
لاتوں کے بھوت
پیر 25 نومبر 2019

مراد علی شاہد
سیان تنظیم کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ یہ دراصل چند شرارتی لوگوں کے ذہنی انتشار کی پیداوار ہے جس کا آغاز0 200میں اس وقت ہوا جب ناروے میں چند غیر مسلم نوجوانوں نے ناروے کی مساجد میں سپیکر میں اذان دینے کے خلاف مظاہرے کئے کہ مسلمانوں کو مساجد میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر اذان دینے پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
(جاری ہے)
ہوا یوں کہ آرنے تھومیر قرآن پاک کی ایک کاپی بار بی ڈال کے اوپر رکھ کر لایا تھا جسے پولیس کے اہلکاروں نے فوراً پکڑ کر اپنی تحویل میں لے لیا،اسی دوران تنظیم کے ایک اور شخص جس کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کانام لارس تھورسن ہے نے اپنی جیب سے قرآن کی ایک اور کاپی نکال کر اسے نذرِ آتش کر دیا۔ایسی صورت حال میں کون کم بخت جذبہ ایمانی سے سرشار مسلمان برداشت کر سکتا تھا۔لہذا مجمع سے ایک شخص الیاس دھابہ کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور پولیس کی طرف سے عائد رکاوٹوں کو شیر کی سی جست لگاتے ہوئے اس گیدڑ کو دھاڑتے ہوئے چیتے کی سی پھرتی سے لاتوں کے وار سے مارگرانے کے بھر پور کوشش کی۔ردعمل میں موقع پر موجود پولیس نے عمر دھابہ اور لارس تھورسن کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کردیا۔
یہ تو تھی سیان اور حالیہ واقعہ کی تفصیل مگر اب بات کرتے ہیں مختلف طبقہ ہائے فکر کے نظریات،خیالات اور ردعمل کی،کچھ حلقوں کا کہنا ہے ،خاص کر وہ طبقہ فکر جو ناروے میں اس سارے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں اور اپنے آپ کو ناروے آئین اور قانون کے پابند خیال کرتے ہیں،ان کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ پولیس اور حکومت کو اس سارے واقعہ کے پس منظر کا پہلے سے علم تھا کہ سیان کے نمائندے مسلمانوں کی مقدس کتاب کو جلانے کی کوشش کریں گے لہذا حکومت وقت نے ان کو اس قبیح عمل سے روکنے کے لئے پہلے سے اقدامات کر رکھے تھے،لہذا مسلمانوں کو جذباتیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ناروے کے قوانین اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اسے پولیس اور حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے تھا۔۔دوسری بات یہ کہ چونکہ تنظیم کا مقصد ہی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنا تھا لہذا عمر دھابہ کا ردعمل انہیں سچ ثابت کرنے کا باعث بن سکتا ہے کہ واقعی مسلمان ایک دہشت گرد قوم ہیں۔جس کا ثبوت عمر کا ردعمل ہے۔ایسی ذہنیت کے متحمل افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ SIAN اس سلسلہ میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
لیکن بحثیت مسلمان میرا خیال یہ ہے کہ کبھی کبھار آئین و قوانین کو پسِ پشت ڈال کر غیرت ِ ایمانی پر عمل پیرائی ایمان کامل کا حصہ ہوتا ہے۔خاص کر ان دو مواقع پر جب نوموس رسالتﷺ کی بات ہو ،دوسرا جب آپ ﷺ پر نازل کردہ مقدس کتاب کی بے حرمتی کا کوئی بھی کہیں بھی گھناؤنا واقعہ پیش آرہا ہو۔کیونکہ میرے خیال میں دلائل کمزور ہو سکتے ہیں،آئین وقت کی ضرورت اور حکومتی مفاد کے لئے تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔دلائل کی بنا پر کی جانے والی بحث آپ کے خلاف جا سکتی ہے،قانون کی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں،لیکن مسلمانوں کا ایمان کمزور نہیں پڑنا چاہئے اس لئے کہ میری دانست میں غیرتِ مسلمانی دراصل عشق مصطفی اور قرآن سے محبت کا دوسرا نام ہے۔لہذا ان دو واقعات کے ردعمل میں مسلمانوں کو کبھی کمزور ی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے،عمر دھابہ کی طرح تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے لارس تھورسن جیسے شیطانوں کو سبق سکھانا ضروری سمجھنا چاہئے،کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے وہ صرف لاتوں سے ہی مانتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.