قوم،ملک ،سلطنت اور کرونا

منگل 17 مارچ 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

آج ایک وبائی مرض کرونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،چائنہ سے شروع ہونے والا یہ وبائی مرض دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے دنیا میں سو سے زائد ممالک اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں،یہ ایک بائیولوجیکل وار ہے یا قدرتی آفت ابھی یہ بحث طلب نہیں ہے،لیکن میں چند دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ راسخ العقیدہ مذہبی عوام اور نام نہاد مذہب بیزار کے درمیان ایک لا یعنی بحث کا سلسلہ شروع ہے،ہر کوئی اپنے علم اور ہٹ دھرمی سے اپنے آپ کو عالم فاضل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔

میرے نزدیک دونوں کی فکری سطح محض ذاتی تسکین کے سوا کچھ نہیں۔وگرنہ اسلام وہ عالمگیر مذہب ہے جس نے تاقیامت مسلمانوں کو آنے والے مسائل ومشکلات کے حل اور احتیاطی تدابیر بتا رکھے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہمارا مسئلہ کیا ہے کہ ہمیں دوسروں کی ٹوکری میں پڑے ہوئے آم زیادہ میٹھے اور پرکشش دکھائی دیتے ہیں جس کی اخلاقیات اور اسلام دونوں نے ممانعت فرمائی ہے۔

کیونکہ ہمیں جو کچھ دوسروں کے پاس ہے اس پہ حسد نہیں کرنا بلکہ جو خدائے لم یزل نے آپ کو عطا کر رکھا ہے اس پہ رشک کرنا ہے۔یہی ہمارا ایمان ہونا چاہئے اور یہی اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے۔
سیدنا حضرت عمر کے دورِ خلافت میں بلاد شام میں وبائی مرض طاعون پھیل گیا تو اس پہ صحابہ و دیگر مسلمانوں کے ایمان پر کوئی فرق نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے کسی قسم کی فضول بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کیا ہمیں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہئے یا اس کے سدِ باب کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔

حالانکہ اس بیماری سے بڑے جید صحابہ کرام کی جانیں بھی چلی گئیں،خاص کر عشرہ مبشرہ میں شامل اور کئی جنگوں میں حصہ لینے والے جرنیل اور متقی صحابی ابو عبیدہ بن جراح بھی طاعون کے مرض کی نذر ہو گئے تھے،لیکن خلافت عمر نے اس مرض کو اپنی بہتر ایڈمنشٹریشن کے سبب شام کے اندر ہی رکھا،اس مرض کو عراق،مصر اور حجاز تک نہ آنے دیا۔یہ ہوتی ہے ایک فلاحی ریاست اور اچھی مینجمنٹ۔


خلیجی ممالک میں چونکہ اس وقت سب سے زیادہ متاثرین قطر میں پائے جا چکے ہیں تو حکومت قطر نے اپنی عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے بسلسلہ روزگار آئے ہوئے تمام تارکین کے لئے بھی وہی انتظامات کئے ہیں جو اپنی عوام کے لئے۔گذشتہ روز امیر قطر سمو الشیخ تمیم بن حمد الثانی کی زیرنگرانی ایک اعلی سطح کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں فوری طور پر یہ اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس موذی مرض کا پیشہ ورانہ اور بہتر طور مقابلہ کیا جا سکے۔

سمو الشیخ تمیم بن حمد الثانی نے احکامات جاری کئے کہ ماسوا کارگو اور ٹرانزٹ پروازوں کے تمام پروازوں کو بند کردیا جائے۔پرائیویٹ سیکٹر کو 75ارب قطری ریال کی مالی اعانت فراہم کی جائے گی،دس بلین ریال قطر سٹاک ایکسچینج میں جمع کروائے جائیں گے،پبلک ٹرانسپورٹ(کروا اور میٹرو) کو فوری طور پر آئندہ دو ہفتوں کے لئے بند کردیا جائے،چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لئے لئے گئے قرضوں پر قطر ڈویلپمنٹ بنک ادائیگی میں چھوٹ دے گی،متعدد شعبوں کو فیس اور ٹیکس سے مستثنی ٰ قرار دیا جائے گا،طلبا کے لئے اگلے ہفتہ سے آن لائن کلاسز کا آغاز کردیا جائے گا۔

پبلک اجتماعات پر پابندی اور وہ لوگ جو پچپن سال سے زائد عمر کے ہیں،حاملہ خواتین یا وہ جو کسی بھی دائمی مرض میں مبتلا ہیں وہ گھر بیٹھ کر ہی دفاتر کا کام سرانجام دے سکتے ہیں۔
یہ ایک اچھی مینجمنٹ اور فلاحی ریاست کی مثال ہوتی ہے کہ ان کے لئے سب سے عزیز ان کی عوام ہوتی ہے کیونکہ وہ انسان اور انسانیت کی فلاح کو معتبر اور مقدم سمجھتے ہیں۔

وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سلطنت اور ملکوں کی بقا قوموں کی فلاح اور بہتری میں مضمر ہوتی ہے۔ اپنی قوم کی خاطر آگاہی پروگرام کا جگہ جگہ پرچار کیا جارہا ہے،لوگوں کو اجتماعات سے دور رہنے ،صفائی کا خیال رکھنے اور ضرورت کی اشیا ہی خریدنے کی تلقین کی جا رہی ہے اس سلسلہ میں عوام اور کاروباری ادارے مکمل طور پر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

کیونکہ ہر کوئی قطر کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہے ،ایسا ہونا بھی چاہئے کہ جو ملک ہماری روزی کا ذمہ دار ہے اور ہمیں انسانی حقوق مہیا کرنے میں پیش پیش ہے اس کا ساتھ دینا ہمارا دینی اور اخلاقی فرض بنتا ہے۔
یہ وبا میرے ملک پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑنے کے در پے ہیں اور ہم ہیں کہ عوام سے لے کر پارلیمنٹ تک اس فضول بحث میں وقت ضائع کر رہے ہیں کہ حکومت یہ کر رہی ہے حکومت وہ کر رہی ہے،حکومت کیوں کر رہی ہے؟ہمیں اس مشکل وقت میں یہ سوچنا چاہئے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں ہمیں کیا کرنا ہے؟اپنی احتیاط اور صفائی کا خیال حکومت نے نہیں ہم نے خود رکھنا ہے۔

ہم تو وہ قوم بنتے جا رہے ہیں جو اپنے گھر کا کچرا پڑوس کے گیٹ کے درمیان میں اس لئے پھینک دیتے ہیں کہ وہ ہمیں اچھے نہیں لگتے یا ہم سے بہتر معیار زندگی ان کے پاس کیوں ہے؟اپنی ،اپنے گھر اور محلہ وشہر کی صفائی کا خود خیال رکھتے ہوئے ہم حکومت کے پروگرامز میں تعاون کا باعث بن سکتے ہیں،یہ سب کسی حکومت کے لئے نہیں ہم نے اپنے لئے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کرنا ہے۔

ہمیں مصیبت کی اس ساعتوں میں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک قوم ہیں۔کیونکہ قوم سے ہی ملک بنتے ہیں اور اسی سے مثالی اور فلاحی سلطنت قائم ہوتی ہے۔ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے،اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے صاف ستھرا رکھنے کی بھرپور سعی کریں گے کیونکہ ہم نے اپنی قوم،ملک اور سلطنت کے لئے کرونا کو شکست سے دوچار کرنا ہے۔ان شااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :