کیا تعلیمی مسائل کا حل،تشکیل جدید ہے؟

جمعہ 4 ستمبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

تعلیم کی افادیت و اہمیت کو سمجھے بغیر تعلیمی مسائل کی آگہی و شعور ممکن اس لئے نہیں ہو سکتا کہ جب تک آپ کسی مسئلہ کی مصلحتِ خاص کے بنا اس کی جڑ تک نہیں پہنچ پاتے اس پیچیدگی کی بیخ کنی کیسے کی جا سکتی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے طبی میدان میں کامیاب مسیحا اسی کو سمجھا جاتاہے جس کی تشخیص مرض کی عین مطابق ہو۔اگر کوئی مریض اسہال کے مرض میں مبتلا ہے اور طبیب اس کا علاج ملیریا کی تشخیص سے کر رہا ہو تو مرض بڑھتا گیا یوں یوں دوا کی والا معاملہ درپیش ہو سکتا ہے۔

ایسی صورت حال میں بیماری شفا یابی کی بجائے پیچیدگی اختیار کر جائے گی۔تعلیمی میدان میں بھی جب تک مسائل اور اس کے حل کی درست سمت کا تعین نہیں جا ئے گا،اندھیرے میں ٹکریں مارنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

(جاری ہے)

آپ تہی دامن تو رہ ہی جائیں گے عین ممکن ہے اپنااور اپنی قوم کا کے غیر مہذب ہونے میں بھی آپ ذمہ دار ٹھہرائے جائیں۔مثلا ہمارے ملک میں دو طرح کا نظام تعلیم نافذ العمل ہے۔

ایک اردو میڈیم(جسے گورنمنٹ،ٹاٹ سکول اور غربا کی تعلیم کے لئے مختص کیا گیا نظام تعلیم کہا جاتا ہے یا سمجھا جاتا ہے)دوسرا انگلش میڈیم(جسے مغربی نظام تعلیم یا امرا کے لئے مخصوص تعلیم کا تصور خیال کیا جاتا ہے)۔اگر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں نظام میں نصاب سے استاد تک تعلیمی مسائل اور ان کے حل کی نوعیت بھی مختلف ہوگی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ چک نمبر 735 میں پڑھنے والا طالب علم اور پڑھانے والا استاد ویسی ہی ذہنی استعداد،قابلیت،مسائل اور اس کا حل وہی رکھتا ہو جو کہ ایچی سن کا معلم و تعلم رکھتا ہو۔

یاد رکھیں کہ یہ تخصیص میری وضع کردہ نہیں ہے بلکہ ان کتابوں،لیکچرز اور ورکشاپس کا نچوڑ ہے جو میری تجربہ اور مشاہدہ میں آئی۔
مذکور مسائل،نصاب اور تعلیمی تخصیص سے ہرگز یہ مطلب ومقصد نہیں کہ ایک گاؤں میں بچوں کو تعلیم کی نعمت سے بہرہ ور کرنے والا استاد کسی طور ایچی سن میں تعلیم دینے والے استاد اورتعلیم حاصل کرنے والے طالب علم سے کسی طور اپنی قابلیت میں کم ہے۔

لیکن یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ دونوں اداروں میں وسائل،ترغیبات،سہولیات،تدریسی مواد،انتظام وانصرام اور معاشی سہولیات میں فرق ان میں حد فاصل ضرور متعین کر دیتا ہے۔جو مختلف معاشی ومعاشرتی مسائل واختلافات اور ذہنی مسائل کا بھی باعث بن جاتا ہے۔اگر یہ سب ہے تو پھر ان سب کا حل کیا ہے؟مسئلہ کا حل بہت سیدھا ہے کہ
مسئلہ بیچ کا نہیں ہوتا
پیار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
لیکن ارباب اقتدار واختیارات کے ساتھ ساتھ حلقہ فکر ودانش اور ماہر تعلیم بھی اسے سخنوری سے زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے ۔

اس لئے ان کے ہاں عمومی نظام تعلیم کیے مسائل کا حل تشکیل جدید میں ہی مضمر ہے۔خیال ان کا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جتنی بھی تعلیمی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور تدریسی عمل میں جو خامیاں و نقائص ہیں سب کے سب عمومی نظام ِ تعلیم کی فرسودگی،دقیا نوسیی طریقہ تدریس اور انحطاط پذیری کی وجہ سے ہیں۔اگر ہمارا نظام تعلیم دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تشکیل جدید ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار،عصرِ حاضر سے ہم آنگ نہ ہو اور ہم بھی تعلیمی میدان میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں صف آرا نہ ہوں۔

اسی خیال کے متحملین کا یہ بھی خیال ہے کہ ہمارے ارباب تعلیم بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تعلیمی ترقیات سے استفادہ کرنے کا مکمل منصوبہ بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستانمیں تدریس کو ایک مکمل فن اور فعال سرگرمی کی شکل ہ دے سکیں۔
لیکن مشاہدہ بالکل اس کے الٹ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بعض اوقات نتائج اس کے برعکس بھی حاصل ہوتے ہیں جن کی چنداں وجوہات آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ آپ لوگ بھی جان سکیں کہ ہمیں کس طرح اور کیوں دوہرے معیار تعلیم کی بھینٹ چڑھایا گیا اور اس کی وجوہات کیا ہیں جیسے کہ،مسائل کی آگہی اور نشاندہی سے قبل کیا ہمارے ارباب تعلیم،فکرودانش،نصاب سازوں اور اختیارات کے حامل افراد نے یہ سوچا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو وسائل کی فراہمی یقینی ہے اور ان کو معاشی وسائل بہم پہنچائے جا رہے ہیں کہ نہیں۔

اگر آپ تقسیم سے لے کر اب تک سالانہ بجٹ میں تعلیمی بجٹ کا تخمینہ لگائیں تو کبھی بھی چار اور پانچ فی صد سے تجاوز نہیں کر پایا۔کسی بھی حکومت کے لئے اور قوم کے لئے اس سے بڑا لمحہ فکریہ کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ابھی تک اپنا تعلیمی بجٹ پانچ فی صد سے اوپر نہیں لے جا سکے۔گویا اب تک کے تعلیمی بجٹ میں تعلیم کے لئے مختص کی گئی رقم ماسوا ندامت کے اور کچھ نہیں۔

ایسے میں نتائج ترقی یافتی اقوام کے برابر حاصل کرنے کا سوچنا دیوانہ کا خواب نہیں تو اور کیا ہے؟یہ تو ایسے ہی ہے کہ ہم ببول کے درخت سے آم کی توقع لگائے بیٹھے ہوں۔جب آپ ببول کا بیج بوئیں گے تو یہ بیج تناور درخت بن کر ہر سُو کانٹے ہی بکھیرے گا گلاب کے پھول نہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی حکومت نے اب تک یہ جاننے کی مخلصانہ کوشش نہیں کہ اس میدان میں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کرام کے ساتھ معاشی عدم استحکام ہے۔

اگر زور دیا گیا تو اس بات پر کہ ایسے اساتذہ کرام جو شام کو ٹیوشن دیتے ہیں ذہنی تناؤ اور تھکاوٹ کے باعث سکول میں پوری استعداد سے پڑھا نہیں پاتے،اس لئے ان کی ٹیوشن کو ختم کیا جائے تاکہ وہ تمام تر انرجی سکول کے اوقات کار میں بچوں پر صرف کر سکیں۔اوپر سے نام نہاد قسم کے ماہر تعلیم یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ ایک آکسفورڈ سلیبس پڑھنے والا بچہ کیسے ذہنی استعداد میں ٹاٹ سکول کے بچے کے برابر ہو سکتا ہے۔

دلیل یہ کہ نظام فطرت میں کوئی ایک شخص دوسرے جیسا نہیں۔ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ نظام قدرت میں اس سے مراد محض اشکال و اجسام مراد ہیں نا کہ دماغ اور دماغی نظام۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو سب کو ایک ہی حجم ،وزن اور نیورون رکھنے والا دماغ عطیہ کر رکھا ہے۔اب یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ اسے کس قدر استعمال میں لاتا ہے۔دنیا میں ایک شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے دماغ کا وزن اور حجم عام دماغ سے کم تھا لیکن اس انسان نے اپنے دماغ کا ایسا استعمال کیا کہ آج بھی اس کے دماغ کو ایک میوزیم میں محفوظ کر لیا گیا ہے کہ ایسے کیا اس میں کیا تھا جو دوسرے اذہان میں نہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ وہ انسان تھا آئزک نیوٹن۔
اصل مسئلہ جس کی طرف تمام حکومتوں نے توجہ نہیں دی وہ ہے معاشی عدم مساوات،سہولیات کا فقدان۔انہیں دو عوامل کی وجہ سے علمی استعداد کار اور پیشہ ورانہ لیاقت میں فرق پیدا ہوتا ہے جس کی طرف ارباب تعلیم اور اقتدار واختیارات کے حامل افراد نے بے توجہی برتی ہے۔بس ایک بات کی طرف ہی توجہ خاص مبذول کئے رکھی کہ مغربی نظام تعلیم،وہاں کی ترقی،طلبا و اساتذہ کے رویے اور تعلیمی نتائج سے ہمارے نظام تعلیم کا موازنہ کیا جائے۔

جو ماسوا زیادتی کے اور کچھ نہیں۔
آخر میں میرا ایک سوال اپنے قارئین سے ہے کہ اگر تشکیل جدید ہی تعلیمی ترقی واستعداد اور تعلیمی قابلیت کے بڑھانے کا باعث ہے تو پھر پاکستان کے سب سے اعلیٰ امتحان یعنی سول سروس امتحان میں ایک مسجد مکتب،ٹاٹ سکول اور گورنمنٹ سکولز کے طلبہ وطالبات کیوں امتیازی حیثیت سے پاس ہو کر ملکی اداروں میں اپنے فرائض منصبی کامیاب طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :