
تحفظِ اطفال،ہمارا فرض
پیر 10 فروری 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
تحفظ اطفال کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ انہیں تحفظ کے ساتھ ساتھ بہتر مستقبل کی بھی ضمانت دی جائے۔
لیکن اہل فکرودانش کا کہنا ہے کہ جہاں خیر،وہاں شر اور جہاں رحمن وہاں شیطان بھی ضرور ہوتا ہے۔یہ شیطانی اور طاغوتی طاقتیں ہردم تاک لگائے بیٹھی ہوتی ہیں کہ کب انہیں موقع دستیاب ہو اور وہ ان ملوک کونپلوں کو مسل کر رکھ دیں،ان کے اور حیوانوں کے درمیان بس چند لمحات کا ہی فاصلہ ہوتا ہے۔یقینا یہ انسانیت نہیں بلکہ حیوانیت کے سب سے نچلے درجہ سے تعلق رکھنے والے حیوان ہوتے ہیں۔کیونکہ انہیں انسان کہنا از خود انسانیت کی توہین وتذلیل ہےقومی اسمبلی پاکستان نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دینے کا بل پاس کردیا ہے۔یہ قراردا دپارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے پیش کیا تھا۔کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ اسمبلی کا کام محض قرارداد پیش کرنے اور اسے منظور کرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے،اگر ماضی قریب کا ہی اندازہ لگایا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں حقوقِ نسواں کے تحفظ اور حقوق کا بھی ایک بل پاس کیا گیا تھا،وراثت میں محض ایک سائل کی شکائت خاص کر بیٹیوں کے حصہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کی اجائے گا،وغیرہ وغیرہ۔اب آتے ہیں حالیہ بل کی منظوری اور اس پر حکومتی اور حزب مخالف سے اٹھنے والے سوالات وبیانات کی طرف،کہ اس قرارداد کو پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی،یہ بات اس حد تک کیوں بڑھ گئی کہ اس قبیح فعل پر حکومت وقت کو باقاعدہ اسمبلی میں قرارداد پیش کر کے اسے منظور کروانا پڑا۔اس کو جواب واقعہ قصور کے بعد پوری قوم جانتی ہے کہ اس کی ضرورت کیوں محسوس گئی۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو کمسن بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات،والدین کا اپنے بچوں کے بارے میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ اور تشویش ہے،اخلاقیات کی پامالی،جاہلیت کی انتہا اور عرب قبل از اسلام کی تہذیب دکھائی دیتی ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے یہ ایک احسن قدم ہے مگر حزب اختلاف تو کجا حزب اقتدار کی صفوں سے بھی چند آوازوں کا شور سنائی دیا کہ کسی بھی جرم کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دینا غیر انسانی وغیر اخلاقی فعل ہے ۔ایسا کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔کیا عالم میں اقوام متحدہ کا کردار اس قابل ہے کہ ان کی قراردادوں کو اتنی اہمیت دی جائے کہ انہیں اسلامی ممالک کے قوانین کا حصہ بنا دیا جائے اور پھر مسلم امہ اور ممالک میں اس ادارے کا کیا کردار رہا ہے؟ اس کے لئے ایک اور کالم درکار ہوگا۔
ایسے نام نہاد دانش وروں اور اہل فکرو علم کی نذر کرنا چاہتا ہوں کہ بچوں پر جنسی تشدد کے بعد قتل کے مجرموں کو پھانسی کے گھاٹ اتارنے کا اعلان تب کرنا پڑا جب سانحہ خانیوال اور قصور میں زینب کا دلخراش وروح دریدہ واقعہ رونما ہوا۔جس پر پارلیمانی امور کے وزیرِ مملکت علی محمد نے قرارداد پیش کی کہ ایسے افعال کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں سرعام پھانسی دی جائے تاکہ دوسرے لوگوں کے لئے یہ نشان عبرت بنیں۔لیکن میری سمجھ میں حکومتی پارٹی کے افراد کی مخالفت سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب ہمارے پاس اسلام کی صورت میں ایک مکمل ضابطہ حیات اور اسلامی آئین موجود ہے تو ایسی صورت میں اقوام متحدہ کے قوانین کا حوالہ چہ معنی۔
جب ہم دین اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے کنوارے زانی وزانیہ کے لئے سو کوڑوں کی سزا رکھی ہے اور اگر یہی فعل کوئی شادی شدہ کرے تو اسے سنگسار کیا جانے کی سزا ہے،لیکن جب معاملہ معصوم اور کم سن بچوں کا ہو تو ان سزاؤں میں شدت اختیار کی جا سکتی ہے۔قرآن مجید میں سورة مائدہ میں حرابہ اور فساد فی الارض کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے کڑی سزاؤں کا تقرر کیا گیا ہے۔صحیح بخاری میں حضرت انس سے روائت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ سے مدینہ آئے اور بیمار ہوگئے۔آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ لقاح چلے جاؤ اور اونٹنی کا دودھ پیو،چناچہ وہ لقاح چلے گئے اور اچھے ہوکر واپس آئے تورسول اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔علی الصبح رسول کریم ﷺ کے پاس یہ خبر آئی تو آپ ﷺ نے ان کے پیچھے اصحاب کو بھیجا ،دن چڑھے ان کو لاکر بارگاہ ِ رسالت میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ان کی آنکھوں مین گرم سلاء ی ڈالی جائے،اور پھر انہیں مدینہ کی پتھریلی زمین میں ڈال دیا گیا جب یہ پانی مانگتے تو انہیں پانی نہ دیا جاتا۔
اسی طرح بخاری شریف میں ایک انصار لڑکی کا واقعہ بھی مذکور ہے جس کا سر ایک یہودی نے پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا،تو اس کے لئے بھی سزائے موت مقرر کی گئی تھی۔احادیث کے بیان کرنے مقصد یہ ہے کہ ایسے سنگین نوعیت کے جرائم کے مرتکب افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہئے۔قومی اسمبلی میں اس شنیع عمل کے بارے میں قراداد کا منظور ہونا خوش آئند قدم ہے۔ہمیں اس قرارداد کی مخالفت کر کے مرتکب افراد کے افعال کو تقویت بہم نہیں پہنچانی بلکہ حکومت کا ساتھ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کرنی ہے تاکہ یہ لوگ آئندہ ایسے افعال کے مرتکب نہ ہوسکیں۔قرارداد کی مخالفت دراصل ظالم کی طرفداری ہی ہوتی ہے،لہذا ہمیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسے افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے لئے حکومت کے ہر قانون کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ ایسی برائی کو جڑ ہی سے تلف کردیا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.