میمونہ نور، ایک انقلابی شخصیت

اتوار 29 نومبر 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے خدمت خلق کو مقصد حیات بنا رکھا ہے۔اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے ،مزہ تو تب ہے کہ دوسروں کے لیے بھی جیا جائے۔کسی شاعر نے کیا خو ب کہا ہے ” ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔“ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، صحت مند بیمار کی مدد کر رہا ہے تو امیر، غریب کے لیے کام کر رہا ہے ۔

لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان خود معذور اور محتاج ہو لیکن دوسر ے معذوروں اور محتاجوں کی خدمت میں مصروفِ عمل ہو ۔ایسی مثالیں بہت کم ہیں ۔محترمہ میمونہ نور ایک ایسی ہی بہادر اوربا ہمت خاتون ہیں جو خود تو معذور ہیں لیکن انھوں نے اپنی زندگی معذوروں اور ضرورت مندوں کی فلاح کے لیے وقف کرر کھی ہے ۔

(جاری ہے)

اِن کا تعلق ڈسٹرکٹ خانیوال ( پنجاب ) کے ایک گاؤں چتوڑ گڑھ سے ہے ۔


محترمہ میمونہ نور ایثار فاؤنڈیشن کی وائس پریزیڈنٹ ہیں ۔ انھوں نے ایم اے،بی ایڈ کر رکھا ہے۔محترمہ میمونہ نور چار سال کی تھیں جب انھیں پولیو ہوا اور پورا جسم ساکت ہو گیا ۔مسلسل تھراپی اور ایکسرسائز سے صرف اتنا فرق پڑا کہ بائیں ہاتھ سے لکھ لیتی ہیں یا کھانا کھا لیتی ہیں لیکن چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہیں۔ان کو ہر وقت ایک ہیلپر کی ضرورت ہوتی ہے ۔

محترمہ میمونہ نور کو بچپن سے ہی تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔معذور ی کی وجہ سے سکول جانا نا ممکن تھا لیکن اِس با ہمت اور با صلاحیت عورت نے ہمت نہ ہاری ۔کئی بار ایسا ہوا کہ سکول جاتے ہوئے گر پڑیں اور جسم پر چوٹیں بھی آئیں ۔ہیلپر کے بغیر سکول جانا نا ممکن تھا اِس لیے ہمیشہ ایک ہیلپرساتھ رکھا ۔محترمہ میمونہ نور نے میٹرک ، ایف اے،بی اے اور بی ایڈ میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی ۔

محترمہ میمونہ نور کو بچپن سے ہی writingاور drawingکا شوق تھا ۔یہی وجہ ہے کہ بچپن میں ہی کئی مقابلوں میں نمایاں پوزیشن لینے کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہیں ۔
محترمہ میمونہ نور نےIHRCکی ٹریننگ میں حصہ لیا تو اِس بین الاقوامی تنظیم نے انھیںGood Will Ambassadorکے اعزاز سے نوازا۔تعلیم جاری رکھی اور ساتھ ہی فیصلہ کیا کہ ایک تعلیمی ادارہ بنائیں گی ۔

اِس کے لیے انھو ں نے اپنی ملکیتی زمین میں ایک تعلیمی ادارہ بنایا ۔اِس ادارے کے پلیٹ فارم سے انھوں نے ضرورت مند طلبا ء و طالبات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کردیا ۔ یہ تعلیمی ادارہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔علاقے کے تمام ضرورت مند طلبا ء و طالبات نے اِس ادارے کا رخ کیا۔اِس ادارے کی ناکامی کے لیے پرائیویٹ سکولز میدان میں آگئے اور روڑے اٹکانا شروع کر دیئے۔

اِس کی وجہ یہ ہے کہ پرائیویٹ سکولز بھاری بھر کم فیسیں لیتے تھے جبکہ یہ ادارہ ضرورت مند طلباء و طالبات کو مفت تعلیم دے رہا تھا۔تمام مشکلات کے باوجودمحترمہ میمونہ نور نے ہمت نہ ہاری اور اپنے نیک مقصد کو جاری رکھا ۔یہی وجہ ہے کہ آج اِس تعلیمی ادارے میں 140سے زائد طلبا ء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔محترمہ میمونہ نور اِس فلاحی تعلیمی ادارے کو اور زیادہ وسعت دینا چاہتی ہیں ۔

وہ چاہتی ہیں کہ یہ ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی تعلیمی ادارہ بنے ۔اس کے علاوہ محترمہ میمونہ نورلاوارث ، عمر رسیدہ معذورلوگوں کے لئے Old Age Homeبنانے کا اراد ہ رکھتی ہیں۔اس فلاحی ادارے کا افتتاح بہت جلد کردیا جائے گا۔محترمہ میمونہ نور کہتی ہیں کہ میں اُن بے سہارا افراد کا سہارا بننا چاہتی ہوں جن کو سنبھالنے والاکوئی نہیں۔ بلا شک و شبہ محترمہ میمونہ نور ایک انقلابی شخصیت ہیں جن کا مقصدمعذوروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے ۔محترمہ میمونہ نور ہمارا قیمتی اثاثہ اور قوم کا فخر ہیں۔ایسے لوگ قوموں کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :