تحفظِ اطفال،ہمارا فرض

پیر 10 فروری 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

میاں محمد بخش اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف سیف الملوک میں فرماتے ہیں کہ”بچہ جیہا نہ میوا ڈٹھا جتنا کچا اتنا مٹھا“ہر سلیم الفطرت انسان قدرت کی سب سے احسن تخلیق یعنی انسان کے بچے سے پیار کرتا ہے اور یہ ایک قدرتی فعل ہے،شائد ہی کوئی کم بخت ہوگا جسے معصوم بچوں سے لگاؤ یا انس نہیں ہوگا۔بلکہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی آپ کو ملیں گے جن کے اپنے بچے نہیں ہوتے لیکن بچوں سے والہانہ پیار سے کوئی بھی ذی شعور اندازہ لگا سکتا ہے کہ انہیں بچوں سے کتنا پیار ہے،یہ تو انسان کا قدرتی لگاؤ ہے اگر آپ غور کریں تو ہر جانور اپنے بچے کو ایسے ہی پیار کرتا ہے جیسے کہ ہم انسان کرتے ہیں۔

ایسے افراد بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں جنہیں انسانوں اور جانوروں سے برابر کا پیار ہوتا ہے اور انہوں نے عملی طور پر جانوروں اور بے گھر،بے سہارا نسانوں کے لئے شیلٹر ہومز بھی بنا رکھے ہوتے ہیں جہاں دنیا کی ہر سہولت ایسے بے آسرا وبے یارومددگار وں کو فراہم کی جاتی ہے جو شائد ان کو گھروں میں بھی دستیاب نہ ہوں۔

(جاری ہے)

تحفظ اطفال کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ انہیں تحفظ کے ساتھ ساتھ بہتر مستقبل کی بھی ضمانت دی جائے۔

لیکن اہل فکرودانش کا کہنا ہے کہ جہاں خیر،وہاں شر اور جہاں رحمن وہاں شیطان بھی ضرور ہوتا ہے۔یہ شیطانی اور طاغوتی طاقتیں ہردم تاک لگائے بیٹھی ہوتی ہیں کہ کب انہیں موقع دستیاب ہو اور وہ ان ملوک کونپلوں کو مسل کر رکھ دیں،ان کے اور حیوانوں کے درمیان بس چند لمحات کا ہی فاصلہ ہوتا ہے۔یقینا یہ انسانیت نہیں بلکہ حیوانیت کے سب سے نچلے درجہ سے تعلق رکھنے والے حیوان ہوتے ہیں۔

کیونکہ انہیں انسان کہنا از خود انسانیت کی توہین وتذلیل ہے
قومی اسمبلی پاکستان نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دینے کا بل پاس کردیا ہے۔یہ قراردا دپارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے پیش کیا تھا۔کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ اسمبلی کا کام محض قرارداد پیش کرنے اور اسے منظور کرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے،اگر ماضی قریب کا ہی اندازہ لگایا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں حقوقِ نسواں کے تحفظ اور حقوق کا بھی ایک بل پاس کیا گیا تھا،وراثت میں محض ایک سائل کی شکائت خاص کر بیٹیوں کے حصہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کی اجائے گا،وغیرہ وغیرہ۔

اب آتے ہیں حالیہ بل کی منظوری اور اس پر حکومتی اور حزب مخالف سے اٹھنے والے سوالات وبیانات کی طرف،کہ اس قرارداد کو پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی،یہ بات اس حد تک کیوں بڑھ گئی کہ اس قبیح فعل پر حکومت وقت کو باقاعدہ اسمبلی میں قرارداد پیش کر کے اسے منظور کروانا پڑا۔اس کو جواب واقعہ قصور کے بعد پوری قوم جانتی ہے کہ اس کی ضرورت کیوں محسوس گئی۔

اس کی سب سے بڑی وجہ تو کمسن بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات،والدین کا اپنے بچوں کے بارے میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ اور تشویش ہے،اخلاقیات کی پامالی،جاہلیت کی انتہا اور عرب قبل از اسلام کی تہذیب دکھائی دیتی ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے یہ ایک احسن قدم ہے مگر حزب اختلاف تو کجا حزب اقتدار کی صفوں سے بھی چند آوازوں کا شور سنائی دیا کہ کسی بھی جرم کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دینا غیر انسانی وغیر اخلاقی فعل ہے ۔

ایسا کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔کیا عالم میں اقوام متحدہ کا کردار اس قابل ہے کہ ان کی قراردادوں کو اتنی اہمیت دی جائے کہ انہیں اسلامی ممالک کے قوانین کا حصہ بنا دیا جائے اور پھر مسلم امہ اور ممالک میں اس ادارے کا کیا کردار رہا ہے؟ اس کے لئے ایک اور کالم درکار ہوگا۔
ایسے نام نہاد دانش وروں اور اہل فکرو علم کی نذر کرنا چاہتا ہوں کہ بچوں پر جنسی تشدد کے بعد قتل کے مجرموں کو پھانسی کے گھاٹ اتارنے کا اعلان تب کرنا پڑا جب سانحہ خانیوال اور قصور میں زینب کا دلخراش وروح دریدہ واقعہ رونما ہوا۔

جس پر پارلیمانی امور کے وزیرِ مملکت علی محمد نے قرارداد پیش کی کہ ایسے افعال کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں سرعام پھانسی دی جائے تاکہ دوسرے لوگوں کے لئے یہ نشان عبرت بنیں۔لیکن میری سمجھ میں حکومتی پارٹی کے افراد کی مخالفت سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب ہمارے پاس اسلام کی صورت میں ایک مکمل ضابطہ حیات اور اسلامی آئین موجود ہے تو ایسی صورت میں اقوام متحدہ کے قوانین کا حوالہ چہ معنی۔


جب ہم دین اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے کنوارے زانی وزانیہ کے لئے سو کوڑوں کی سزا رکھی ہے اور اگر یہی فعل کوئی شادی شدہ کرے تو اسے سنگسار کیا جانے کی سزا ہے،لیکن جب معاملہ معصوم اور کم سن بچوں کا ہو تو ان سزاؤں میں شدت اختیار کی جا سکتی ہے۔قرآن مجید میں سورة مائدہ میں حرابہ اور فساد فی الارض کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے کڑی سزاؤں کا تقرر کیا گیا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت انس  سے روائت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ سے مدینہ آئے اور بیمار ہوگئے۔آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ لقاح چلے جاؤ اور اونٹنی کا دودھ پیو،چناچہ وہ لقاح چلے گئے اور اچھے ہوکر واپس آئے تورسول اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔علی الصبح رسول کریم ﷺ کے پاس یہ خبر آئی تو آپ ﷺ نے ان کے پیچھے اصحاب کو بھیجا ،دن چڑھے ان کو لاکر بارگاہ ِ رسالت میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ان کی آنکھوں مین گرم سلاء ی ڈالی جائے،اور پھر انہیں مدینہ کی پتھریلی زمین میں ڈال دیا گیا جب یہ پانی مانگتے تو انہیں پانی نہ دیا جاتا۔


اسی طرح بخاری شریف میں ایک انصار لڑکی کا واقعہ بھی مذکور ہے جس کا سر ایک یہودی نے پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا،تو اس کے لئے بھی سزائے موت مقرر کی گئی تھی۔احادیث کے بیان کرنے مقصد یہ ہے کہ ایسے سنگین نوعیت کے جرائم کے مرتکب افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہئے۔قومی اسمبلی میں اس شنیع عمل کے بارے میں قراداد کا منظور ہونا خوش آئند قدم ہے۔

ہمیں اس قرارداد کی مخالفت کر کے مرتکب افراد کے افعال کو تقویت بہم نہیں پہنچانی بلکہ حکومت کا ساتھ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کرنی ہے تاکہ یہ لوگ آئندہ ایسے افعال کے مرتکب نہ ہوسکیں۔قرارداد کی مخالفت دراصل ظالم کی طرفداری ہی ہوتی ہے،لہذا ہمیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسے افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے لئے حکومت کے ہر قانون کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ ایسی برائی کو جڑ ہی سے تلف کردیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :