غدار نہیں

منگل 24 دسمبر 2019

Naseem Ul Haq Zahidi

نسیم الحق زاہدی

عجب رواج ہے میرے شہر کا نسیم 
کہ قاتل سے امید انصاف رکھنا
کہتے ہیں کہ قومیں تعدادسے نہیں شعور سے بنتی ہیں ۔اور اس بات میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم شعور بے بہرہ منتشر لوگ ہیں۔ بھیڑبکریوں کی طرح جو چاہے ہمیں ہانک کر لے جائے ہم نے کھانا تو گھاس ہی ہے خواہ وہ غلامی کا ہویا کسی قید خانے میں ملے،پاکستان کے قیام کا مقصد صرف ایک الگ ریاست کا حصول ہی نہیں تھا ۔

بلکہ ایک مکمل آزاد ضابطہ حیات تھی ۔اگر یہ غلامی قائم ہی رکھنی تھی تو اتنی قربانیاں دینے کا مقصد کیا تھا ؟
 انتہائی ادب کے ساتھ کہ غریب کل بھی غلام تھا غریب آج بھی غلام ہے اور ہمیشہ غلام ہی مرے گا کیونکہ اس کی زندگی مردوں سے بھی بدتر ہوتی ہے ۔افسوس کہ غلام کی سوچ بھی غلام ہی ہوتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان کی سوچ ہی اس کو آقا یا غلام بنا دیتی ہے ۔

(جاری ہے)

ایسے افراد کروڑوں کی تعدا د میں اس صفحہ ہستی پر موجود ہیں کہ جنہوں نے غلاموں کی زنجیروں کو توڑا اور غلام سے آقا بنے ہیں ۔
کیاپاکستان کی دھرتی خدانخواستہ اتنی بنجر اوربانجھ ہوچکی ہے کہ جس کے پاس چند خاندانوں کے سوا کوئی دوسراانسان موجود نہیں جو اس عوام کو قوم میں بدل سکتا ہو؟یا پھر ہم کو غلامی کی زنجیریں پسند آچکی ہیں ؟۔پہلے فرنگیوں،ہندوؤں،سکھوں کی غلامی اور اب وڈیروں ، جاگیرداروں،سرمایہ داروں کی غلامی ۔

 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھٹو کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا ،نوازشریف کی وجہ سے ہم کارگل میں جیتی جنگ ہار گئے (جس میں ہمارے بے شماروں جوان شہید ہوئے)دکھ اس بات کا ہے کہ ہم میں دشمن کو پہچاننے کی تمیز ہی نہیں ۔ایک غریب اگر ایک روٹی چوری کرلے تو اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ،اگر کسی ایک کانسٹیبل کی شان میں گستاخی کر بیٹھے تو اسے وحشیانہ تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

(ماروگے تو نہیں )اسی وقت قانون بھی حرکت میں آجاتا ہے ۔مگر میں قربان جاؤں اس بھٹو کہ جانشین وارث بلاول زرداری کہ جو سرعام افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلتا ہے ،نیب کو کالا قانون کہتا ہے ۔ہر اس عدالتی فیصلے کا جو ان کے خلاف آتا ہے مذاق اڑاتا ہے مگر مجال ہے کسی کی کہ کوئی اسے غدار کہہ کر پابند سلاسل نہیں کرتا،پھانسی کی سزا نہیں سناتا کیا جس ریاست میں اقتدار کے مزے لوٹے جائیں وہاں کے محافظوں کورہزن کہنا غداری کے زمرے میں نہیں آتا ؟جاکر سندھ تھرپارکر اور دیگر علاقوں کا حال دیکھے کہ جہاں آج بھی بھوک افلاس کا ننگا ناچ ہوتا ہے مگر وہاں بھٹو اب بھی زندہ ہے ۔

 کیا اس خاندان نے کبھی کوئی آئین شکنی نہیں کی ؟نوازشریف نے افواج پاکستان کے کردا ر پر انگلیاں اٹھائیں انکی صاحبزادی نے افواج پاکستان اور قومی سلامتی اداروں پر دشنام طرازیاں کی کیا یہ غداری کی صف میں نہیں آتے ؟کیا شریف حکومت نے کبھی کوئی آئین شکنی نہیں کی؟میں مانتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف نے آئین شکنی کی مگر فوجی سربراہ پر غداری کا الزام لگا کر اسے پھانسی کی سزا سنا دینا اور پھربیماری سے مرنے کی صورت میں اس کی لاش کو تین دن تک سرعام چوارہے پر لٹکانے کا حکم ذاتی عناد کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔

ایڈولف ہٹلر نے کہا تھا کہ کسی قوم پہ کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنا دو کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ۔اور ان مفاد پرست سیاستدانوں نے ہمیشہ یہی کام کیا ہے کہ ہمیشہ عوام کے اندر فوج کے کردار کو مشکوک ثابت کرنے کوشش کی ہے ۔یہ جوخود کو عوام کا خادم کہتے ہیں پہلے غریبوں سے روٹی چھینتے ہیں پھر ان کے آگے روٹی پھینک کر ان کے مسیحا بن جاتے ہیں ۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی لوگ ہیں ۔سقراط نے صدیوں پہلے کہا تھا "تباہ وبرباد ہوگئی وہ قوم جس کی بھاگ ڈور تاجروں کے ہاتھ میں آگئی "یہ لوگ عوام کے خادم نہیں بلکہ تاجر ہیں جنہوں ہمیشہ اپنے مفادات اوراقتدار کے حصول کے لیے پاکستان کی سا لمیت تک داؤپر لگا دی ۔تاریخ اس بات کی شائد ہے ۔کیا قوم کا پیسہ ہڑپ کرنا ملک وقوم سے غداری نہیں ؟ان محترم منصف سے یہی کہنا ہے کہ حضور میرے خیال میں سانحہ قصور کے مجرم کو سرعام پھانسی ہونی چاہیے تھی یا دیگر ایسے مجرموں کو جنہوں نے ایک انسان نہیں بلکہ انسانیت کا قتل کیامگر ایسے لاکھوں کی تعداد میں مجرم سرعام دندناتے پھرتے ہیں ۔

میں مانتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کا آئین توڑا جس کی دفعہ 6کے تحت جوکوئی بھی آئین کو توڑے یا سبوتاژ کرے گا ،اس کی سزا موت ہوگی ۔مگر چالیس سال تک اس ملک کی خدمت کرنے والے جس نے وطن عزیز کے دفاع کے لیے جنگیں لڑیں اس شخص کو غدار کہہ دینا سراسر زیادتی کے سوا کچھ نہیں ۔
اس فیصلہ پر افواج پاکستان کا ردعمل بالکل بجا اور جائز ہے اور بحیثیت ایک پاکستانی اپنے افواج سے محبت بھی میرے ایمان کا حصہ ہے۔

فوج کے سخت رد عمل کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر کسی بھی وقت سپہ سالار کو ایسی سزا سنادی جائے تو بحیثیت ادارہ فوج کی ساکھ اور کردار ختم ہوکر رہ جاتا ہے ۔سرحدوں پر کھڑے فوجی ،اندرون ملک دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے اور ملک دشمن کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اور محاذوں سے سرخروواپس لوٹنے والے کس طرح اپنے سالار کو غدار تسلیم کرسکتے ہیں ؟اس کیس کے قانونی پہلوؤں میں قانونی ماہرین کی رائے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ کئی اہم پہلوؤں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔

افواج پاکستان کے کردار پر انگلیاں اٹھانے اور غداری کا الزام لگانے والوں کو ایک ایک رات اس دسمبر کی یخ بستہ سردی میں سیاچن، گلیشیر،اور دیگر دوسرے بارڈر پر چھوڑآنا چاہیے صرف ایک رات اس کے بعد فیصلہ انکے ہاتھ میں ہے۔یہ عظیم لوگ پیسوں کے لیے نہیں بلکہ دفاع اسلام وپاکستان کے لیے لڑتے ہیں ۔یہ ہماری حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔

آج اگر پاکستان قائم ودائم ہے تو انہی سرفروشان اسلام کی وجہ سے ہے اور وطن عزیز کا چپہ چپہ انہی دھرتی کے عظیم سپوتوں کے مقدس لہو کا مقروض ہے ۔
افواج پاکستان کے بجٹ پر باتیں کرنے والوں سے یہی کہنا ہے کہ تم دس لاکھ روپے لیکر اپنے اکلوتے لخت جگر کو دشمنوں کی گولیوں کے سامنے کروگے؟ کبھی بھی نہیں ۔یہ لوگ بڑے مقام والے ہیں جن سے رب راضی ہے ۔

یہ مجاہد یہ غازی، افواج پاکستان در حقیقت ”فوج الٰہی “ہے ۔پرویز مشرف سیاسی جماعتوں کا ہدف ملکی سلامتی یا آئین کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچانے کی وجہ دشمن سمجھے جاتے ہیں ۔اس سوال کے ساتھ اجازت کیاملک کے وزیر اعظم کی طرف سے آرمی چیف کے طیارے کو ملک نہ اترنے کا حکم دینا حلف سے وفاداری ہے ؟جو ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھاکر ملک کے وزیر اعظم بنتے ہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :