
راہنما کون ہوتے ہیں؟
جمعہ 2 اپریل 2021

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
حضرت علی نے راہنما کی تعریف اس طرح سے فرمائی ہے کہ ”سو بھیڑوں کی راہنما ئی کرنے والا اگر ایک شیر ہو تو بھیڑیں بھی شیر بن جاتی ہیں لیکن اگر سو شیروں کی راہنمائی کرنے والی ایک بھیڑ ہو تو شیر بھی بھیڑیں ہی بن جاتے ہیں“اس سے بہتر ارو جامع تعریف شائد نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی قوم کے راہنما میں کیا محاسن ہونا چاہئے۔یقین جانئے جن قوموں کی زندگی میں ایسے لیڈر میسر ہو گئے ان کی زندگیاں بدل گئیں۔ان ممالک کی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے والا نہیں آ سکا اور اگر ایسا ہوا بھی تو راہنما اور عوام نے مل کر ان رکاوٹوں کو اپنے لئے چیلنج سمجھتے ہوئے اسے ایسے اپنے راستے سے ہٹا دیا جیسے مکھن میں سے بال کو نکال دیا جاتا ہے۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ میں ایک بار چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے ملنے کے لئے گیا میرے علم میں نہیں تھا کہ چین کا موسم اس قدر سرد ہوگا۔مجھے سردی محسوس ہوتے دیکھ کر چو این لائی نے اپنا کوٹ مجھے پیش کردیا،جسے پہن کر میں اپنے ہوٹل میں آگیا۔ہوا کچھ یوں کہ اگلے ہی روز وزیراعظم ایک نمائندہ میرے پاس ہوٹل میں وہ کوٹ لینے آ پہنچا اس نوٹ کے ساتھ کہ میرے پاس یہی ایک کوٹ ہے اس لئے ازراہ کرم واپس کر دیجئے۔حالانکہ اگر چو این لائی کی سابقہ زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو وہ ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا تاہم انقلاب چین میں انہوں نے اپنا سارا روپیہ پیسہ خرچ کر دیا۔چین کے ہی ایک اور انقلابی راہنما کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ چینی انقلاب کا راہنما ماؤزے تنگ جب انقلاب کے لئے لانگ مارچ کر رہا تھا تو جتنے بھی انقلابی تھے سب کے پاس دو عدد سوٹ اور بستر تھے لیکن ماؤ کے پاس صرف ایک سوٹ اور ایک بستر تھا۔کسی نے ماؤ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا ایک عدد سے بھی گزارا ہو سکتا ہے۔
اس طرح سے اگر تاریخ عرب کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ آقا ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے جب آنحضور ﷺ کی پیدائش سے پچاس روز قبل چاہِ زم زم کو جب پھر سے دریافت فرما لیا تو مکہ کے دیگر سرداروں نے بھی حق ملکیت کا دعویٰ کردیا جس پر سب سرداران مکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ مدینہ کی طرف ایک کاہن سے اس کا فیصلہ کروا لیتے ہیں۔تما م سرداران اس سفر پر روانہ تھے کہ راستے میں سب قافلہ والوں کا پانی ختم ہو گیا۔حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو بھی پیاس سے وفات پا جاتا اس کو وہیں دفنا دیا جاتا۔اس پر دادا عبدالمطب نے اپنے قافلہ والوں کو حکم دیا کہ ایسا کرو کہ یہاں سے کوچ کر و اور جس جگہ پر ہم میں سے جو بھی وفات پا ئے گا اسے وہیں قبر نکال کر دفنا دیا جائے گا۔اس فیصلہ کے فورا بعد ہی سب نے اپنا اپنا سامان باندھنا شروع کردیا۔یونہی حضرت عبدالمطب کی اونٹنی اٹھی تو اس جگہ سے خدا کی قدرت سے پانی کا چشمہ ابلنا شروع ہو گیا۔عرب روایات کے مطابق اب اس چشمہ کا مالک وہی ہوگا جس کی ملکیتی اونٹنی کے نیچے سے پانی نکلا۔اب آپ نے حکم دیا کہ میرے قافلہ والے اس سے پانی بھر لیں جب سب نے پانی بھر لیا تو آپ نے کہا کہ باقی قافلہ والوں کو بھی اجازت ہے کہ وہ جتنا پانی چاہے اس چشمہ سے لے سکتے ہیں۔جب سب قافلہ والوں نے پانی لے لیا تو سبھی نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں آگے کا سفر نہیں کرنا بلکہ واپس جانا چاہئے۔کہ جو بھی فیصلہ حضرت عبدالمطب فرمائیں گے ہمیں منظور ہوگا۔اس پر انہوں نے کہا کہ تم بھی زم زم سے پانی بھر سکتے ہو۔یہ ہوتی ہے وہ خوبی جو ایک فرد کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی ایک راہنما میں خوبی ہونا چاہئے۔
اگر ہم آقا ﷺ کی حیات طیبہ جو کہ ایسی ان گنت مثالوں سے بھری ہوئی ہے صرف ایک مثال پیش کی جائے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ راہنمائی کسے کہتے ہیں ۔آقا ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف تھے تمام عاشقان کا حال بھوک سے برا تھا کہ ایسے میں ایک صحابی حضرت عبداللہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میرے پاس ایک بکری اور چند ساع گندم کا آٹا ہے میری آپ سے استدعا ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور کچھ تناول فرما لیں۔آپ ﷺ نے یہ سنتے ہی اعلان فرما دیا کہ عبداللہ کے ہاں سب کی دعوت ہے۔حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں پریشان ہو گیا تو میری بیوی نے کہا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو جب آپ ﷺ نے سب کو مہمان بلایا ہے تو پھر انتظام بھی وہ خود ہی فرما دیں گے۔اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔کھانا وہی تھا لیکن معجزہ کی بدولت ایک ہزار افراد اس کھانے سے سیر ہوئے۔آپ کو معلوم ہے کہ سب سے آخر میں آپ ﷺ نے خود کھانا تناول فرمایا۔یہ ہے ایک لیڈر و راہنما کہ اعلی ترین مثال۔جس سے ہم سب غافل ہو چکے ہیں۔
لیکن ملک پاکستان کے ساتھ معاملہ بالکل برعکس ہے کہ ہمیں سات دہائیوں میں راہنما کوئی نہیں ملا سب کے سب سیاستدان ہی ملے۔جن کا کام ہر معاملہ میں سیاست سے کام لینا ہے،انہیں اپنی سیاسی دکانداری کے ذریعے سے اپنا مال فروخت کرنا ہے نا کہ ملک کی ترقی و استحکام کے لئے کوئی کام سرانجام دینا۔اسی لئے تو آج تک تمام سیاسی راہنما عوامی جذبات کے ساتھ کھیلتے رہے۔اگرچہ اس میں عوام کا بھی دوش ہے لیکن یہ کسی اور کالم میں ان شا اللہ بیان کروں گا۔تاہم جب تک ملک پاکستان کو ایک سچا اور ایماندار مخلص راہنما نہیں مل جاتا اس وقت تک ایسے ہی سیاستدان ہمارے لیڈر بن کر عوام کو بے و قوف اور ملک میں عدم استحکام کا باعث بنتے رہیں گے۔کیونکہ
خضر جانا تھا جنہیں وہ ڈاکو نکلے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.