نہیں بلکہ ضیاء الدین خسرو کی تصنیف ہے۔ آج اُردو تحقیق کے معماروں کو ضرورت ہے کہ وہ حافظ محمود شیرانی کے تحقیقی کارناموں کو آگے بڑھائیں اور اُردو تحقیق کے دامن کو وسیع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عثمان بٹ کے کالمز
-
ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ آخری قسط
جمعہ 4 جون 2021
-
ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 3
بدھ 2 جون 2021
-
ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 2
پیر 31 مئی 2021
-
ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 1
ہفتہ 29 مئی 2021
-
ڈاکٹر خالد حسن قادری: Rough Notes on Urduکے تناظر میں
جمعرات 27 مئی 2021
-
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں۔ایک عظیم استاد، محقق اور ماہرِ لسانیات
ہفتہ 22 مئی 2021
-
ڈاکٹر سہیل بخاری۔اُردو کی دراوڑی بنیاد
جمعرات 20 مئی 2021
-
ڈاکٹر عطش درانی۔اُردو اطلاعیات کا بنیاد گزار
منگل 18 مئی 2021
محمد عثمان بٹ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.