پروفیسر سید احتشام حسین۔ایک کلاسیکل ترقی پسند نقاد

بدھ 5 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

احتشام حسین کو ترقی پسند نقادوں میں امتیاز حاصل ہے چوں کہ وہ اُردو کی کلاسیکی ادبی روایت کے احترام کے ساتھ اپنی ترقی پسند، مارکسی اور سائنسی تنقید کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اِسی لیے میں اُنھیں کلاسیکل ترقی پسند نقاد کہتا ہوں۔بیسویں صدی کے مایہ ناز ترقی پسند نقاد، مترجم،شاعر، افسانہ نگار اور ماہرِ علمِ زبان سید احتشام حسین 21 اپریل1912ء کوماہل، اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اُنھوں نے روایتی انداز میں گھر اور مکتب میں حاصل کی۔ پرائمری اور ہائی سکول کے امتحانات اُنھوں نے بالترتیب ماہل پرائمری سکول، اعظم گڑھ اور ویسلی ہائی سکول ، اعظم گڑھ سے پاس کیے ۔انگریزی کی تعلیم کا آغاز اُنھوں نے علی گڑھ سے کیاجہاں سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔

(جاری ہے)

علی گڑھ سے وہ الٰہ آباد چلے گئے جہاں اُنھوں نے گورنمنٹ کالج، الٰہ آباد سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔

پھر الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کا امتحان نمایاں پوزیشن سے 1936ء میں پاس کیاجس پر اُنھیں”اقبال گولڈ میڈل“ (ایم اے اُردو کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر) اور ”چنتا منی گولڈ میڈل“ (یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر) دو گولڈ میڈلز سے نوازا گیا۔ اپنی ملازمت کے سفر کا آغاز اُنھوں نے لکھنوٴ یونیورسٹی کے شعبہٴ اُردو اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے جولائی 1938ء میں کیا جہاں وہ1961ء تک درس و تدریس سے منسلک رہے۔

نومبر1961ء میں وہ صدر شعبہٴ اُردو کی حیثیت سے الٰہ آباد یونیورسٹی میں چلے آئے جہاں وہ اپنی وفات تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔الٰہ آباد یونیورسٹی میں وہ مجلس انتظامیہ کے رکن اور اعزازی لائبریرین بھی رہے۔ ادب و لسان کے اِس عظیم استاد اور نقاد کا انتقال یکم دسمبر1972ء کو حرکتِ قلب بند ہوجانے سے الٰہ آباد میں ہوا۔
 اپنے ادبی سفر کا آغاز اُنھوں نے1932ء میں کیا ،جب اُن کے دو اولین اُردو افسانے ”ایثار“ اور ”لاجونتی“ سامنے آئے ۔

یہ دونوں افسانے ”نگار“، لکھنوٴ میں شائع ہوئے۔ اُسی دور میں اُنھوں نے سیاسی اور سماجی مضامین لکھنے کا آغاز بھی کردیا تھا۔ اُن کے دو اولین مضامین ”وزیرِ اعظم انگلستان کا فیصلہ ثانی“ (1932ء) اور ” غالب کا فلسفہٴ عشق“ (1934ء) ہیں۔ اُن کے نمایاں شاگردوں میں ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر شارب ردولوی، ڈاکٹر شمیم حنفی، ڈاکٹر شمیم نکہت ، ڈاکٹر حسین محمد جعفری، ڈاکٹر سید محمود الحسن رضوی، قاضی عبدالستار، چودھری محمد نعیم، عالیہ عسکری، عطیہ شاہد خان، سہیل عابد، آغا سہیل، اقبال مجید، حسن عابد، احراز نقوی، درگا پرشاد اور حسن کمال جیسے بلند پایہ نام شامل ہیں۔

اُن کے مضامین کے مجموعوں میں ”تنقیدی جائزے“ (1944ء)، ”روایت اور بغاوت“ (1948ء)، ”ادب اور سماج“ (1948ء)، ”تنقید اور عملی تنقید“ (1952ء)، ذوقِ ادب اور شعور“ (1955ء)، ”اُردو کی کہانی“ (1956ء)، ”تنقیدی نظریات(حصہ اول،مرتبہ)“ (1958ء)، ”عکس اور آئینے“ (1963ء)، ”افکار و مسائل“ (1963ء)، ”تنقیدی نظریات(حصہ دوم، مرتبہ)“ (1965ء)،”اعتبارِ نظر“(1965ء)، ”اُردو لسانیات کا مختصر خاکہ“ (1977ء)، ”جدید ادب: منظرا ور پس منظر“ (1978ء) اور دیگر تصانیف،انتخاب اور تراجم میں ”ہندوستانی لسانیات کا خاکہ(مبسوط مقدمے کے ساتھ ترجمہ)“ (1948ء)،”جوش ملیح آبادی: انسان اور شاعر“ (1958ء)،”گنجی کی کہانی (جاپانی ناول کا ترجمہ)“ (1971ء)، ”سلکِ گوہر(انتخاب)“ (1974ء) اور ”انتخابِ جوش“ (س ن) شامل ہیں۔

1954ء میں اُنھوں نے امریکا اور لندن کے سفر کیے جہاں سے واپس آکر اپنے مشاہدات پر مبنی کتاب ”ساحل و سمندر“ کے عنوان سے 1955ء میں شائع کی۔ اُن کا شعری مجموعہ”روشنی کے دریچے“ کے عنوان سے اُن کے بیٹے ڈاکٹر جعفر عسکری نے 1973ء میں مرتب کرکے شائع کیا۔
سید احتشام حسین ترقی پسندی کے حوالے سے اپنا انفرادی تصور رکھتے تھے۔اُن کے خیال میں ترقی پسندی ایک تاریخی حقیقت ہے جسے معاشی یا معاشرتی تبدیلیوں کی روشنی میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

”تنقیدی جائزے“ میں اُنھوں نے اُردو ادب میں ترقی پسندی کی روایت، نئی شاعری کے نقاد، ادب اور اخلاق، نئے ادبی رجحانات، قدیم ادب اور ترقی پسند نقاد، مواد اور ہئیت، سوانح نگاری، سحرالبیان پر ایک نظر، نظیر اکبر آبادی اور عوام، چکبست بہ حیثیت پیامبر دورِ جدید، فانی بدایونی، اور ہندوستانی تہذیب کے عناصر پر بات کی ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ ادب مقصد نہیں ذریعہ ہے، ساکن نہیں متحرک ہے، جامد نہیں تغیر پذیر ہے۔

اُسے تنقید کے چند مقررہ فرسودہ اُصولوں اور نظریات کی مدد سے سمجھا نہیں جا سکتا۔ ”روایت اور بغات“ کے ضمن میں اُنھوں نے ادبی تنقید کے مسائل، افسانہ اور حقیقت، روحِ اقبال پر ایک نظر، اقبال بہ حیثیت شاعر اور فلسفی، ناول اور افسانے سے پہلے، جدید اُردو شاعری اور سماجی کشمکش، اُردو ادب دوسری جنگِ عظیم کے بعد، کرشن چندر کی افسانہ نگاری، یوپی میں اُردو نثر، اُردو ادب میں مہاتما گاندھی، جدید روسی ادب کا نظریاتی ارتقا، اور نیا ادب اور ترقی پسند ادب جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔

اپنے تنقیدی مضامین کے تیسرے مجموعے ”ادب اور سماج“ میں اُنھوں نے افسانوی ادب کی اہمیت، اُردو کا لسانیاتی مطالعہ، اُردو ادب میں آزادی کا تخیل، جدید اُردو ڈراما، خوجی۔ایک مطالعہ، مسلمان اور ہندی، غالب کی بت شکنی، فرقہ پرستی اور ادیب، ادیب، حب الوطنی اور وفاداری، اور حالی اور پیرویٴ مغربی جیسے مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔ ”تنقید اور عملی تنقید“ میں اُنھوں نے ادب میں طنز کی جگہ، افسانے میں نفسیات کا عنصر، شعر فہمی، غالب کا تفکر، حالی کا سیاسی شعور، اکبر کا ذہن، اقبال کی رجائیت، پریم چند کی ترقی پسندی، حسرت کی غزلوں میں نشاطیہ عنصر، حسرت کا رنگِ سخن، اختر شیرانی کی رومانیت، سجاد ظہیر۔

ادیب کی حیثیت سے، علی سردار جعفری۔رومان سے انقلاب تک، اور مجاز کی شاعری میں رومانی عنصر کو جگہ دی ہے۔ وہ محض ادب پاروں کے لفظی و معنوی تجزیے اور تشریح کو علمی تنقید نہیں کہتے بلکہ سارے تنقیدی عمل کو جو کسی تنقیدی نقطہٴ نظر کے ماتحت ہو،اُسے عملی تنقید کہتے ہیں۔
”ذوقِ ادب اور شعور“ کے حوالے سے اُنھوں نے میں کیوں لکھتا ہوں؟، ادب اور تہذیب، اُردو ناول اور سماجی شعور، ادب میں جنسی جذبہ، معاشرے کی افادیت، ادب کا مادی تصور، غالب کے غیر مطبوعہ خطوط، زبان اور رسمِ خط، اور پاکستان میں اُردو جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔

”اُردو کی کہانی“ میں اُنھوں نے اُردو زبان کے آغاز و ارتقا سے متعلق مختصر بحث کرنے کے بعد اٹھارھویں اور انیسوں صدی کی شاعری اور نثر سے متعلق تنقیدی مضامین شامل کیے ہیں اور آخر کے چار مضامین میں بیسویں صدی کے نئے ادب کو موضوع بنایا ہے۔ یہی کتاب 1965ء میں ”داستانِ اُردو“ کے نام سے شائع ہوئی اور اِسی کا اضافوں کے ساتھ ایڈیشن ”اُردو ادب کی تنقیدی تاریخ“ کے عنوان سے 1983ء میں شائع ہوا۔

”عکس اور آئینے“ میں اُنھوں نے مسائلِ ادب کے ساتھ ساتھ کچھ ادب پاروں پر تنقیدی نقطہٴ نظر واضح کیا ہے۔ ”افکار و مسائل“ کے عنوان سے احتشام حسین نے اپنے مضامین کو قومی وحدت، نقوشِ ادب اور تاثرات جیسے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ”اعتبارِ نظر“ میں امریکی تنقید کے چند پہلو، اودھ کی ادبی فضا، ادب اور جمود، اُصولِ نقد، اور ماضی کا ادب اور نئے تنقیدی ردعمل جیسے نمایاں مباحث شامل ہیں۔

”اُردو لسانیات کا مختصر خاکہ“ میں زبان اور لسانیات کے بنیادی مباحث، دنیاکی مختلف زبانیں اور ہند آریائی زبانیں، اور اِس کے علاوہ دکن، گجرات اور شمالی ہند میں اُردو کے ارتقا پر مضامین شامل ہیں۔ سید احتشام حسین کی وفات کے بعد اُن کے صاحب زادے نے ”جدید ادب: منظر اور پس منظر“ کے عنوان سے احتشام صاحب کے اُردو کے قدیم اور جدید ادب پر تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب مرتب کرکے شائع کی۔ احتشام حسین کی تنقید میں ترقی پسند ادب کی وہ شدت نہیں جو ادب کو ادب نہیں بلکہ پراپیگنڈہ بنا دیتی ہے۔ وہ ادب پرعموماً تاریخی اور سیاسی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہیں جس کی بنا پر اکثر اپنی تحریروں میں ادب اور غیر ادب کے فرق کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :