کیا بیوروکریٹ قانون سے بالاتر ہیں!!!

ہفتہ 1 جون 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

پتہ پتہ بوٹابوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔حال ہماراجانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توساراجانے ہے
جی ہاں !ہزارہ کے صدرمقام اورتعلیمی اداروں کے شہرایبٹ آبادمیں کمشنرہزارہ سیدظہیرالاسلام اورپولیس اہلکارکی طرف سے ایک شہری پرتشددکی ویڈیوملک اوربیرون ملک میں بسنے والے بہت سے لوگوں نے دیکھ لی ہے اوردرددل رکھنے والے انسانیت کے ہمدردوں اورقانون وانصاف پرعملدرآمدکے خواہاں غیورسوشل میڈیاصارفین نے ایک محب وطن اورباشعورشہری کی حیثیت سے اس پر اپنے تاثرات بھی ظاہرکیے ہیں مگرحیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ ہزارہ میں بسنے والے لاکھوں باشعورشہریوں سمیت سماجی،سیاسی،مذہبی تنظیموں، ٹریڈرز،چیمبر،وکلاء،این جی اوزاورمیڈیاسمیت کسی نے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ سرعام شہری پر تشددکرکے اس کی توہین وتذلیل کرنے والے کمشنرہزارہ اورپولیس اہلکارکے خلاف قانونی کاروائی کر کے قانون ہاتھ میں لینے والوں اوردن دیہاڑے قانون وانصاف سے کھلواڑ کرنے والوں کوقانون و انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے تا کہ آئندہ کوئی چھوٹابڑابیوروکریٹ یاچھوٹابڑاپولیس والاقانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ کر سکے۔

(جاری ہے)

ان بے حسوں ،خاموش تماشائی حکمرانوں اورنام نہادباشعوروں نے ثابت کیا ہے کہ یہاں قانون صرف کمزوروبے بس لوگوں کے لیے ہے اگرکوئی امیرکبیر،وزیرمشیریابیوروکریٹ سرعام قانون سے کھلواڑ بھی کرے تو یہ اس کا حق ہے ،یہ کوئی مسئلہ ہے نہ قانون شکنی اورنہ ہی کوئی اتنی بڑی بات ہے جب کہ جس ریاست مدینہ کا ماڈل وطن عزیز میں لانے کے دعوے وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیرمشیر کر رہے ہیں انھیں یہ نہیں بھولناچاہییے کہ ریاست مدینہ میں قانون وانصاف سے بالاترکوئی نہیں تھاوہاں چھوٹے بڑے ہرایک کے لیے یکساں قانون تھا،وہاں آقاوغلام سب برابرتھے،سب کی عزت نفس کو تحفظ حاصل تھا اورپیارے نبی کریم حضرت محمدﷺ کی خدمت اقدس میں جب ایک قصوروارومجرم کی سفارش لائی گئی تو نبی پاکﷺ نے اس پرناگواری کا اظہارفرماتے ہوئے واضح کیاتھاکہ تم سے پہلی امتیں اسی لیے گمراہ وتباہ ہوئیں کہ ان میں سے جب کوئی عام آدمی قصوریاجرم کرتاتھاتواسے سزادی جاتی تھی اورجب کوئی امیریابڑاآدمی جرم کرتاتواسے نظراندازکیاجاتاتھاپھرآپ ﷺ نے تاقیامت تاریخ میں امرہوجانے والے یہ سنہری الفاظ ادافرمائے کہ اگرفاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے !!!
اللہ اکبر!گویااسلام میں دوہرے قانون اوردوہرے نظام انصاف کی قطعی طورپرکوئی گنجائش نہیں اس لیے ریاست مدینہ کے دعویدارحکمران وزیراعلیٰ محمودخان اوران کے وزیرمشیراورمرکزمیں وزیراعظم عمران خان اوران کے وزیرمشیرایبٹ آبادمیں ہونے والے افسوس ناک واقعے کا فوری اورسخت نوٹس لے کر قانون ہاتھ میں لینے والوں کو آئین و قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لائیں اورسرعام کمشنرہزارہ وپولیس اہلکار کے تشددکا نشانہ بننے والے متاثرہ شہری کی دادرسی کی جائے ۔

معلوم ہواہے کہ بعض یاردوست کمشنرکے ہاتھوں سربازارذلیل ہونے والے محنت کش کے بارے میں کہتے سنے جا رہے ہیں کہ اس نے یہ کیاتھااوروہ کیاتھا جس کے جواب میں صرف اتناکہاجاسکتاہے کہ اس نے جو بھی قصوریاجرم کیاتھااس کی آئین و قانون میں کوئی سزادرج ہے یا نہیں؟اگردرج ہے توکمشنرہزارہ اسے قانون کے رکھوالوں کے حوالے کرتے تا کہ اسے قانون کے مطابق سزادلوائی جا سکتی پھراس احقرسمیت کسی کو ذرابھرکوئی عذراعتراض نہ ہوتامگرسوال اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ کمشنرہزارہ کے سامنے پولیس والا بھی اسے ماررہاہے اوروائرل ہونے والی ویڈیومیں کمشنرہزارہ اس پولیس والے سے بھی دوہاتھ آگے نظرآرہے ہیں جوبڑے دکھ اورافسوس کی بات اورمقام ہے ۔

کمشنرہزارہ یا کسی اے سی ڈی سی حتیٰ کہ کسی پولیس والے کا بھی یہ منصب نہیں کہ وہ کوئی کسی قانون شکن کو سرعام مارناپیٹناشروع کر دیں!!!آئین پاکستان نے ہرپاکستان شہری کو حق عزت دیاہے جسے کوئی چھیننے کا حق نہیں رکھتامگرمقام افسوس تو یہ ہے کہ اس حق عزت کا کس کس کو پتہ ہے؟جن جن ذمہ داران کو پتہ ہے بشمول میڈیاانھوں نے اس افسوس ناک صورتحال میں اپنے حصے کاکیا کرداراداکیا ہے تا کہ پھرکوئی کسی کی عزت سے کھلواڑ نہ کر سکے؟سب بے حسی کا عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے شایدیہ بھول رہے ہیں کہ جان ہم سب نے خداکے حضوردینی ہے کسی کمشنروچھوٹے بڑے بیوروکریٹ یاحکمران کو نہیں اورعزت،ذلت،زندگی ،موت اوررزق بھی کسی دنیاوی فرعون یابااثرحاکم کے پاس نہیں وہ بھی صرف اورصرف خالق کائنات کے پاس ہے اوربس !!!وہ جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت!اس حوالے سے کسی نے کیاخوبصورت شعرکہاہے کہ
خداکاشکرہے صوفی خداکے ہاتھ ہے روزی
اگریہ حق بھی انساں کو دیاہوتاتو۔

۔کیاہوتا!!!
ان سطورکے توسط سے ہماری وزیراعلیٰ خیبرپختونخوامحمودخان اوروزیراعظم عمران خان سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ فوری طورپرایبٹ آبادکمشنرواقعہ کافوری اورسخٹ نوٹس لے کر قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف قانون حرکت میں لائیں اورمتاثرہ محنت کش کی دارسی کریں بصورت دیگر صوبائی و مرزکی حکومت کی طرف سے تواترسے ریاست مدینہ پرمبنی ریاست بنانے کے دعوے آئین وقانون کے بلاامتیازنفاذتک محض دیوانے کی بڑہی سمجھے جاتے رہیں گے اورنہ ان میں کوئی حقیقت ہو گی اوراگروزیراعلیٰ و وزیر اعظم نے بھی اس افسوس ناک واقعے کو نظراندازکر کے متاثرہمحنت کش کی غربت و مظلومی کا مزیدمذاق اڑایاتووہ اپنی غیرذمہ داریو بے حسی سے اس بات کا بھی عملی ثبوت پیش کریں گے کہ ان کے بنائے گئے نئے پاکستان اورریاست مدینہ میں بیوروکریٹ اورباثرلوگ قانون سے بالاترہیں اس لیے اس پر کسی کو زیادہ شورشراباکرنے اوراپنابلڈپریشرہائی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں!!!فیصلہ اب نیاپاکستان اورریاست مدینہ بنانے والوں کے ہاتھ میں ہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :