وقف املاک ایکٹ 2020.... تحفظات وخدشات‎

منگل 13 اکتوبر 2020

Mujahid Khan Tarangzai

مجاہد خان ترنگزئی

گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وقف املاک بل 2020پیش کیا گیا اور پارلیمانی روایات اور طے شدہ طریقہ کار کے برعکس بڑی عجلت سے بل پاس کرلیا گیا اور اسے ایکٹ بنادیا گیا۔ اس ایکٹ پر دینی حلقوں اور رفاہی اداروں کے شدید تحفظات ہیں۔ اور بتایا جارہا ہے کہ اس کے اثرات پاکستان کے مستقبل، نئی نسل خاص طور پر دینی اور رفاہی وفلاحی خدمات سر انجام دینے والوں کو ہمیشہ بھگتنے پڑیں گے۔

اس بل کا اصل محرک مالیاتی حوالہ سے بین الاقوامی ادارے اور خصوصاً ایف اے ٹی ایف (FATF)کی ہدایات پر یہ ایکٹ بنادیا گیا ہے۔ یعنی قانون سازی کی اتھارٹی پارلیمنٹ کے بجائے ایف ٹی ایف یا بیرونی قوتوں کے ایماء پر ہم نے اسلامی تعلیمات، مدتوں سے جاری روایات کو بھی پامال کیا۔

(جاری ہے)

گویا ہم نے اس بیرونی ایحنڈے کی تکمیل کیلئے خود اپنے وطن کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔


 مدارس اور رفاحی وفلاحی اداروں کے نظام کو علماء و رفاحی اداروں کے سر براہان کے مشاورت سے بہتر بنانے کی بات اور دہشت گردی کی مالی معاونت یا منی لانڈرنگ کی روک تھام اُصولی باتیں ہیں اور اس سے کوئی پاکستانی بھی اختلاف نہیں کرتا، خاص طور پر موجود ہ عالمی حالات میں اس قسم کے معاملات کی روک تھام اور مالی معاملات کو جتناشفاف
 بنایا جاسکتا ہے ضرور بنانا چاہیئے لیکن اس معمولی سے بات کی آڑ میں وقف کے پورے نظام کو مہندم کردینا، شخصی آزادلوں کو سلب کرلینا اور پاکستان کے آئین کے منافی قانون سازی کرلینا اور پاکستان میں مدتوں سے جاری تعلیمی، رفاہی اور دینی کاموں کا سلسلہ بند کردینا حیران کن اور ناقابل فہم ہے۔

وقف ایکٹ آسان لفظوں میں وقف کا تصور ختم کرنے کی کوشش ہے۔ وقف کے تصور پر قائم اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیئے شکنجہ اور معاشرے کی فلاح وبہبوداور دینی خدمات میں مصروف عمل لوگوں کے لیئے زندگی اور جینے تک کو مشکل بنانے کی ایک کوشش ہے۔ بظاہر تو آج ایف اے ٹی ایف (FATF) کابہانہ بناکر یا دیگر عوامل کا عذر پیش کرکے ایک قانون بنالیا گیا۔

لیکن یاد رکھیئے یہ صرف ایک قانون نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ ایسے قوانین بڑی منصوبہ بندی اور ہوشیاری سے بنائے جا ئنگے اورپاکستان میں جاری دینی کاموں اور رفاہی، وفلاحی سر گرمیوں کا جب چا ہے گلا گھونٹنے کیلئے استعمال کرینگے۔
حکومت خود تو دینی حلقوں اور فلاحی ورفاہی اداروں کی معاونت نہیں کرسکتی اور نہ کرسکے گی مگر جاری دینی کاموں اور رفاہی سر گرمیوں پر بھی قدغن لگانے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں۔

حکومت کا یہ حال ہے کہ وزرات اوقاف کے تحت چند مساجد کے بل ادا نہیں کر پاتی اور نہ ان کے انتظام وانصرام کو سنبھال رہی، جبکہ عوام الناس اپنی مدد آپ کے تحت سارے دینی سلسلوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اس وقف ایکٹ اور اس سے ملتے جلتے قوانین کے ذریعے ان تمام سلسلوں کو جڑ سے اکھا ڑ پھنکنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔
اس ایکٹ کے حوالے سے قانونی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ پہلے درجہ میں اسلام آباد میں اور وہاں یہ تجربہ کامیاب ہونے کے بعد ملک بھر میں اس قانون کا دائرہ پھیلا یا جائے گا، جس سے پوری ملک میں مساجد ومدارس اور وقف اداروں کا بنیادی ڈھانچہ یکسر تبدیل ہوکر رہ جائے گا، اور سرکاری یا پرائیویٹ ہر قسم کے اوقاف اور ان پر قائم ادارے براہ راست انتظامیہ کے کنٹرول میں چلے جائیں گے، نیز پرائیویٹ مساجد ومدارس کا سلسلہ بھی انتظامیہ کے رحم وکرم پر ہوگا۔

اگر اہسا ہوا تو یہ پاکستان میں مساجد ومدارس اور رفاہی اداروں کے بارے میں عالمی استعمار کے اس مبینہ ایجنڈے کی تکمیل کا فیصلہ کن قدم ہوگا جس سے ڈیڑھ سو سال سے دینی تعلیم وعبادت کا جو نظام آزادانہ کردار ادا کررہا ہے وہ خدا نخواستہ باقی نہیں رہے گا۔
اس ایکٹ یعنی وقف املاک بل 2020کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1) وفاق کے زیر اہتمام علاقوں میں مساجد وامام بارگاہوں کیلئے وقف زمین چیف کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہوگی اور اس کا انتظام وانصرام حکومتی نگرانی میں چلے گا۔


2) حکومت کو وقف املاک پر قائم تعمیرات کی منی ٹریل (آمدن وخرچ) معلوم کرنے اور آڈٹ (احتساب) کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
3) وقف زمینوں پر قائم تمام مساجد، امام بار گاہیں اور مدارس وفاق کے کنٹرول میں ہوں گے۔
4) وقف املاک پر قائم عمارتوں کے منتظم منی لا نڈرنگ میں ملوث پائے گئے تو حکومت ان کا انتظام سنبھال لے گی۔
5) قانون کی خلاف ورزی پر ڈھائی کروڑ جرمانہ اور پانچ سال تک سزا ہوسکے گی۔


6) حکومت چیف کمشنر کے ذریعے وقف املاک کے لیے منتظم اعلیٰ تعنیات کرے گی۔
7) منتظم اعلیٰ کسی خطاب، لیکچر یا خطبے کو روکنے کی ہدایات دے سکے گا۔
 8) منتظم اعلیٰ قومی خود مختاری اور وحدانیت کو نقصان پہنچانے والے کسی معاملے کو بھی روک سکے گا۔
9) خطبے یا تقریر کی شکایت کی صورت میں چھ ماہ تک قید رکھا جاسکتا ہے، جس کیلئے وارننگ کی ضرورت ہوگی۔

چھ ماہ تک اس کی ضمانت ہوگی نہ عدالت مداخلت کرسکے گی۔جرم ثابت نہ ہو اتو چھ ماہ بعد رہائی ملے گی مگر اس حبس بے جا پر سوال نہیں کیا جاسکے گا۔
10)مسجد اور مدرسے کو چلانے والی انجمن کے تمام عہدیداروں کی مکمل ویر یفیکیشن (تصدیق) ہوگی اور ان کا ٹیکس ریکارڈ بھی چیک کیا جائے گی۔“
11) مسجد اور مدرسے کو زمین یا فنڈ دینے والے اپنی منی ٹریل بھی دے گا کہ اس نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی۔


12) مسجد اور مدرسہ کسی وقت اخراجات، فنڈنگ کرنے والوں کی تفصیل یا منی ٹریل نہ دے سکے گی تو وہ عمارت حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔“
اس ایکٹ کے خلاف تمام مکاتب فکر کے متحدہ پلیٹ فارم تحریک تحفظ مساجد ومدارس نے گزشتہ رو اجلاس طلب کیا تھا اور تمام مکاتب فکر کے قائدین نے وقف املاک ایکٹ کو شریعت اسلامی اور آئین پاکستان کے منافی ومداخلت فی الدین قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔

اور اس ایکٹ کے خلاف مشترکہ جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کردیا۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے بل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وقف املاک بل جو قومی اسمبلی نے جلدی میں پا س کیا ہے، اس کے کئی حصے شریعت کے بالکل خلاف ہیں اور کئی حصے آئین سے متصادم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوانین وقف املاک کے اصل مقاصد کے لیئے مضر اور کرپشن کا نیا دروازہ ہیں۔

سینٹ کے ارکان اور صدر مملکت اسے منظور کرنے سے پہلے علماء اور اسلامی نظریاتی کونسل سے ضرور رجوع کریں۔“
وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ مولانا حنیف جالندھری نے لکھا ہے کہ وقف ایکٹ 2020کی جس دفعہ، جس پیرے کو پڑھے، حیرت ہوتی ہے، افسوس ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہم اپنے دین، اپنی قوم، اپنے ملک اپنی نسل نو اور اپنے مستقبل کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں اور اس ملک وقوم کو کدھرلے جانا چاہ رہے ہیں۔

اگر کوئی اس ملک کا خیرخواہ ہے، کسی میں ذرا بھی خدا خوفی موجود ہے، کسی میں ذرا بھی احساس کی کوئی رفق باقی ہے تو خدارا اس بل کو واپس لیجئے، اس کو واپس کروانے میں کردار ادا کیجئے، اس تلوار کو اس شکجنے کو اپنے مستقبل سے ہٹا لیجئے۔۔۔ نہیں تو یا د رکھیئے ”لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزا پائی“۔۔۔
مفکر اسلام علامہ ذاہد الراشدی صاحب بل کے حولاے سے تنبہیہ کرتے ہوئے فرما تےہیں کہ ”اس موقع پر دینی وعلمی حلقوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کے بارے میں خاموشی درست نہیں ہے، اس کا قانونی، معاشرتی اور فقہی طور پر جائزہ لینا اور مبینہ خدشات وخطرات کا ادراک کرنا ضروری ہے تاکہ دینی مکاتب فکر کی مشترکہ رائے سامنے آئے اور اگر فی الواقع یہ قانون ملک وقوم کے لیئے نقصان دہ ہے تو اس کے سدباب اور روک تھام کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کیا جائے“۔


بہر حال میری ریاست مدینہ کے طرز پر حکمرانی کے دعوے پر چلنے والی حکومت سے گزارش ہے کہ شریعت اسلامی اور آئین پاکستان کے منافی اس بل کو فوراً واپس لے لیا جائے یا اس پر علماء اور اسلامی نظریاتی کونسل کا مشترکہ اجلاس بلوا لیا جائے اور بل کے جو حصے شر یعت اسلامی اور آئین پاکستان کے  منافی ہے اس کو ہٹا دیتے جائے۔ تاکہ دینی حلقوں اور رفاہی و ٖفلاحی حلقوں کے جو تحفظات وخدشات ہیں وہ دور ہو جائیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :